پاکستان کے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف جب سے علاج کی غرض سے بیرون ملک گئے ہیں، ان کی وطن واپسی مختلف قیاس آرائیوں کا شکار رہی ہے‘ لیکن گزشتہ چند ہفتوں سے ان میں غیرمعمولی تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو وزیر اعظم عمران خان کا اپنا ایک بیان ہے (جسے میڈیا نے نمایاں جگہ دی) جس کا مفہوم یہ ہے ''کرپٹ اور ملک کی عدالتوں سے سزا یافتہ مجرم کو چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بنانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں‘‘۔ اس کے بعد قومی اسمبلی کے سابق سپیکر، ایاز صادق کا بیان آیا کہ نواز شریف کسی وقت بھی پاکستان میں لینڈ کر سکتے ہیں۔ اس بیان نے پہلے سے موجودہ قیاس آرائیوں کو اس لئے مزید ہوا دی کہ وہ لندن میں نواز شریف سے ملاقات کرکے آئے تھے۔
حکومتی وزیروں، مشیروں اور ترجمانوں نے مسلم لیگ (ن) کے قریبی حلقوں کی ان تمام قیاس آرائیوں کو ان کی بے بنیاد خواہشات (wishful thinking) کی پیداوار قرار دیا ہے‘ لیکن غیر جانبدار حلقوں کی اطلاعات کے مطابق نہ صرف موجودہ حکومت کی بعض اہم شخصیات نے لندن میں نواز شریف سے ملاقات کی ہے بلکہ ''غیر سیاسی‘‘ طاقتوں نے بھی سابق وزیر اعظم سے لندن میں رابطہ قائم کیا ہے۔ ان ملاقاتوں اور روابط کا کوئی نتیجہ برآمد ہوا ہے یا نہیں‘ اس کے بارے میں البتہ کوئی بھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا؛ تاہم مالیاتی بجٹ (منی بجٹ) قومی اسمبلی میں پیش کرنے کے موقع پر وزیر اعظم نے صحافیوں سے ایک دفعہ پھر کہا کہ نواز شریف کے وطن واپس آنے کی کہانی پرانی ہے۔ وہ درست کہتے ہیں۔ ہر دو تین ماہ بعد نواز شریف کی وطن واپسی کو ان کی پارٹی کے کچھ رہنما نہ صرف دہراتے ہیں بلکہ اس یقین کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ عمران خان کی سرکردگی میں قائم موجودہ سیٹ اپ کی چھٹی ہونے والی ہے اور اس کی جگہ ایک عبوری حکومت کے تحت نئے انتخابات ہونے والے ہیں کیونکہ بقول نون لیگ اور آصف علی زرداری جو لوگ عمران خان کو اقتدار میں لائے تھے، اپنے فیصلے پر پچھتا رہے ہیں کیونکہ حکومت کی ناقص کارکردگی، مہنگائی اور معاشی بحران کی وجہ سے ان میں سخت بے چینی پائی جاتی ہے۔ ان قیاس آرائیوں اور افواہوں کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا (کے پی) میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج اس رجحان کے گواہ ہیں۔ مولانا فضل الرحمن‘ جن کی پارٹی جمعیت علمائے اسلام (ف) نے کے پی کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی سے بہتر کارکردگی دکھائی ہے، کا خیال ہے کہ مقتدر قوتوں نے موجودہ حکومت کی حمایت سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے اور کے پی کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی شکست اس کا ثبوت ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ قومی معیشت کی حالت دن بدن کمزور ہوتی جا رہی ہے اور موجودہ حکومت کا ہر اقدام اسے سہارا دینے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور گیس کی کمی جیسی مشکلات کے خلاف عوام احتجاج بھی کر رہے ہیں‘ لیکن اپوزیشن خواہ پی ڈی ایم یا پی پی پی‘ جماعت اسلامی اور اے این پی‘ اپنے پارٹی پلیٹ فارم سے اس احتجاج کو حکومت کے خلاف ایک ملک گیر تحریک میں تبدیل میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے ایک سمجھوتے کے تحت حکومت نے جس طرح منی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا‘ اور اس سے قبل انتخابی اصلاحات کے بل کو اپوزیشن پارلیمنٹ میں بلاک کرنے میں جس طرح ناکام رہی، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان ہاؤس تبدیلی کا کوئی امکان نہیں کیونکہ حکومت کو ایوان میں مطلوبہ اکثریت حاصل ہے۔ اس صورتحال میں حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔ اس کے جانے کی واحد صورت ایک ہی رہ جاتی ہے‘ یہ کہ وزیر اعظم خود صدر سے اسمبلیاں تحلیل کرنے اور نئے انتخابات کی سفارش کر دیں‘ لیکن فی الحال اس کا دور دور تک امکان نظر نہیں آتا۔
پھر حکومت کے جانے اور نواز شریف کے آنے کی قیاس آرائیاں کیا معنی رکھتی ہیں؟ کیا ان کا زمینی حقائق سے کوئی واسطہ ہے؟ یہ ایک جائز سوال ہے۔ اس کا جواب حاصل کرنا ضروری ہے‘ لیکن ایک صحیح اور تسلی بخش جواب کے حصول میں متعدد رکاوٹیں کھڑی ہیں۔ اگرچہ نواز شریف کے ساتھ رابطوں کی تصدیق ہو چکی ہے؛ تاہم کن مطالبات اور شرائط پر بات چیت ہوئی یا ہو رہی ہے، اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ مسلم لیگ (ن) کے بعض حلقوں کے پُرامید جائزے اپنی جگہ، مگر گزشتہ 4 برسوں کے واقعات اور حالات کو پیش نظر رکھا جائے تو ان ''روابط‘‘ کا کوئی نتیجہ برآمد ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ حکومت تیزی سے اپنی مقبولیت کھو رہی ہے۔ مہنگائی اور ناقص گورننس اس کی دو وجوہات ہیں‘ مگر اس کا ووٹ بینک ابھی تک قائم ہے۔ کے پی میں سب سے آگے ہے اور پنجاب میں تھوڑے سے فرق کے ساتھ نون لیگ کے بعد دوسرے نمبر پر۔ پی ٹی آئی کو امید ہے کہ نون لیگ کے روایتی مذہبی ووٹ کو اپنی طرف کرکے اسی فرق کو دور کیا جا سکتا ہے۔ اگلے انتخابات کیلئے پی ٹی آئی کی تیاریوں میں اس حکمت عملی پر خصوصی طور پر توجہ دی جائے گی۔ پی ٹی آئی پنجاب کے سابق صدر اور سینیٹر اعجاز چودھری آئندہ بلدیاتی انتخابات میں تحریک لبیک کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے امکان کو پہلے ہی ظاہر کر چکے ہیں۔ باقی سیاسی پارٹیوں کی بھی توجہ اب 2023ء انتخابات پر ہے اور اس میں زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ عام انتخابات سے پہلے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا معرکہ ہونے والا ہے جس کے نتائج یقینا سال 2023ء کے انتخابات پر اثر انداز ہوں گے۔ ملک کے باقی تمام صوبوں کے برعکس سندھ میں بلدیاتی انتخابات پر غیر یقینی کی فضا چھائی ہوئی ہے کیونکہ صوبے کی تمام اپوزیشن جماعتیں نئے بلدیاتی قانون کی مخالفت اور اسے واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ نئے قانون کی مخالفت میں پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم پیش پیش ہیں۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اپوزیشن کو مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی دعوت دی اور یہ پیشکش کی ہے کہ جس طرح ان کی حکومت نے گورنر کی طرف سے ایکٹ میں تبدیلیوں کو قبول کیا اور ان کے مطابق ایکٹ میں ترمیم کی ہے، اپوزیشن بھی اپنی تجاویز مذاکرات کی میز پر رکھے اور بحث کے بعد جن پر ترامیم پر اتفاق ہو جائے۔ حکومت انہیں ایکٹ میں شامل کرنے پر تیار ہے لیکن اپوزیشن مذاکرات کے موڈ میں نہیں۔ ان کی طرف سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ سندھ حکومت پہلے ایکٹ واپس لے اور اس کے بعد نئے ایکٹ کیلئے بات چیت ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ایم کیو ایم کے بعض رہنماؤں کی تقاریر سے صوبے میں سیاسی درجہ حرارت میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ پی ٹی آئی، ایم کیو ایم اور جی ڈی اے پر مشتمل اپوزیشن بلدیاتی ایکٹ پر مخالفت سے ایسی صورتحال پیدا کرنا چاہتی ہے، جو صوبے میں گورنر راج کا جواز فراہم کر سکے لیکن 18ویں ترمیم کے بعد صدر راج کا نفاذ اتنا آسان نہیں رہا۔
ان حالات میں جبکہ بیشتر سیاسی پارٹیوں کی توجہ 2023ء انتخابات پہ ہے اور وہ ان میں اپنی پرفارمنس بہتر بنانے کیلئے کوشاں ہیں، حکومت کو کسی طرف سے کوئی خطرہ نہیں، نواز شریف کے وطن واپس آنے کے امکان کم ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اپنے قائد کی واپسی کی خواہشمند ہے مگر ان کے خیال میں موجودہ وقت اس کیلئے مناسب نہیں۔ میرے خیال میں نواز شریف اس وقت واپس پاکستان آئیں گے جب 2023ء انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی کی جگہ ایک عبوری حکومت اقتدار سنبھال لے یا گرتی ہوئی معیشت اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے نتیجے میں، ان (نواز شریف) کے ساتھ کوئی ڈیل طے پائے گی۔