ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے قدم اکھڑ گئے ہیں اور اس کا انجام صرف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کا منتظر ہے، لیکن گزشتہ چند ماہ میں ملک کے سیاسی افق پر چند ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن کی روشنی میں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ وفاقی حکومت‘ جس کی قومی معاملات پر گرفت پہلے ہی کمزور تھی‘ کی باقی مدت یکے بعد دیگر بحرانوں کا سامنا کرتے ہوئے گزرے گی۔
ان واقعات میں تازہ ترین قصرِ صدارت سے اعلان کے چند گھنٹے کے بعد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا مؤخر ہونا ہے۔ حکومت نے یہ اجلاس انتخابی اصلاحات‘ جن میں 2023ء کے انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال سرفہرست ہے، پر مبنی پیکیج کی منظوری کیلئے بلایا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اجلاس کے مؤخر ہونے کے اعلان سے صرف ایک گھنٹہ قبل وزیر اعظم اپنی اور اتحادی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اعزاز میں دئیے گئے ظہرانہ کے موقع پر خطاب میں پارلیمنٹیرینز کو متحد ہو کر اور ''جہاد‘‘ سمجھ کر مشترکہ اجلاس میں پیکیج کے حق میں ووٹ ڈالنے پر زور دے رہے تھے‘ مگر اس کی نوبت نہیں آئی کیونکہ اطلاعات کے مطابق حکومت کی اتحادی پارٹیوں یعنی مسلم لیگ (ق)‘ جی ڈی اے اور ایم کیو ایم (پاکستان) نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں انتخابی اصلاحات کے اس پیکیج کی منظوری میں حکومت کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ چونکہ وزیر اعظم کی اپنی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں اکیلے اکثریت حاصل نہیں اور وہ اقتدار میں رہنے کیلئے اتحادی جماعتوں اور چند آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے اراکین کی حمایت پر انحصار کرتی ہے‘ اس لیے حزب اختلاف کا یہ دعویٰ درست ہے کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اسی لیے مؤخر کیا گیا کہ حکومت کو سیشن میں شکست کا ڈر تھا۔
سوال یہ ہے کہ حکومت کو یہ کب پتہ چلا کہ اس کی اتحادی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ مشترکہ اجلاس میںانتخابی اصلاحات کے پیکیج پر اس کا ساتھ نہیں دیں گے؟ اگر حکومت اس معاملے پر اپنے اتحادیوں کے تحفظات سے پہلے ہی آگاہ تھی تو اس مشترکہ اجلاس بلانے سے پہلے ان تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی تاکہ اجلاس بلانے کے چند گھنٹے بعد ہی اسے مؤخر کرنے پر حکومت کو جو خفت اٹھانا پڑی ہے‘ اس سے بچاؤ ہو جاتا۔ اجلاس مؤخر ہونے کے بعد وزیرِ اطلاعات فواد چودھری نے کہا کہ حکومت اتحادی جماعتوں کے تحفظات دور کرنے کیلئے ان سے مشاورت کا سلسلہ شروع کرے گی۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ مشاورت کا یہ عمل پہلے ہی مکمل کر لیا جاتا۔ اگر ان تحفظات کی خبر وزیر اعظم کو پی ٹی آئی اور اتحادی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ سے خطاب کے بعد ہوئی تو یہ بڑی خطرناک بات ہے، کیونکہ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ ملک کا چیف ایگزیکٹو حکومتی معاملات سے کتنا بے خبر ہے‘ اورانہیں صرف فیصلوں سے آگاہ کیا جاتا ہے اور ان کا کام صرف ان پر عملدرآمد کروانا ہوتا ہے‘ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ وزیر اعظم اپنی اور اتحادی پارٹیوں کے ارکان اسمبلی کو زور و شور سے انتخابی اصلاحات کے پیکیج کے حق میں ووٹ ڈالنے کا کہیں اور جب تقریر ختم ہو تو تھوڑی دیر کے بعد مشترکہ اجلاس کے مؤخر ہونے کا اعلان کر دیا جائے۔
میرے خیال میں معاملہ یوں ہے کہ مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن نے حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ فیصلہ سوموار (8نومبر) کو قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی صدارت میں منعقدہ پارلیمانی اپوزیشن کے ایک اجلاس میں کیا گیا تھا۔ اس اجلاس میں قومی اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی مسلم لیگ (ن) اور پی ڈی ایم کی رکن باقی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی کے علاوہ بلاول بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ نے بھی شرکت کی۔ متحدہ اپوزیشن کی طرف سے طاقت کا یہ ایک ایسا مظاہرہ تھا جس کے ذریعے حکومت کو پیغام پہنچانا مقصود تھاکہ یکطرفہ سوچ پر مبنی حکومت کے فیصلوں کا اپوزیشن متحد ہو کر مقابلہ کرے گی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائدِ حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا کہ اپوزیشن میں شامل تمام سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں نے فیصلہ کیا ہے کہ الیکشن سے متعلق تمام ایشوز پر حکومت کے یکطرفہ فیصلوں کی پوری یکسوئی اور اتحاد کے ساتھ مخالفت کریں گے۔ بلاول بھٹو نے شہباز شریف کے اعلان سے اتفاق کیا۔ اگلے دن یعنی منگل (9 نومبر) کو متحد ہ اپوزیشن کا ایک اور اجلاس ہوا۔ اس میں اپوزیشن کے سینئر ارکان پر مشتمل دو کمیٹیاں بھی قائم کی گئیں۔ ان میں سے ایک کمیٹی کے ذمے حکومت کی اتحادی پارٹیوں کے ساتھ رابطہ قائم کرکے نیب اور EVM کے مسئلے پر اپوزیشن اور حکومتی اتحادیوں کو ایک پیج پر لانا تھا۔ دوسری کمیٹی قانونی ماہرین پر مشتمل تھی اور اس کا کام یہ تھا کہ اگر حکومت پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں اپنی عددی برتری کی بنیاد پر انتخابی اصلاحات اور ای وی ایم کے بارے میں بل کو بلڈوز کرنے میں کامیاب ہو جائے تو اس بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکے۔
شہباز شریف کی قیادت میں متحد ہونے والی پارلیمانی اپوزیشن نے حکومت کی صفوں میں بھگڈر مچا دی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ منگل کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت کو پرائیویٹ بلوں پر دو مرتبہ شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں سے ایک بل مسلم لیگ (ن) کے رکن جاوید حسین اور دوسرا پی ٹی آئی کی اسامہ قدیر نے پیش کیا تھا۔ حکومت کی مخالفت کی بنا پر جب ڈپٹی سپیکر نے گنتی کروائی تو حکومت کے مقابلے میں اپوزیشن کے ووٹ زیادہ نکلے۔ قومی اسمبلی میں دو بار شکست کی اہمیت کو اگرچہ حکومت نے یہ کہہ کر کم کرنے کی کوشش کی کہ یہ محض پرائیویٹ بلوں کا معاملہ تھا‘ جس میں سرکاری بنچ پوری طرح ملوث نہیں ہوتے؛ تاہم دونوں پرائیویٹ بلوں پر گنتی کے نتائج شکست کی صورت میں آنے سے حکومت کی سبکی ضرور ہوئی ہے اور اس کے مقابلے میں اپوزیشن کے حوصلے اور اعتماد میں اضافہ ہوا ہے‘ یہاں تک کہ وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے‘ مگر پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں کو یقین ہے کہ حکومت کو کسی طرف سے بھی کوئی خطرہ نہیں اور وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری کریں گے، کیونکہ اتحادی پارٹیوں کی طرف سے انتخابی اصلاحات کے پیکیج خصوصاً الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال پر تحفظات کے باوجود ایسے کوئی اشارے نہیں ملے کہ انہوں نے حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جہاں تک مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ''ایک پیج‘‘ پر آنے کا تعلق ہے، حکومت کے نزدیک یہ ایک عارضی مرحلہ ہے، کیونکہ حکومتی تبدیلی پر نون لیگ اور پی پی پی کے مابین بنیادی اختلافات ہیں۔ پی پی پی ان ہاؤس تبدیلی کے حق میں ہے، جبکہ نون لیگ ان ہاؤس تبدیلی کو بیکار سمجھتی ہے اور اس کا موقف ہے کہ ملک میں صحیح جمہوری اور عوام کی نمائندہ حکومت صرف صاف، شفاف انتخابات کے ذریعے ہی وجود میں آ سکتی ہے۔ پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اگرچہ شہباز شریف کو پارلیمانی اپوزیشن کو ایک بیچ پر لانے پر خراج تحسین پیش کیا ہے مگر اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ پی پی پی اور اے این پی، پی ڈی ایم میں دوبارہ شامل ہو جائیں۔ اگر پی پی پی، پی ڈی ایم سے دور رہتی ہے، تو موخرالذکر کی طرف سے حکومت کے خلاف چلائی جانے والی تحریک بڑے بڑے جلسوں کے باوجود ملک گیر حیثیت حاصل نہیں کر سکتی۔