ہر نئے سال کے پہلے روز یعنی یکم جنوری کو پاکستان اور بھارت باہمی اعتماد سازی اور انسانی ہمدردی کی بنیادی رسمیں ضرور پوری کرتے ہیں‘ یہ جوہری تنصیبات اور ایک دوسرے کی جیلوں میں بند قیدیوں کی فہرستوں کا باہمی تبادلہ ہے۔ جوہری تنصیبات کی فہرستوں کا تبادلہ ایک معاہدے کے تحت کیا جاتا ہے، جس پر دونوں ملکوں نے 1988ء میں دستخط کئے تھے۔ اس وقت پاکستان اور بھارت میں سے کسی نے بھی ایٹمی دھماکے نہیں کئے تھے لیکن دونوں نے بھرپور ایٹمی پروگرام شروع کر رکھے تھے۔ بھارت نے تو 1974ء میں دھماکہ کرکے ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت کا مظاہرہ کر دیا تھا۔ پاکستان کے بارے میں بھی دنیا کو گمان تھا کہ اس نے خفیہ طور پر یہ صلاحیت حاصل کر لی ہے؛ تاہم مصلحتاً ایٹمی دھماکے سے احتراز کر رہا ہے۔ مبہم صورتحال کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہو رہا تھا جسے دور کرنے کیلئے پاکستان کی تجویز پر دونوں ملکوں نے 31 دسمبر 1988ء کو ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کے تحت ایک دوسرے کی ایٹمی تنصیبات کو حملے کا نشانہ نہ بنانے کا عہد کرنے کے ساتھ ان کی فہرست کو ہر نئے سال کے پہلے دن ایک دوسرے کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ معاہدہ‘ جس پر توثیق کے بعد 1992ء سے باقاعدہ اور بغیر تعطل کے عمل کیا جا رہا ہے پاکستان اور بھارت کے مابین اعتماد سازی کی ایک کامیاب اور اہم مثال ہے۔
یہ معاہدہ دراصل پاکستان اور بھارت کی سیاسی قیادت کی خطے میں امن کی خواہش کا مظہر ہے۔ یہ معاہدہ اس بات کا ثبوت ہے کہ باہمی جھگڑے اور اختلافات ایک طرف، پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کو اپنے عوام اور خطے کی بہتری و سلامتی کو ہر حالت میں مقدم رکھنا پڑتا ہے۔ اسی جذبے کے تحت پاکستان اور بھارت کے مابین 2008ء میں قیدیوں کے تبادلے کا ایک معاہدہ طے پایا تھا۔ پاکستان اور بھارت کی جیلوں میں بند ایک دوسرے کے سینکڑوں کی تعداد میں قیدی مختلف جرائم کی پاداش میں سزا بھگت رہے ہوتے ہیں‘ لیکن ان میں غالب اکثریت ان غریب ماہی گیروں کی ہوتی ہے جو کھلے سمندروں کے پانی میں مچھلیاں پکڑتے وقت غلطی سے ایک دوسرے کی سمندری حدود میں داخل ہونے کے جرم میں کشتیوں سمیت دھر لئے جاتے ہیں۔ سماجی خدمت اور انسانی حقوق کے تحفظ کے شعبوں میں دونوں ملکوں میں کام کرنے والی این جی اوز کی طرف سے ان غریب قیدیوں کی حالت زار کی طرف مسلسل توجہ دلانے کے نتیجے میں آخرکار پاکستان اور بھارت کے مابین 21 مئی 2008ء کو ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جسے کونسلر اسیس ایگریمنٹ کہا جاتا ہے۔ اس معاہدہ کی دفعہ 1 کے تحت پاکستان اور بھارت ہر سال دو دفعہ یعنی یکم جنوری اور یکم جولائی کو اپنی جیلوں میں بند قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ کرتے ہیں۔ اس معاہدے پر عملدرآمد سے نہ صرف قیدیوں کو جیل میں رہتے ہوئے بہتر حالات اور سلوک سے مستفید ہونے کا موقع حاصل ہوا بلکہ مختصر قید کاٹنے اور معمولی جرمانہ ادا کرنے کے بعد ان کی رہائی بھی ممکن ہوئی ہے خصوصاً ان قیدیوں کو بہت ریلیف ملا جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا تھا۔ اس معاہدے کی دفعات پر عمل کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کی طرف سے قیدیوں کیلئے قانونی اور دیگر سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں دونوں ملکوں کی طرف سے گاہے گاہے قیدیوں، جن کی تعداد سینکڑوں میں ہوتی ہے، کی جذبۂ خیر سگالی کے تحت یکطرفہ رہائی کا مظاہرہ بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ اس قسم کے اقدامات نہ صرف انسانیت کی خدمت کے مترادف ہیں، بلکہ دونوں ملکوں کے عوام میں ایک دوسرے کیلئے پیار اور محبت کے احساسات پیدا کرنے کا باعث بھی بنتے ہیں۔
دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی اور بداعتمادی کی جگہ امن اور اعتماد پیدا کرنے کیلئے صرف ان دونوں معاہدوں کو ہی بطور مثال پیش نہیں کیا جا سکتا۔ تقیسم کے بعد پاکستان اور بھارت میں اقتدار سنبھالنے والی حکومتوں نے اس سلسلے میں تاریخی اہمیت کے چند ایسے معاہدوں پر دستخط کئے تھے، جو آج تک دونوں ملکوں کے مابین تنازعات میں اور غلط فہمیاں دور کرنے میں انتہائی مفید کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں 1950ء کے لیاقت نہرو پیکٹ کی مثال دی جا سکتی ہے۔ اس معاہدے کا مقصد تقسیم کے نتیجے میں لاکھوں مہاجرین کو درپیش مسائل کے حل کے علاوہ پاکستان اور بھارت میں اقلیتوں کی جان و مال اور عزت کے تحفظ کو یقینی بنانا تھا۔ اقلیتوں کے ساتھ جب کبھی ناروا سلوک کے واقعات رونما ہوئے تو دونوں ممالک نے اسی کے تحت ان کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔ اس معاہدے سے نہ صرف دونوں ملکوں میں اقلیتوں کو تحفظ حاصل ہوا بلکہ پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی میں کمی اور بعض مواقع پر تصادم کو روکنے میں مدد بھی ملی ہے۔ اسی طرح پاکستان اور بھارت نے 4 اگست 1953ء کو ایک ایسے معاہدے پر دستخط کئے‘ جس کا مقصد دونوں ملکوں میں واقع ایک دوسرے کے مذہبی، تاریخی اور ثقافتی مقامات کی حفاظت اور دیکھ بھال کے علاوہ خاص تہواروں کے موقع پر زائرین کی آمد میں مدد فراہم کرنا ہے۔ ہزاروں سکھ اور ہندو زائرین پاکستان میں اپنے مذہبی اور مقدس مقامات کی زیارت کیلئے اسی معاہدے کے تحت آتے ہیں۔ اسی طرح دہلی، اجمیر اور متعدد دیگر مقامات پر واقع اپنے مذہبی مقامات کی زیارت کرنے کیلئے پاکستان سے بھی ہر سال ہزاروں زائرین بھارت جاتے ہیں۔ دونوں حکومتیں ان کیلئے ویزا جاری کرتی ہیں۔ ان معاہدات پر بلا روک ٹوک عمل درآمد کرنے سے دونوں ملکوں کے مابین امن اور خیرسگالی کا جو ماحول پیدا ہوتا ہے، اس کی افادیت سے کسی کو انکار نہیں لیکن بد قسمتی سے تقریباً ڈھائی سال سے پاکستان اور بھارت کے مابین طے پانے والے ایسے معاہدوں پر عملدرآمد رکا ہوا ہے جو مذکورہ بالا معاہدوں سے بھی زیادہ افادیت کے حامل ہیں۔ ان میں تجارت، ثقافت اور کھیلوں کے محکموں میں تعاون، ریل، روڈ اور ہوائی جہاز کے ذریعے آمدورفت کی اجازت اور سرحدوں، خصوصاً لائن آف کنٹرول پر امن کو برقرار رکھنے کے بارے میں معاہدے شامل ہیں۔
ان معاہدوں کے وقتی طور پر غیرفعال ہونے کی وجہ 5 اگست 2019ء کا بھارتی حکومت کا مقبوضہ کشمیر میں یکطرفہ اقدام ہے جس کے تحت نہ صرف ریاست کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا گیا بلکہ اس دن سے کشمیریوں کی آواز دبانے کیلئے بدترین لاک ڈاؤن لگایا ہوا ہے‘ لیکن یہ صورتحال مستقل طور پر جاری نہیں رہ سکتی، اسے ختم کرنے کیلئے پاکستان اور بھارت کو ضروری اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس قسم کی ایک کوشش گزشتہ برس فروری میں لائن آف کنٹرول پر امن قائم کرنے کیلئے کی گئی تھی۔ پاکستان اور بھارت کے ڈی جی ملٹری آپریشنز کے درمیان بات چیت کے بعد کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی اس سرحد پر امن قائم ہوا، جو پاکستان کے ڈی جی آئی ایس پی آر کی حالیہ پریس کانفرنس کے مطابق ابھی تک قائم ہے۔ پاکستان نے تو اپنی طرف سے خیرسگالی کا ثبوت فراہم کر دیا۔ اب نظریں بھارت کی طرف ہیں کہ وہ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر پاکستان اور بین الاقوامی برادری کی تشویش کو کم کرنے کیلئے کیا اقدام کرتا ہے۔ میری ہی نہیں بلکہ دونوں ملکوں میں امن اور تعاون کے خواہشمند افراد کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر بھی غالب رائے یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کو مذاکرات کی طرف بڑھنے کیلئے باہمی تجارت، آمدورفت، عوامی رابطوں پر سے فوراً پابندیاں اٹھا لینی چاہئے۔ اس سے وہ ماحول پیدا ہوگا جس میں دونوں ممالک اپنے دیرینہ مسائل بشمول کشمیر کا حل ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔