وسطی ایشیا کے مسلم ملک جمہوریہ قازقستان میں تقریباً ایک ہفتے سے جاری پُر تشدد ہنگاموں کے بعد صورت حال معمول پر آ رہی ہے، لیکن چین اور روس کے درمیان واقع باقی اطراف سے بھی خشکی سے گھرے ہوئے اس ملک میں اچانک بھڑکنے والے ان فسادات نے متعدد ایسے سوالات اور خدشات پیدا کر دئیے ہیں، جن کے مضمرات پر ہمسایہ ممالک ہی نہیں بلکہ عالمی برادری بھی سنجیدگی سے غور کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ وسطی ایشیا کی تقریباً تمام ریاستیں 1991ء میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد سے اب تک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہیں۔ اس میں یقینا اندرونی عوامل کار فرما ہیں، لیکن بیرونی محرکات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بہت سے مبصرین کے نزدیک وسطی ایشیا میں استحکام اور سلامتی کے مسائل اس خطے کے جغرافیائی محل وقوع اور تیل، گیس اور دیگر قیمتی معدنیات پر مشتمل دولت کی پیداوار ہیں۔
قازقستان نہ صرف رقبے کے اعتبار سے بلکہ معدنی دولت کے لحاظ سے بھی وسطی ایشیا کی باقی تمام چار ریاستوں سے زیادہ اہم ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ ایک ملک‘ جو تیل اور گیس کے وسیع ذخائر کا مالک ہو بلکہ انہیں ہمسایہ ممالک کو برآمد بھی کرتا ہو، پٹرولیم اور اس کی دیگر مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی بنا پر خون ریز ہنگاموں کا شکار ہوا۔ اس ساری صورت حال کی وجوہات کو پٹرولیم کی قیمتوں کے بجائے کہیں اور تلاش کرنا پڑے گا۔ اس سلسلے میں جو حقائق سامنے آئے ہیں ان میں جمہوریت کے نام پر لمبے عرصے کے لئے شخصی حکومت، بد عنوانی اور غلط معاشی پالیسیاں سرفہرست ہیں۔
قازقستان میں ترقی کے نام پر بہت سے منصوبے مکمل ہوئے ہیں کیونکہ ملک معدنی اور قدرتی دولت سے مالا مال ہے اور باہر سے سرمایہ کاری بھی بہت ہوئی ہے لیکن اس ترقی کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچے، بلکہ ملک کا ایک محدود طبقہ ہی اس سے مستفید ہوتا رہا ہے۔ عوام‘ جن کا نہ حکمرانی میں کوئی حصہ ہو اور نہ انہیں قومی ترقی کے ثمرات حاصل ہوں، کی طرف سے ایسی صورت حال میں احتجاج ناگزیر ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مظاہرین کے مطالبات میں نہ صرف پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں کمی کے مطالبات شامل تھے، بلکہ وہ ملک کے آٹوکریٹک سیاسی ماحول میں تبدیلی لانے کا بھی مطالبہ کر رہے تھے۔
وسطی ایشیا کی باقی چار ریاستوں میں بھی تقریباً یہی صورت حال ہے۔ 70 برسوں سے زیادہ اشتراکی نظام کے تحت زندگی گزارنے کے بعد وسطی ایشیا کے یہ مسلم ممالک ابھی تک آمریت اور جمہوریت کے مابین کشمکش کے دور سے گزر رہے ہیں۔ پرانے ادارے تباہ ہو چکے ہیں اور نئے ادارے استحکام کی تلاش میں ہیں۔ نہ ادھر اور نہ ادھر کی اس کیفیت میں ذرا سی چنگاری ایک بہت بڑے شعلے کا سبب بن سکتی ہے۔ خطے کا تین اطراف سے گھیراؤ کرنے والی دو عالمی طاقتیں یعنی روس اور چین کو اس صورت حال پر بڑی تشویش ہے کیونکہ دونوں طاقتوں کے اس خطے سے بڑے اہم مفادات وابستہ ہیں۔ چین نے قازقستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کر رکھی ہے اور وہ اس کے تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ اس کے Belt and Road Initiative (BRI) عالمگیر پروگرام میں قازقستان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ستمبر2013ء میں قازقستان میں ہی چینی صدر شی نے اس نیٹ ورک کی تعمیر کا اعلان کیا تھا۔
روسی سرمایہ کاری میں چین اور امریکہ سے پیچھے ہیں مگر وسطی ایشیا خصوصاً قازقستان میں استحکام، روس کی سلامتی کیلئے بہت اہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1991ء میں ان ملکوں کے آزاد ہونے کے فوراً بعد روس نے ایک معاہدے، جسے کولیکٹو سکیورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن کہا جاتا ہے، کے تحت ان کی اندرونی اور بیرونی سکیورٹی کی ذمہ داری سنبھال لی ہے۔ قازقستان میں ہنگاموں پر قابو پانے میں حکومت کی مدد کرنے کیلئے روسی فوجی دستوں کی فوری روانگی اسی معاہدے کے تحت عمل میں لائی گئی ہے۔
کولیکٹو سکیورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن کے تحت یہ پہلی کارروائی ہے مگر اس نے مزید کارروائیوں کی راہ ہموار کر دی ہے اور افغانستان میں طالبان کی دوبارہ حکومت کے قیام سے اس خطے میں دہشت گردی کے پھیلاؤ پر جس طرح تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے، اس کے پیش نظر افغانستان سے ملحقہ سرحدوں والے وسطی ایشیا کے ممالک مثلاً ازبکستان، تاجکستان اور ترکمانستان میں اس قسم کی کارروائیوں کا اندیشہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ تاجکستان میں ہی تو روس کا ایک اہم فوجی اڈہ بھی موجود ہے۔ افغانستان میں جنگ کے آخری مراحل میں جب طالبان نے ان ممالک کے ساتھ ملنے والی سرحدوں پر تعینات سرکاری فوجی دستوں پر حملوں کا آغاز کیا تھا، تو روس نے اپنے فوجی دستے سرحد کے ساتھ ملنے والے تاجکستانی علاقوں میں داخل کر دیئے تھے۔ بعد میں معاہدے کے تحت دونوں ملکوں کی افواج نے سرحد کے ساتھ علاقوں میں مشترکہ جنگی مشقیں بھی کی تھیں۔
قازقستان کے ان ہنگاموں سے پیدا ہونے والی صورت حال کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ ان پر قابو پانے کی حکومتی کوششوں کی چین نے بھی حمایت کی بلکہ چین کے زیر اثر علاقائی تنظیم ''شنگھائی تعاون تنظیم (Shanghai Cooperation Organization (SCO)) نے بھی روس کی تقلید کرتے ہوئے حالات کو کنٹرول کرنے کے لئے مداخلت کا عندیہ دے دیا۔ گزشتہ کئی برسوں سے روس اور چین کے مابین اقتصادی، سیاسی اور دفاعی شعبوں میں تعاون کی فضا چلی آ رہی ہے‘ مگر قازقستان کے فسادات نے ان دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے مزید قریب کر دیا ہے۔ خصوصاً وسطی ایشیا کے خطے کو پُر امن اور مستحکم رکھنے کے لئے اب دونوں ملک پہلے سے زیادہ پُر عزم نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ صاف اور واضح ہے۔ وسطی ایشیا کو عدم استحکام کا شکار کر کے نہ صرف چین بلکہ روس کو بھی غیر مستحکم کیا جا سکتا ہے۔
یوکرائن کے مسئلے پر امریکہ اور روس کے بڑھتے ہوئے اختلافات اور چین کے خلاف امریکہ کی بحر ہند سے لے کر بحرالکاہل تک نئی صف بندی کی روشنی میں قازقستان کے فسادات کو بیجنگ اور ماسکو میں گہری تشویش کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ خصوصاً امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کی طرف سے قازقستان میں روسی فوجی دستوں کی آمد پر بیان کے بعد روس اور چین اسے ایک بیرونی سازش قرار دے رہے ہیں۔ اگرچہ قازقستان کی افغانستان کے ساتھ براہ راست سرحد نہیں ملتی لیکن وسطی ایشیا کا حصہ ہونے کی وجہ سے وہ افغانستان کے حالات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ان فسادات کے بعد نہ صرف افغانستان کی ہمسایہ وسطی ایشیا کی ریاستیں بلکہ روس اور چین بھی افغانستان میں موجودہ دہشت گرد گروہوں کی موجودگی کے خدشے کو زیادہ شدت کے ساتھ محسوس کرنا شروع کر دیں گے۔ افغانستان میں طالبان حکومت کو اپنے ہمسایہ ممالک کی طرف سے مبینہ دہشت گرد گروپوں کی طرف سے ممکنہ دہشت گردی کی کارروائیوں کو روکنے کیلئے پہلے سے زیادہ دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان خدشات کی وجہ سے افغانستان کے ہمسایہ ممالک نے پہلے ہی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے مسئلے پر ''انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ قازقستان میں فسادات کی وجہ سے افغانستان کی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں مزید دیر ہو سکتی ہے۔