پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے حکومت نے انتخابی اصلاحات کے بارے میں پیکیج کی منظوری تو حاصل کر لی ہے، لیکن جس طریقے سے یہ مقصد حاصل کیا گیا ہے، اس نے ملک کو مزید بحرانی کیفیت سے دوچار کر دیا ہے کیونکہ اپوزیشن نے حکومت پر متعدد بلوں (Bills) پر مشتمل اس پیکیج کو سیشن میں بلڈوز کرنے کا الزام لگایا ہے۔ اپوزیشن نے اس مشترکہ اجلاس کی صدارت کرنے والے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر پر جانب داری کا الزام بھی لگایا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ پیکیج کے بلوں کو ایوان میں کسی بحث کے بغیر عجلت میں یکے بعد دیگرے منظور کروایا گیا‘ اپوزیشن کو ان بلوں پر رائے دینے کا کوئی موقع نہیں دیا گیا۔ اپوزیشن کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ وہ 17 نومبر کے مشترکہ پارلیمانی اجلاس اور اس کی کارروائی کو اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کرے گی۔ اپوزیشن کے اس چیلنج کرنے کے عمل کا نتیجہ کیا نکلتا ہے یہ تو عدالتی فیصلہ سامنے آنے کے بعد ہی پتا چلے گا‘ فی الحال میں اس تحریر میں اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کروں گا کہ آئین کی رو سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کے لیے کیسی سیاسی صورتحال ہونا ضروری ہے۔ بلا شبہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلوانا حکومت کا استحقاق ہے لیکن میرے خیال میں یہ استحقاق مخصوص حالات میں ہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف حکومت کا موقف ہے کہ اس نے پوری کوشش کی تھی کہ انتخابی اصلاحات اور دیگر بلوں کے اس پیکیج کو اپوزیشن کے ساتھ مشاورت کے بعد پیش کیا جائے‘ مگر اپوزیشن نے تعاون نہیں کیا۔ اس کے لیے حکومت نے سپیکر قومی اسمبلی کی قیادت میں قائم کی جانے والی ایک پارلیمانی کمیٹی کی مثال دی۔ اس کمیٹی کا مقصد حکومت اور اپوزیشن کے نقطہ نظر کی روشنی میں ایک متفقہ پیکیج کو ایوان میں پیش کرنا تھا‘ لیکن حکومت کے دعوے کے مطابق اپوزیشن سرے سے ہی اس پیکیج کے خلاف تھی اور وہ اپنی ضد پر قائم رہی۔ ان حالات میں حکومت کے پاس پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظوری حاصل کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ قانون سازی کو پارلیمنٹ کے فرائض میں اولین حیثیت حاصل ہے اور بدلتے ہوئے حالات پرانے قوانین میں ترمیم یا نئے قوانین کی تشکیل کا تقاضا کرتے ہیں۔ اسی لیے دنیا کی ہر پارلیمنٹ میں قانون سازی ہوتی ہے، مگر اس اہم کام کو آئین میں دئیے گئے ایک طے شدہ طریقے کے مطابق کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے آئین کے مطابق پارلیمنٹ کے دونوں ایوان یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ اپنے اپنے اختیارات کے مطابق قانون سازی میں حصہ لیتے ہیں۔طے شدہ اصول کے مطابق کسی بل کو صدرِ پاکستان کی منظوری اور اسے باقاعدہ قانون کی شکل میں تبدیل کرنے سے قبل ضروری ہے کہ بل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ سے علیحدہ علیحدہ منظور ہو۔ مشترکہ اجلاس کی نوبت اس وقت آتی ہے جب بل پر دونوں ایوانوں میں ڈیڈ لاک ہو۔ دراصل اس ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جاتا ہے‘ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ بل پر دونوں ایوانوں کا علیحدہ علیحدہ موقف سامنے آ جائے‘ اور یہ صرف اس وقت ممکن ہے جب بل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں علیحدہ علیحدہ پیش ہو۔ پاکستان کے آئین کے مطابق قانون سازی یعنی بل کو منظوری کے لیے پیش کرنے کے عمل کا قومی اسمبلی اور سینیٹ میں سے کسی ایک ایوان میں آغاز کیا جا سکتا ہے‘ لیکن براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے کی وجہ سے قومی اسمبلی کو بعض معاملات میں سینیٹ پر فوقیت حاصل ہے‘ مثلاً منی بل (Money Bill) کو صرف قومی اسمبلی میں ہی پیش کیا جا سکتا ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم (2010)ء سے قبل قانون سازی میں قومی اسمبلی کے مقابلے میں سینیٹ کے اختیارات بہت محدود تھے‘ لیکن صوبائی خود مختاری کی حامی لابی کے زیر اثر سینیٹ کو قانون سازی میں کچھ ویٹیج (Weightage) حاصل ہے۔ پہلے سینیٹ کو قومی اسمبلی میں منظوری کے بعد بل کو مسترد کرنے یا اس میں ترمیم کرنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں تھا‘ لیکن اب سینیٹ‘ جو کہ براہ راست عوام کے ووٹوں کے بجائے، اراکین صوبائی اسمبلیوں پر مشتمل ایک الیکٹوریٹ سے منتخب ہوتی ہے‘ کو قومی اسمبلی سے ہٹ کر کسی بل پر اپنی رائے دینے کا حق حاصل ہے‘ اور اگر یہ رائے قومی اسمبلی کی رائے سے متصادم ہو اور سینیٹ اور قومی اسمبلی اپنی رائے پر قائم رہیں تو قانون سازی کے عمل کی بلا روک ٹوک پیش رفت کے لیے مشترکہ اجلاس کا آپشن استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دیگر الفاظ میں مشترکہ سیشن کا جواز صرف اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ایک بل پر باری باری دونوں ایوانوں میں باقاعدہ بحث ہو، ارکان پارلیمنٹ اپنی اپنی رائے کا اظہار کریں اور اس کے نتیجے میں اگر ان دونوں ایوانوں سے ایک دوسرے سے متصادم رائے سامنے آئے تو قانون سازی کے عمل میں اس سے پیدا ہونے والی رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جا سکتا ہے۔ اس اصول کو پاکستان کے ایک اور آئینی ادارے یعنی کونسل آف کامن انٹرسٹس (The Council of Common Interests) یا سی سی آئی میں آئین کے مطابق فیصلہ سازی کے دئیے گئے طریقہ کار کا حوالہ دے کر واضح کیا جا سکتا ہے۔ مشترکہ مفادات کی کونسل (CCI) میں فیصلے اکثریت کے بجائے اتفاق رائے (Concensus) کی بنیاد پر ہوتے ہیں‘ لیکن اس میں کوئی رکاوٹ آ جائے تو پھر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں کہ کونسل میں کسی مسئلے کو پیش کرنے کے بجائے سیدھا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کر دیا جائے۔
میری ذاتی رائے میں حکومت نے قانون سازی کے ایک اہم مسودے کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں علیحدہ علیحدہ پیش کرنے کے بجائے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں براہ راست پیش کر کے نہ صرف قانون سازی کے عمل کی روح اور غرض و غایت سے روگردانی کی ہے، بلکہ ایسے قوانین‘ جو مستقبل میں عوام کی زندگیوں پر مختلف انداز میں اثر انداز ہو سکتے ہیں، پر تفصیلی بحث کے فوائد سے بھی عوام کو محروم کیا ہے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس عجلت میں بلایا گیا اور جس عجلت کے ساتھ چند گھنٹوں میں اس کی کارروائی مکمل کی گئی، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کو جمہوریت کی روح کے مطابق ان قوانین کی تفصیلات سے عوام کو آگاہ کرنے کے بجائے، ان قوانین کو صرف منظور کروانے سے غرض تھی۔ سوچنے کا مقام ہے کہ بھلا ایسے قوانین جن پر بے شک پارلیمنٹ کی منظوری کا ٹھپہ لگا ہوا ہو، ملک میں اس جمہوری سیاسی عمل کو آگے بڑھانے میں کیسے مددگار ثابت ہوں گے، جس کی تشکیل کے عمل میں حکومت سے آدھے سے زیادہ پاپولر ووٹ حاصل کرنے والے ارکان پارلیمنٹ کا ان پٹ شامل نہ ہو؟ پاکستان کا آئین بے شک جمہوری ہے اور گزشتہ 74 برسوں کے دوران اس کے ارتقاء سے جمہوریت کو مزید تقویت حاصل ہوئی ہے، لیکن اب بھی اس میں کئی ایسی دفعات موجود ہیں جنہیں آمرانہ ذہن رکھتے ہوئے حکمران اپنی مرضی کے فیصلے کرنے کیلئے استعمال (manipulate) کر سکتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کی شراکت کے بغیر انتخابی اصلاحات کے پیکیج کو یک طرفہ طور پر منظور کروانا اس کی ایک مثال ہے۔