تقریباً 5 ماہ کے بحران کے بعد بلوچستان میں سیاسی صورتحال استحکام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ چند روز قبل وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کی سرکردگی میں 14 رکنی کابینہ نے حلف اٹھا لیا۔ کابینہ میں بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے تمام رہنما شامل ہیں‘ جنہوں نے اپوزیشن کے ساتھ مل کر وزیر اعلیٰ جام کمال کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ کابینہ کی تشکیل اور حلف اٹھانے سے پہلے حکمران جماعت میں اختلافات کی خبریں میڈیا میں چھپی تھیں‘ مگر معلوم ہوتا ہے کہ وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کی قیادت میں ان اختلافات پر قابو پا لیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نئے وزیر اعلیٰ کو نہ صرف اپنی پارٹی بلکہ اپوزیشن پارٹیوں کی بھی حمایت حاصل ہے۔ اس کا مظاہرہ 29 اکتوبر کو عبدالقدوس بزنجو کا بلوچستان اسمبلی کے 39 اراکین کی حمایت کے ساتھ بطور وزیر اعلیٰ انتخاب ہے۔
گزشتہ پچاس برس میں بلوچستان میں حکومتی تبدیلیوں کے پیچھے صوبے کی قبائلی سیاست یا وفاقی حکومت کی مداخلت کارفرما رہی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ بلوچستان میں حکومتی تبدیلی بیرونی مداخلت یا قبائلی مسابقت کے بجائے جمہوری سیاسی طریقے سے عمل میں آئی ہے۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ صوبے میں وفاقی حکومت کی مداخلت کے امکانات ختم ہو گئے ہیں یا صوبائی سیاست میں قبائلی نظام کا کردار ختم ہو گیا ہے۔ صوبے کی سیاست کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ اب بھی سیاسی پارٹیوں کے بجائے قبائل کے گرد گھومتی ہے‘ لیکن جوں جوں انتخابی سیاسی عمل آگے بڑھتا جا رہا ہے، صوبے کے عوام میں اپنے معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کی خواہش مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ اس کا اثر صوبے کی سیاسی پارٹیوں پر بھی پڑتا جا رہا ہے اور انہوں نے متحد ہو کر جام کمال کو وزیر اعلیٰ کے منصب سے ہٹا دیا حالانکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری کے مطابق جام کمال کو کچھ حلقوں کی حمایت حاصل تھی۔ بلوچستان میں اس تبدیلی پر صوبے کے تمام سیاسی حلقے مطمئن ہیں اور انہیں یقین ہے کہ عبدالقدوس بزنجو‘ جو اس سے پہلے بھی وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں، صوبے کے معاملات چلاتے وقت تمام سیاسی پارٹیوں کو ساتھ لے کر چلیں گے۔
بلوچستان گزشتہ پانچ دہائیوں خصوصاً بگٹی قبیلے کے سربراہ سابق وزیر اعلیٰ نواب اکبر بگٹی کی مشرف دور میں شہادت کے وقت سے جن مخدوش، غیریقینی اور پُرتشدد حالات میں گھرا چلا آ رہا ہے، اس کے پیش نظر بلوچستان کی سیاسی قوتوں‘ خواہ وہ کسی بھی پارٹی کی نمائندگی کر رہی ہوں، کے درمیان اتحاد اور تعاون کی اشد ضرورت ہے تاکہ حکومت نہ صرف صوبے کی تعمیروترقی کی طرف یکسو ہو کر توجہ دے سکے، بلکہ اس کے دیرینہ اور سب سے اہم مسئلے کے حل یعنی جنگجویانہ سرگرمیوں میں ملوث بلوچ نوجوانوں کو بات چیت کے ذریعے پُرامن زندگی اختیار کرنے پر راضی کرنے کیلئے سنجیدہ اور مخلصانہ کوشش کی جائیں۔ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال تسلی بخش نہیں۔ سرکاری اہلکاروں پر فائرنگ اور قومی تنصیبات کو دھماکوں سے اڑانے کے واقعات نہ صرف جاری ہیں، بلکہ گزشتہ چند برسوں کے دوران ان میں تیزی آئی ہے۔ صوبے کی پوری سیاسی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو جام کمال کی جگہ عبدالقدوس بزنجو کا بطور وزیر اعلیٰ انتخاب ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ بزنجو صاحب کا انتخاب بلوچستان میں سیاسی اتفاق رائے کا مظہر ہے اور سب سے بڑھ کر اس کی اہمیت اس حقیقت میں مضمر ہے کہ جمہوریت میں آمرانہ طرز عمل رکھنے والے حکمران کو سیاسی پارٹیاں متحد ہوکر عہدے سے الگ کر سکتی ہیں۔
پاکستان میں لولی لنگڑی جمہوریت ہونے کے باوجود جام صاحب کی جگہ بزنجو صاحب کے انتخاب نے ثابت کر دیا ہے کہ کوئی حکومت انکلوسیو (inclusive) ہوئے بغیر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی۔ جام صاحب سے نہ صرف اپوزیشن بلکہ خود ان کی پارٹی کے لوگ بھی اس وجہ سے ناراض تھے کہ وہ فیصلہ سازی کیلئے مشاورت میں نہ صرف اپوزیشن بلکہ پارٹی کے لوگوں کو بھی شامل نہیں کرتے تھے۔ ان کی حکومت پر شخصی حکومت ہونے کا الزام تھا۔ اپوزیشن کو شکایت تھی کہ وہ اسے جمہوری سیاسی عمل کا حصہ نہیں سمجھتے۔ ان کے تمام فیصلے یکطرفہ ہوتے تھے اور آئینی طور پر وہ جس ادارے یعنی صوبائی اسمبلی کے سامنے جوابدہ تھے، پالیسی سازی کی عمل سے بالکل الگ تھلگ ہو کر رہ گیا تھا۔ اس کی واضح مثال اسمبلی میں پیش کئے جانے والے پچھلے سالانہ بجٹ کی دی جا سکتی ہے۔ اپوزیشن کا الزام تھا کہ جام کمال کی حکومت نے بجٹ کی سفارشات میں ان کے حلقوں کو مکمل طور پر نظرانداز کردیا تھا۔ جام صاحب کی حکومت نے اپوزیشن کی شکایات کا ازالہ نہیں کیا۔
کہا جاتا ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ نے اپنی کابینہ کے ارکان سے بھی یہی رویہ اپنایا ہوا تھا۔ اسی لئے اپوزیشن کے علاوہ ان کی اپنی پارٹی بھی ان کے خلاف ہوگئی۔ ان میں پیش پیش ظہور احمد بلیدی تھے جن کے پاس وزارت خزانہ کا قلمدان تھا۔ اپوزیشن اور بی اے پی کے باغی ارکان کی طرف سے وزیر اعلیٰ جام کمال کے استعفے کا مطالبہ کیا جانے لگا مگر انہوں نے انکار کر دیا اور دعویٰ کیا کہ ان کی پارٹی کے بیشتر ارکان اور صوبائی اسمبلی کی اکثریت ان کے ساتھ ہے‘ مگر مبصرین کی رائے ہے کہ جام صاحب کسی کی حمایت پر تکیہ کئے بیٹھے تھے۔ اسی اثنا میں چند وفاقی وزرا اور سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے بھی کوئٹہ کا دورہ کیا اور جام صاحب کی کرسی بچانے کی کوشش کی، لیکن مخالفین جام صاحب کے استعفے پر ڈٹے رہے۔ جب جام صاحب خود مستعفی ہونے پر راضی نہ ہوئے تو ان کے خلاف اسمبلی میں عدم اعتماد کی قرارداد پیش کر دی گئی۔ پہلے تو جام صاحب نے اعلان کیا کہ وہ آخری دم تک مقابلہ کریں گے، لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ اسمبلی کی اکثریت‘ جن میں ان کی اپنی پارٹی کے لوگ اور کابینہ کے ارکان بھی شامل ہیں‘ ان کا ساتھ چھوڑ چکی ہے، تو اسمبلی میں قراردادِ عدم اعتماد پر ووٹنگ سے ایک روز قبل عہدے سے مستعفی ہوگئے۔
امید ہے کہ نئے وزیر اعلیٰ کا دور بلوچستان میں نہ صرف سیاسی مفاہمت اور ترقی کا دور ہوگا بلکہ اس سے گورننس میں بھی بہتری آئے گی‘ مگر نئی حکومت کا اصلی امتحان ناراض بلوچوں کو منانے اور گمشدہ افراد (missing persons) کے مسائل سے پیدا شدہ چیلنجز سے کامیابی سے عہدہ برآ ہونے میں ہے۔ جہاں تک ناراض بلوچوں کو منانے کا تعلق ہے، صوبے کے ایک سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے دور (23 دسمبر 2015ء تا 7جون 2017ء) میں اس طرف کافی پیشرفت کی جا چکی تھی‘ لیکن عین اس وقت جب ایک اہم بریک تھرو ہونے والا تھا، ڈاکٹر مالک کو ایک طے شدہ فارمولا کے تحت وزارت اعلیٰ نواب ثنااللہ زہری کے حوالے کرنا پڑی۔ اس سے مصالحت کے عمل میں ایسا تعطل پیدا ہواکہ چھ سال گزرنے کے بعد بھی دوبارہ شروع نہیں کیا جا سکا۔ اسی طرح گمشدہ افراد کے مسئلے پر ایک سپیشل کمیشن بننے کے بعد بھی نہ صرف پہلے سے گمشدہ افراد میں سے بہت سے افراد کو ابھی تک بازیاب نہ کرایا جا سکا‘ بلکہ تازہ وارداتوں سے ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ بزنجو صاحب کی حکومت اس سلسلے میں کچھ کر پاتی ہے یا نہیں، یا پھر باقی حکومتوں کی طرح یہ بھی مجبور اور لاچار ثابت ہوتی ہے۔