افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی نے حال ہی میں پاکستان کا دورہ کیا۔ یہاں انہوں نے پاکستانی حکام سے جن امور پر بات چیت کی ان میں دو طرفہ تعلقات، تجارت کے فروغ اور سرحدی علاقوں میں امن و امان کے علاوہ پاکستان کے راستے بھارت سے افغانستان میں گندم لانے کی اجازت کی درخواست بھی شامل ہے۔ بھارت نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغانستان کو گندم فراہم کرنے کی یہ پیشکش 20 اکتوبر کو ماسکو میں روس، چین، ایران، بھارت، پاکستان اور افغانستان کے دیگر ہمسایہ ممالک پر مشتمل ''ماسکو فارمیٹ‘‘ کی ایک کانفرنس کے موقع پر بھارت اور افغان طالبان کے درمیان ایک غیر رسمی ملاقات میں کی تھی‘ جسے افغان طالبان نے قبول کر لیا تھا۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق پاکستان نے ابھی اس درخواست کا فوری جواب نہیں دیا؛ تاہم وزیر اعظم عمران خان نے اس درخواست پر ایک سپیشل کیس کی حیثیت سے غور کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
طالبان کی اس درخواست پر فیصلہ کرنا آسان نہیں کیونکہ پاکستان کے راستے (واہگہ سے طورخم) بھارتی اشیا افغانستان لے جانے پر سخت پابندی ہے۔ افغانستان کے سابقہ دور میں بھی اس قسم کی درخواست کو پاکستان نے مسترد کر دیا تھا جس کے نتیجے میں کابل کو بھارت کی جانب سے گندم کی کھیپ کراچی کے راستے پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے فریم ورک میں منگوانا پڑی۔ لیکن اس وقت پاکستان کو مختلف حالات کا سامنا ہے۔ افغانستان میں اب ایسی حکومت قائم ہے جو پاکستان کے بارے میں سابق حکومتوں کے معاندانہ رویے کے برعکس انتہائی دوستانہ اور قریبی تعاون پر مبنی تعلقات کی حامی ہے۔ پاک، افغان تعلقات میں کشیدگی اب ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔ 15 اگست کے بعد طالبان کو حکومتی کاروبار چلانے میں جو عملی مشکلات اور جو مسائل درپیش آئے، ان پر قابو پانے میں پاکستان نے طالبان کی حکومت کی جو مدد کی ''امارت اسلامیہ افغانستان‘‘ نے اس کا بھرپور شکریہ ادا کیا۔ اسی لیے پاکستان کا افغانستان کی موجودہ حکومت کی درخواست پر ردعمل، وہ نہیں ہوگا جو اس سے قبل افغان حکومتوں کی طرف سے کی گئی اس قسم کی درخواستوں پر ہوتا تھا۔ دوسرے‘ افغانستان اس وقت سخت غذائی قلت بلکہ قحط جیسی صورتحال سے دوچار ہے۔ عالمی ادارہ خوراک کے ایک نمائندے نے حال ہی میں افغانستان کا دورہ کرنے کے بعد ایک بیان میں ملک کی جو صورتحال بیان کی، وہ انتہائی تشویشناک ہے اور سردیوں کے موسم میں اس کے مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ پاکستان خود بین الاقوامی برادری پر زور دے رہا ہے کہ افغان عوام کو فوری طور پر انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ گزشتہ دو ماہ میں روس اور پاکستان کے انیشی ایٹو پر افغانستان کے ہمسایہ اور خطے کے دیگر اہم ممالک کی جو کانفرنسیں منعقد ہوئیں، ان میں بھی افغانستان کیلئے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فوری امداد کی فراہمی پر زور دیا گیا۔
صورتحال کا تقاضا تو یہ ہے کہ پاکستان، افغان طالبان کے وزیر خارجہ کی درخواست قبول کرتے ہوئے، بھارتی گندم کو واہگہ کے راستے طورخم تک بذریعہ سڑک لے جانے کی اجازت دے۔ بھارت کی یہ گندم یا دوسرا امدادی سامان افغانستان کو ایک اور راستے سے بھی فراہم کیا جا سکتا ہے۔ یہ تجارتی راستہ بھارت کے مغربی ساحل پر واقع بندرگاہ ممبئی سے ایران کی بندرگاہ چابہار اور چابہار سے افغانستان تک جاتا ہے۔ اس تجارتی راستے کا افتتاح 2017ء میں کیا گیا تھا اور اب تک افغانستان کی بھارت کے ساتھ درآمدی اور برآمدی تجارت اسی راستے سے ہوتی ہے‘ لیکن یہ راستہ جسے ''نارتھ کوریڈور‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ واہگہ، طورخم راستے یعنی 8217 کلومیٹر سے تین گنا طویل ہے۔ اس لیے مالی لحاظ سے افغان، بھارت تجارت کیلئے یہی راستہ واہگہ، طورخم زیادہ سودمند ہے اور امکان ہے کہ بھارت کے ساتھ تجارت کیلئے افغانستان میں طالبان کی حکومت کی طرف سے پاکستان پر اسی راستے کو استعمال کرنے پر زور دیا جائے گا۔
گزشتہ دور میں پاک افغان دو طرفہ تجارت میں جو کمی آ گئی تھی، اسے دور کیا جا رہا ہے اور دونوں کی دو طرفہ تجارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسے مزید فروغ دینے کیلئے پاکستان نے افغانستان کی بعض تجارتی اشیا خصوصاً سبزیوں اور پھلوں پر درآمدی ڈیوٹی بہت کم کر دی ہے، بلکہ بعض اشیا پر ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے۔ ان اقدامات کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کی دو طرفہ تجارت کا حجم تیزی سے بڑھ رہا ہے اور ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف تجارتی حلقوں کو امید ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی دو طرفہ تجارت کا حجم اسی سطح (تقریباً 2.5 بلین ڈالر) تک بلند ہو جائے گا، جو آج سے تقریباً ایک دہائی قبل تھی۔ پاکستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت میں اضافے کے باوجود افغان، بھارت دوطرفہ تجارت میں بھی اضافے کا امکان ہے کیونکہ یہ دونوں ممالک کی خواہش ہے۔ یہ خواہش قدرتی ہے اور حالات کا تقاضا بھی، کیونکہ افغانستان کی معیشت کا تمام تر انحصار اس کی زرعی اجناس اور باغوں کے پھل کی ہمسایہ اور سمندر پار ممالک کو برآمد پر ہے۔ افغانستان کی کوئی بھی حکومت خواہ وہ طالبان کی ہو یا غیر طالبان عناصر کی، بھارت کی اس منافع بخش منڈی کو نظر انداز نہیں کر سکتی بلکہ اس سے فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کرے گی۔ طالبان سے پہلے افغان حکومتوں نے پاکستان سے اسی کے راستے نہ صرف اپنی برآمدات بلکہ بھارت سے درآمدات بھی حاصل کرنے کی کوشش کی، مگر وہ اس کوشش میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ اس کامیابی کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ پاکستان کی عرصہ دراز سے چلی آنے والی صائب یہ پالیسی ہے کہ جب تک بھارت کے ساتھ اس کے سیاسی مسائل، جن میں کشمیر کو پہلا نمبر حاصل ہے‘ حل نہیں ہوتے، پاکستان بھارت کو اپنے علاقے سے گزر کر افغانستان اور اس سے آگے وسطی ایشیا کے ممالک کی منڈیوں تک رسائی نہیں دے گا‘ لیکن گزشتہ کچھ عرصہ میں پاکستان نے اپنی اس پالیسی میں قدرے لچک کا مظاہرہ کیا ہے مثلاً ابتدا میں پاکستان وسطی ایشیا کے ملک ترکمانستان سے افغانستان کے راستے گیس پائپ لائن کو بھارت تک توسیع کے خلاف تھا، لیکن جب اس منصوبے میں بھارت کی شمولیت کے بغیر بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے امداد دینے اور ترکمانستان نے منصوبہ شروع کرنے سے انکار کر دیا تو اس گیس پائپ لائن‘ جو اب TAPI کے نام سے مشہور ہے، کی بھارت تک توسیع کر دی گئی۔ اسی طرح پاکستان ایران(PI)گیس پائپ منصوبے میں پہلے بھارت بھی شامل تھا، بعد میں بھارت نے سکیورٹی اور دیگر وجوہات کی بناء پر اس سے علیحدگی اختیار کر لی۔ 5 اگست 2019ء کے بعد سے پاک بھارت تعلقات تاریخ کے کشیدہ ترین دور سے گزر رہے ہیں‘ اس کے باوجود گزشتہ سال فروری میں پاکستان کی جانب سے بھارت سے چینی اور کپاس خریدنے کی تجویز سامنے آئی تھی۔ بعد میں پاکستان نے رائے عامہ کی مخالفت کی وجہ سے یہ فیصلہ واپس لے لیا‘ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ مستقل فیصلے ہیں اور ان پر نظر ثانی نہیں ہو سکتی۔ اگر افغان طالبان کے وزیر خارجہ کی درخواست منظور کرتے ہوئے پاکستان اپنی سرزمین سے بھارتی گندم افغانستان لے جانے کی صرف ایک دفعہ ہی اجازت دے دیتا ہے تو اس سے پاکستان اور افغانستان کے راستے جنوبی اور وسطی ایشیا کے درمیان علاقائی رابطوں (Regional Connectivity) کے قیام کے آئندہ امکانات روشن تر ہو جائیں گے۔