وزیر اعظم عمران خان نے اکتوبر میں ایک غیرملکی ٹی وی نیٹ ورک کے ساتھ انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے کچھ دھڑوں کے ساتھ مذاکرات چل رہے ہیں۔ پاکستان کی فوج، پولیس، سیاسی کارکنوں اور معصوم شہریوں کی قاتل اس تنظیم کے بارے میں حکومت پاکستان کی پالیسی کی نوعیت، سمیت اور مقاصد کے بارے میں مختلف حلقوں کی طرف سے مختلف سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، لیکن ان میں سے کسی کا بھی کوئی تسلی بخش جواب موصول نہیں ہو رہا۔
پہلا سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان نے افغانستان میں طالبان حکومت کے دوبارہ قیام کے بعد ٹی ٹی پی کے بارے میں اپنا پہلا موقف تبدیل کر دیا ہے؟ کیونکہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ افغانستان کے صوبہ خوست میں افغان طالبان کی مدد سے جاری مذاکرات کا مقصد مصالحت (Reconciliation) ہے‘ اور اگر ٹی ٹی پی کے جنگجو ہتھیار پھینک دیں تو انہیں ان کے تمام سابقہ جرائم معاف کر دئیے جائیں گے۔ لیکن حکومت پاکستان ٹی ٹی پی کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہوئے اسے افغانستان کی سابقہ حکومتوں اور افغانستان و بھارت کی خفیہ ایجنسیوں بالترتیب این ڈی ایس اور ''را‘‘ کا ایجنٹ قرار دے چکی ہے۔ کیا گھناؤنے جرائم کے مرتکب گروہ کے ساتھ ''مصالحت‘‘ کا تصور کیا جا سکتا ہے؟ اور اگر حکومتِ پاکستان نے اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل کر لیا ہے تو اس تبدیلی کا کیا جواز ہے؟ اور قوم کو اس سے کیوں آگاہ نہیں کیا گیا؟ مذاکرات کے بارے میں اس وقت انکشاف کیا گیا جب انہیں شروع ہوئے کچھ عرصہ گزر چکا تھا بلکہ وزیر اطلاعات فواد چودھری کے مطابق ان میں کافی پیشرفت بھی ہو چکی تھی۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ ''مصالحت‘‘ کیلئے ٹی ٹی پی کی کیا شرائط ہیں؟ کیونکہ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت (2008ء تا 2013ء) میں جب پاکستان نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے کوشش کی گئی تھی تو ٹی ٹی پی نے ایک 10 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈز پیش کیا تھا‘ جس میں سرِفہرست پاکستان میں موجودہ پارلیمانی جمہوری سیٹ اپ یعنی 1973ء کے آئین کے تحت ریاست اور حکومت کے نظام کی جگہ افغان طالبان کی تقلید میں اسلامی نظام قائم کرنا تھا۔ تازہ اطلاعات کے مطابق ٹی ٹی پی اپنے اس سابقہ مطالبے سے دستبردار نہیں ہوئی بلکہ اس کے موجودہ رہنما نور ولی محسود کے بیان کی روشنی میں‘ اس نے اپنے مطالبات میں اور اضافہ کر دیا ہے۔
قومی سیاسی دھارے میں شامل ہو کر Mainstream سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا پاکستان کے ہر شہری، گروپ اور پارٹی کا حق ہے‘ لیکن اس کیلئے لازمی شرط یہ ہے کہ یہ سرگرمیاں آئین اور قانون کی حدود میں رہ کر جاری رکھی جائیں۔ پاکستان میں دو سو سے زائد سیاسی پارٹیاں ہیں اور ان میں سیاسی اور نظریاتی اختلافات بھی ہیں لیکن سب میں قدرِ مشترک موجوہ آئینی اور قانونی فریم ورک میں رہ کر سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھنے پر اتفاق ہے۔ کیا ٹی ٹی پی پاکستان کے موجودہ آئینی اور قانونی ڈھانچے میں رہتے ہوئے اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے پر تیار ہے؟ حکومت اور ٹی ٹی پی کے ذرائع کے حوالے سے اب تک کوئی ایسی اطلاع موصول نہیں ہوئی جو اس سوال کا ہاں کی شکل میں جواب فراہم کرے۔ اگر صورتحال ایسی ہے تو ایک دہشت گرد تنظیم کو قومی سیاست کے دھارے میں لانے کا کیا جواز ہے؟
تیسرا اہم سوال یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کس مرحلے میں ہیں؟ وزیر اعظم کے انٹرویو سے اب تک حکومت کے ذمہ داران متضاد بیانات دیتے چلے آ رہے ہیں۔ مثلاً نومبر کے پہلے ہفتے میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے بیان جاری کیا کہ طالبان کی مدد سے حکومتِ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان ایک عرصہ سے جاری مذاکرات میں مکمل جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا ہے اور جن شرائط پر جنگ بندی کا یہ معاہدہ ہوا، ان پر مبینہ طورپر عمل درآمد بھی شروع ہو گیا ہے۔ اگرچہ ان شرائط کو ظاہر نہیں کیا گیا، لیکن کہا جاتا ہے کہ ان میں پاکستانی جیلوں میں بند نچلے درجے کے ٹی ٹی پی جنگجوؤں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل ہے۔
وزیر اعظم کے انٹرویو سے جب قوم کو معلوم ہوا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ ایک دفعہ پھر مذاکرات کیے جا رہے ہیں تو ماضی میں ہونے والے مذاکرات اور ان کے نتائج عوام کے ذہنوں میں گھوم گئے اور میڈیا، سول سوسائٹی اور سیاسی پارٹیوں کی طرف سے ٹی ٹی پی کے ساتھ جاری مذاکرات پر تحفظات کا اظہار کیا جانے لگا۔ ان تحفظات میں یہ خدشہ نمایاں تھا کہ مذاکرات کے نتیجے میں ایسے معاہدے ہوں گے جن سے ریاست کی رٹ کمزور اور دہشت گردوں کی پوزیشن مضبوط ہو جائے گی۔ عوامی حلقوں میں ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات پر تشویش میں اضافے کی وجوہات میں یہ حقیقتیں بھی شامل تھیں کہ ان مذاکرات کا انکشاف اس وقت کیا گیا جب فریقین ان میں کافی پیشرفت کر چکے تھے۔ کس سطح پر یہ مذاکرات ہو رہے تھے اور کب تک جاری رہیں گے؟ ان کے بارے میں عوام کو بالکل بے خبر رکھا گیا‘ حتیٰ کہ ان مذاکرات کے بارے میں جب وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں ان مذاکرات کا علم ہے اور نہ ہی وزارت داخلہ کا ان میں کوئی کردار ہے‘ اس قسم کے فیصلے اعلیٰ ترین سطح پر کیے جاتے ہیں۔ معلوم نہیں کہ حکومت‘ جو ریاست پاکستان کے لامحدود اختیارات استعمال کرنے کا واحد حق دار ادارہ ہے، سے بالاتر کون سے ''اعلیٰ ترین سطح‘‘ کے حکام ہیں، جو ایک ایسے مسئلے پر معاملات طے کر رہے ہیں‘ جن کا براہ راست اور قریبی ترین تعلق اندرونی امن و امان، تحفظ اور انسانوں کے جان و مال سے ہے، مگر وزارت داخلہ ان سے لاتعلق ہے؟ پاکستانی قوم نے دہشت گردی کے خلاف عظیم قربانیاں دی ہیں۔ دہشت گردوں کی طرف سے ملک کی سلامتی اور عوام کی جانوں کو جو خطرات لاحق تھے، ہماری فوج کے بہادر جوانوں اور پولیس کے فرض شناس سپاہیوں نے سینے پر گولیاں کھا کر ان کا کامیابی سے مقابلہ کیا ہے۔ اس کے باوجود ملک میں دہشت گرد دندناتے پھرتے ہیں۔ وہ جب چاہیں، جہاں چاہیں سکیورٹی تنصیبات اور عوام کو بم دھماکوں اور خود کش حملوں کا نشانہ بناتے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر بھی دہشت گردی کے خلاف ہماری قربانیوں کو اس طرح پذیرائی حاصل نہیں جس طرح ان کا حق بنتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اہم ترین فیصلے عوام کو بے خبر رکھ کر کیے جاتے ہیں حتیٰ کہ عوام کے منتخب نمائندوں اور اہم ریاستی اداروں مثلاً پارلیمنٹ کو بھی آن بورڈ نہیں لیا جاتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ خود ملک کے اندر عوامی سطح پر حکومت کے دعووں اور یقین دہانیوں پر اعتماد نہیں کیا جاتا۔ اس خطرناک صورتحال کی طرف محب وطن حلقوں کی جانب سے بارہا توجہ دلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہماری سیاسی کمیونٹی اور سول سوسائٹی کی طرف سے یہ مطالبہ کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے بالکل جائز اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے نیشنل سکیورٹی کے بیان کے مطابق ٹی ٹی پی دس پندرہ برس تک بھارتی اور افغان انٹیلی ایجنسیوں کی امداد سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کا ارتکاب کرتی رہی ہے مگر افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد ان کا سپورٹ بیس ختم ہو گیا۔ اس سے ہم یہ کیسے نتیجہ اخذ کر لیں کہ ان کا کریکٹر بدل گیا ہے؟