صوبہ پختونخوا میں منعقد ہونے والے حالیہ بلدیاتی انتخابات کا حال دیکھ کر سمجھ آ گئی ہے کہ سیاسی خصوصاً برسر اقتدار جماعتیں بلدیاتی انتخابات سے کیوں بھاگتی ہیں؟ اپنی پارٹی کی شکست پر تبصرہ کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے ایک سینئر لیڈر‘ وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی شبلی فراز نے کہا ہے کہ ان انتخابات میں پی ٹی آئی کو پی ٹی آئی نے ہرایا ہے کیونکہ جب ایک حلقے میں ایک ہی پارٹی کے چار پانچ امیدوار آپس میں مقابلہ کر رہے ہوں تو نتیجہ یہی برآمد ہوتا ہے۔ خود وزیر اعظم نے اعتراف کیا کہ ٹکٹوں کی تقسیم میں غلطی ہوئی ہے اور ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دیے گئے جنہیں عوام کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ پی ٹی آئی کے باقی رہنماؤں کا خیال ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے پارٹی کے امیدوار ہارے۔ اصل بات یہ ہے کہ ایک آدھ کو چھوڑ کر پاکستان کی تمام مین سٹریم پارٹیاں ماس (Mass) پارٹیاں ہیں۔ یعنی ایک منظم پارٹی کے بجائے، ان کی حیثیت ایک تحریک کی ہے۔ پاکستان حاصل کرنے والی آل انڈیا مسلم لیگ نے علیحدگی کے نام پر اپنا ٹارگٹ حاصل کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے 1970ء میں روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے کی بنیاد پر کامیابی حاصل کی‘ لیکن اقتدار میں رہتے ہوئے جب بلدیاتی اداروں کے انتخابات کا مرحلہ آیا تو اداروں کے بجائے پیپلز ورکس پروگرام متعارف کروا دیا۔ اسی طرح پی ٹی آئی نے کرپشن کے خلاف جنگ کی بنیاد پر عوام سے ووٹ مانگے اور کامیابی حاصل کی۔ صوبہ پختونخوا میں تو اسے دوسری دفعہ 5 سالہ مدت کیلئے حکومت بنانے کا موقع حاصل ہوا لیکن وعدے کے باوجود وہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے ہچکچا رہی تھی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ قومی اور صوبائی سطح پر انتخابات کے مقابلے میں مقامی یعنی لوکل گورنمنٹ کی سطح پر کارفرما عوامل مختلف ہوتے ہیں۔ یہاں ذاتی تعلقات، خون کے رشتے، برادری ازم، خاندانی وقار اور اردگرد رہنے والوں کے درمیان امتیازی حیثیت حاصل کرنے کا شوق زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے پارٹی قیادت پر اتنا پریشر پڑتا ہے کہ اسے اکثر حلقوں میں پارٹی کارکنوں کی رائے کے خلاف امیدواروں کا چناؤ کرنا پڑتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے ساتھ یہی ہوا۔ یہاں امیدواروں کا چناؤ کارکنوں کی رائے سے نہیں بلکہ پارٹی کے بڑے بڑے عہدیداروں، ایم این ایز، ایم پی ایز، وفاقی اور صوبائی وزیروں اور قومی اور صوبائی اسمبلی کے سپیکرز کی مرضی سے ہوا۔ چونکہ کارکنوں کی حمایت انہیں حاصل نہ تھی، اس لئے ہار گئے۔ شکست کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مقامی سطح پر عام لوگوں کو مہنگائی کے علاوہ جن دیگر مسائل اور دقتوں کا سامنا ہے، پچھلے آٹھ سال سے برسر اقتدار پی ٹی آئی حکومت نے انہیں حل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ قبائلی علاقوں اور صوبے کے دیگر علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کئے گئے۔ ان آپریشنز کے نتیجے میں سینکڑوں خاندانوں کے ہزاروں افراد کو اپنا گھربار، مال مویشی اور کاروبار چھوڑنا پڑا۔ حکومت نے ان کی اپنے گھروں کو واپسی اور بحالی کا اعلان کیا اور اس کیلئے فنڈز بھی مختص کئے۔ اس اعلان پر کچھ عمل بھی ہوا‘ جس کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے چند افراد واپس اپنے گھروں میں پھر سے آباد ہو چکے ہیں مگر اب بھی ان کی بہت بڑی تعداد بے گھر اور بے آسرا ہے۔ اس کے علاوہ کئی اقدامات سے پی ٹی آئی کی حکومت کو عوامی پذیرائی مل سکتی تھی، مثلاً سابقہ ''فاٹا‘‘ کا صوبہ پختونخوا میں انضمام۔ صوبائی حکومت کی طرف سے اس پر صحیح طریقے سے اور بروقت عملدرآمد نہ ہونا عوام میں حکومت مخالف جذبات پیدا ہونے کا باعث بنا۔ مقامی سطح پر انتخابات بڑے بڑے نعروں اور بلند بانگ دعووں کی بنیاد پر نہیں جیتے جا سکتے۔ یہ ہتھکنڈے قومی اور صوبائی سطح پر کام آ سکتے ہیں لیکن لوکل گورنمنٹ انتخابات پارٹی کی تنظیم، کارکنوں کی تربیت اور ڈسپلن سے جیتے جا سکتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی صفت پی ٹی آئی میں نہیں رہے۔ کیونکہ شروع سے ہی پارٹی کی بھرپور توجہ کرپشن کے خلاف جنگ اور اپوزیشن کے احتساب پر رہی ہے، مگر یہ نعرے اپنی دلکشی کھو چکے ہیں۔ لوگوں کو خصوصاً مقامی سطح پر بالکل مختلف مسائل کا سامنا ہے جن کے حل کیلئے عوام حکومت سے بھرپور توجہ، مخلصانہ کوششوں اور ٹھوس اقدامات کی توقع رکھتے ہیں مگر حکومت عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکی۔ اس لیے اس کے نمائندے ہار گئے۔
ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ انتخابات پارٹی بنیادوں پر منعقد ہوئے ہیں۔ انگریزوں نے ان انتخابات کو غیر سیاسی یعنی نان پارٹی بنیادوں پر منعقد کیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی سیاسی اور مارشل لا حکومتوں نے یہ روایت قائم رکھی؛ تاہم کچھ عرصہ سے اس روایت کو نوآبادیاتی دور کی میراث سمجھ کر ترک کرنے اور بلدیاتی انتخابات کو سیاسی یعنی پارٹی بنیادوں پر منعقد کرنے پر زور دیا جا رہا تھا۔ خیبر پختونخوا کی حکومت اس سے متفق نہیں تھی اور اسے بجا طور پر خدشتہ تھا کہ لوکل گورنمنٹ اداروں کے انتخابات‘ جن کا مقصد خالصتاً مقامی مسائل کو حل کرنا ہے‘ اگر سیاسی بنیادوں پر کرائے گئے تو یہ قومی سیاست کی پیچیدگیوں اور محاذ آرائیوں کا شکار ہو کر اپنا اصل مقصد کھو بیٹھیں گے؛ تاہم عدلیہ کے حکم پر ان انتخابات کو سیاسی بنیادوں پر منعقد کرانا پڑا۔ ان انتخابات کے نتائج کے مضمرات کی مقامی سطح پر درپیش مسائل کی روشنی میں نہیں بلکہ قومی سطح پر سیاسی دھڑے بندیوں اور نظریاتی محاذ آرائیوں کے تناظر میں تشریح کی جا رہی ہے۔ اس سے مقامی مسائل پس منظر میں چلے گئے ہیں اور قومی سطح پر جھگڑے سامنے آ کھڑے ہوئے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری کی طرف سے ان انتخابات پر تبصرے اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کی نمایاں کامیابی پر ریمارکس اس کی ایک مثال ہے۔ پہلے تو یہ بات واضح کر دینی چاہیے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) بے شک ایک دینی جماعت ہے مگر ایک ''شدت پسند‘‘ سیاسی جماعت نہیں بلکہ ان دینی سیاسی جماعتوں میں سے ایک ہے جنہوں نے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کیلئے آئین کی راہ اپنائی۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) ایک شاندار اور قابل فخر ورثے کی مالک ہونے کے ساتھ 1973ء کے آئین کی تشکیل میں بھی شریک رہی ہے۔ اس لئے وفاقی وزیر کی طرف سے محض سیاسی اختلافات کی بنیاد پر ایک اہم سیاسی جماعت جس نے باقی سیاسی جماعتوں سے مل کر جمہوریت کی بحالی کی تحریکوں میں حصہ لیا ہے، پر الزام تراشی نہیں کرنی چاہئے۔
پختونخوا کے ان بلدیاتی انتخابات کی ایک اور نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ شہری علاقوں میں پی ٹی آئی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے مثلاً پارٹی انتخابات کے اس پہلے مرحلے میں میئرشپ کی ایک سیٹ بھی نہیں جیت سکی۔ اسی طرح تحصیل چیئرمین شپ کی بھی زیادہ نشستیں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے پاس ہیں اور پی ٹی آئی دوسرے نمبر پر آئی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مہنگائی خصوصاً پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے شہری لوگ زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ چونکہ یہ انتخابات سیاسی بنیادوں پر منعقد ہوئے ہیں اس لئے مقامی اداروں کے انتخابات ہونے کے باوجود ان کا اثر یقینی طور پر ملکی سیاسی پر پڑے گا۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا بیان آ چکا ہے جس میں انہوں نے ان انتخابات میں اپنی پارٹی کی کامیابی کو پی ڈی ایم کی کامیابی قرار دیا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا ملا ہے اور اپوزیشن، حکومت کو جو پہلے ہی معاشی حالات کی وجہ سے سخت دباؤ میں ہے‘ مزید ٹف ٹائم دینے کی پوزیشن میں آ جائے گی۔ خیبر پختونخوا کے بعد پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ یہاں پی ٹی آئی کو خیبر پختونخوا سے بھی زیادہ بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ اس کا مقابلہ مسلم لیگ (ن) سے ہو گا جو نہ صرف ضمنی بلکہ حال ہی میں کنٹونمنٹ انتخابات میں اپنی طاقت کا کامیابی مظاہرہ کر چکی ہے۔