گزشتہ برس نومبر سے آسٹریا کے دارالحکومت وی آنا میں ایران اور یورپی طاقتوں جرمنی، فرانس، برطانیہ، روس اور چین کے درمیان اول الذکر کے جوہری پروگرام پر مذاکرات کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، وہ تین ماہ کے وقفے کے بعد3 جنوری سے دوبارہ شروع ہو چکا ہے۔ ان مذاکرات کا مقصد ایران اور امریکہ سمیت روس، برطانیہ، فرانس، چین اور جرمنی کے درمیان 2015ء میں جو سمجھوتا ہوا تھا، اسے بحال کرنا ہے۔ کم و بیش 6 برس پہلے یہ معاہدہ سابق امریکی صدر بارک اوبامہ کے دور حکومت میں طے ہوا تھا، مگر ان کے جانشین سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018ء میں اس سے یکطرفہ طور پر علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ امریکہ میں سابق صدر اوبامہ کی ڈیموکریٹک پارٹی اور معاہدے میں شامل دیگر طاقتوں نے ٹرمپ کے اس اقدام کی سخت مخالفت کی تھی۔ ان کے خیال میں مشرق وسطیٰ کو ایک خطرناک ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ سے پاک رکھنے کیلئے یہ معاہدہ مفید تھا، اسی لئے صدر جوبائیڈن نے اپنی صدارتی مہم میں اسے بحال کرنے کا وعدہ کیا تھا‘ لیکن امریکہ کے یکطرفہ اقدام کے تین سال بعد جب اس پر دوبارہ بات چیت کیلئے فریق بیٹھے تو انہیں احساس ہوا کہ معاہدے کی بحالی اتنا آسان کام نہیں ہے، کیونکہ ٹرمپ نے نہ صرف اس معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کیا بلکہ ایران کے خلاف پہلے سے زیادہ سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
ٹرمپ کے فیصلے سے امریکہ اور ایران کے باہمی اعتماد کو جس قدر ٹھیس پہنچی‘ اس کے پیشِ نظر ایران نے دوبارہ مذاکرات کے دوران سخت موقف اختیار کیا اور مطالبہ کیا کہ معاہدے کو صرف اسی صورت بحال کیا جا سکتا ہے کہ پہلے ایران کے خلاف عائد نہ صرف تمام اقتصادی پابندیوں کو اٹھایا جائے بلکہ آئندہ کیلئے گارنٹی دی جائے کہ معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم نہیں کیا جائے گا۔ صدر اوبامہ کے دور میں طے پانے والے اس معاہدے کی اسرائیل نے سخت مخالفت کی تھی اور جب صدر بائیڈن نے اسے بحال کرنے کیلئے ایران سے مذاکرات کا اعلان کیا تو اسرائیل کی طرف سے صدر بائیدن اور ان کی انتظامیہ پر اس قدر تنقید کی گئی کہ دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی کی فضا پیدا ہو گئی۔ اسرائیل کے علاوہ خلیج فارس میں امریکہ کے اتحادی ممالک بھی ایران کے ساتھ معاہدے کیلئے امریکہ کے مذاکرات کے مخالف تھے۔ اس صورتحال کی وجہ سے مذاکرات کا نیا سلسلہ بہت سست روی سے جاری تھا، بلکہ اس کی کامیابی کی امید بھی آہستہ آہستہ ختم ہو رہی تھی، مگر اب اس صورتحال میں ایک خوشگوار تبدیلی کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں۔
اسرائیل کو احساس ہو گیا ہے کہ امریکہ اور یورپ ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل چاہتے ہیں، کیونکہ اقتصادی پابندیوں اور عسکری اشتعال انگیزیوں کے ذریعے ایران کو اپنے اصولی موقف سے پیچھے ہٹنے پر مجبور نہیں کیا جا سکا۔ سابق صدر ٹرمپ نے اسرائیل کو خوش کرنے کیلئے2015ء کے معاہدے سے امریکہ کو علیحدہ کر لیا تھا۔ صدر اوبامہ نے معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد ایران پر عائد جن پابندیوں کو ختم کیا تھا، ٹرمپ نے نہ صرف ان پابندیوں کو دوبارہ عائد کر دیا بلکہ مزید پابندیاں عائد کر دیں‘ جو پہلے کے مقابلے میں زیادہ سخت تھیں۔
امریکہ اور اسرائیل کا خیال تھا کہ وہ اس طرح ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں گے مگر ان کی کوشش کامیاب نہ ہو سکی بلکہ معاہدے سے امریکیوں کے نکل جانے سے ایران پر معاہدے کی بعض شرائط پر پابندی ختم ہو گئی۔ ان میں ایٹم بم کی تیاری میں استعمال کے قابل یورینیم کی افزودگی کی شرح کو 3.67 فیصد رکھنا شامل تھا۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ تین برسوں میں ایران نے یورینیم کی افزودگی کی شرح میں 60 فیصد حد تک کامیابی حاصل کر لی ہے اور اگر نئے معاہدے پر دستخط نہ ہوئے یا پرانا معاہدہ بحال نہ ہو سکا تو ایران بہت جلد ایٹم بم بنانے کی صلاحیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔
2015ء میں جس معاہدے پر دستخط کئے گئے تھے، اس کی مدت10 سال ہے۔ اس مدت میں اب صرف 4 سال رہ گئے ہیں۔ اگر اس عرصے میں امریکہ اور یورپ ایران کے ساتھ معاملات طے کرنے میں ناکام رہے تو ایران 2025ء میں معاہدے کا پابند نہیں رہے گا۔ مغربی دنیا بشمول اسرائیل کیلئے یہ صورتحال انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے، کیونکہ ایران ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے یورینیم کو اس سطح تک افزودہ کرنے میں حق بجانب ہو گا جسے وہ اپنے پُرامن جوہری پروگرام میں بھی استعمال کر سکتا ہے‘ لیکن اسرائیل اور امریکہ کو خدشہ لاحق ہے کہ ایران اس صلاحیت کو ایٹمی ہتھیار تیار کرنے میں بروئے کار لائے گا حالانکہ ایران ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی عائد کرنے والے معاہدے این پی ٹی کا رکن ہے اور اس نے ایٹم بم تیار نہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اسرائیل کی طرح خلیج فارس میں امریکہ کے قریبی اتحادی ممالک خصوصاً سعودی عرب نے بھی ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل کے بارے میں اپنے موقف میں لچک ظاہر کر دی ہے۔ ان ممالک کی رائے میں افغانستان سے انخلا کے بعد امریکہ اپنی تمام تر عسکری توجہ (strategic focus) چین پر مبذول کرنا چاہتا ہے‘ اوراس کیلئے امریکہ نے نہ صرف افغانستان بلکہ مشرق وسطیٰ کے دیگر حصوں میں بھی اپنی افواج کی تعداد میں کمی کا آغاز کر دیا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ اور فرانس کی جگہ لیتے ہوئے امریکہ نے بحر روم سے لے کر بحر ہند تک جگہ جگہ جن مقامات پر اڈے قائم کرکے اپنی بری، بحری اور فضائی افواج تعینات کردی تھیں، صدر جوبائیڈن کی حکومت ایک حکمت عملی کے تحت ان میں بتدریج کمی لارہی ہے اور ان کی جگہ طیارہ بردار جہازوں کے ساتھ موبائل بحری بیڑوں پرانحصار کیا جا رہا ہے۔ اس حکمت عملی کا ہدف خلیج فارس اور اردگرد کے خطوں میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے آگے بند باندھنا ہے۔ امریکہ چین کے اس بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو جنوبی ایشیا اور بحر ہند بلکہ مشرق وسطیٰ اور اس سے آگے افریقہ میں اپنے اہم سٹریٹیجک مفادات کے خلاف سمجھتا ہے‘ اوراس کی روک تھام کیلئے نئی دفاعی اور سیاسی حکمت عملی وضع کررہا ہے۔
افغانستان سے انخلا اس کی پہلی کڑی تھی۔ باقی کڑیاں بھارت کے ساتھ دفاعی اشتراک اور خلیج فارس کے ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کی حوصلہ افزائی کی صورت میں ایک ایک کرکے سامنے آرہی ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات یمن میں حوثی قبائل کے زور پکڑنے پر پریشان ہیں۔ ان کو دبانے کیلئے جو عسکری محاذ بنایا گیا تھا، وہ اپنے مقاصد کے حصول میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ اب تو یہ جنگ سعودی عرب تک پہنچ چکی ہے۔ افغانستان کی مثال نے سعودی عرب اور خلیج فارس میں امریکہ کے دیگر اتحادی ممالک پر واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنے دفاع کیلئے امریکہ پربھروسہ نہیں کر سکتے۔ اس لئے وہ خطے میں ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر کرنا چاہتے ہیں۔ جوہری معاہدے پر موقف میں لچک ان کوششوں کا ایک اہم حصہ ہے۔
ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ بحال کرنے میں امریکی بے چینی کی ایک اور وجہ روس اور چین کی طرف سے ایران کے موقف کی حمایت ہے۔ دونوں ممالک خطے میں امن کے خواہاں ہیں اور اس کیلئے ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں کے خاتمے اور امریکہ کی طرف سے سنجیدگی، خلوص اور احساسِ ذمہ داری کے ساتھ معاہدے کی تمام شرائط پر پابندی کو لازمی سمجھتے ہیں۔ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ‘ جس کے امکانات کافی روشن ہیں‘ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد خطے میں ایک بہت بڑا واقعہ ہوگا جس کے اثرات تمام دنیا میں محسوس کئے جائیں گے۔