بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، کھاد کی کم یابی، گیس کی کمی، بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور ٹیکسوں کی بھرمار تلے قومی معیشت کا حال پورے ملک میں تقریباً ایک جیسا ہے‘ یعنی اگر گیس پنجاب میں دستیاب نہیں تو ان صوبوں میں بھی‘ جہاں یہ پیدا ہوتی ہے‘ چولہے ٹھنڈے ہیں۔ اسی طرح آئی ایم ایف کے ساتھ نئے معاہدے کے تحت حکومت نے پٹرول، بجلی اور روزمرہ استعمال کی جن دیگر ضروری اشیا پر ٹیکس میں اضافہ کیا ہے، سبسڈی ختم کی ہے، اس کا اثر بھی ملک کے تمام حصوں اور تمام طبقات میں یکساں محسوس کیا جا رہا ہے۔ لیکن قومی سیاست میں ہلچل، ہنگامہ خیزی، خاص طور پر حکومت اور اپوزیشن میں محاذ آرائی کا پس منظر ایک جیسا نہیں بلکہ مختلف حصوں میں مختلف ہے۔
پنجاب میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی حکومت خراب گورننس، لاء اینڈ آرڈر کی بد تر صورت حال اور ترقیاتی کام کی سست رفتاری کی وجہ سے شروع سے تنقید کا سامنا کرتی چلی آ رہی ہے لیکن اقلیتی حکومت ہونے کے باوجود اسے اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں حالیہ بلدیاتی انتخابات میں جے یو آئی (ایف) کے ہاتھوں شکست کے باوجود وزیر اعلیٰ محمود خان کی حکومت محفوظ ہے، کیونکہ ان کی پارٹی کو صوبائی اسمبلی میں بھاری اکثریت حاصل ہے۔ اسی طرح بلوچستان میں بھی وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کی حکومت مختلف لاچاریوں کے باوجود سیاسی طور پر مستحکم ہے، کیونکہ انہیں اپنی پارٹی کے علاوہ اپوزیشن پارٹیوں کی بھی حمایت حاصل ہے‘ مگر سندھ میں صورت حال مختلف ہے۔
سندھ میں پی ٹی آئی، ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں، جماعت اسلامی اور گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے) پر مشتمل اپوزیشن نے پی پی پی کی حکومت کے خلاف حال ہی میں منظور کردہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے خلاف کئی دنوں سے احتجاجی تحریک شروع کر رکھی ہے۔ جماعت اسلامی نے دو ہفتوں سے زیادہ عرصہ سے اپنے مطالبات کے حق میں شہر کی سڑکوں پر دھرنا دے رکھا ہے۔ ایم کیو ایم کے تمام دھڑے بھی احتجاجی تحریک کا حصہ ہیں‘ لیکن ایم کیو ایم (پاکستان) جو مرکز میں پی ٹی آئی حکومت کی اتحادی ہے، نمایاں طور پر متحرک ہے۔ اس کے رہنماؤں نے گزشتہ دنوں کے دوران پریس کانفرنس، ریلیوں اور احتجاجی دھرنوں کے مواقع پر جو بیانات دئیے، انہوں نے متحدہ کے قائد کے دور کی یاد تازہ کر دی ہے۔
پیپلز پارٹی‘ جو دیگر جماعتوں کی طرح سابقہ انتخابات میں جمہوری مینڈیٹ کے ساتھ صوبے میں بر سر اقتدار آئی ہے، کے خلاف ایم کیو ایم (پاکستان) کے رہنماؤں نے جو زبان استعمال کی اور سندھ کے سیاسی جھگڑے کو جس طرح لسانی رنگ دینے کی کوشش کی، اس نے ماحول میں تلخی پیدا کر دی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن خصوصاً ایم کیو ایم اسے 'کراچی بمقابلہ سندھ‘ کا مسئلہ بنانا چاہتی ہے‘ حالانکہ گورننس کے مسائل پورے صوبے میں موجود ہیں اور اپوزیشن کو حق پہنچتا ہے کہ وہ ان کی طرف حکومت کی توجہ مبذول کروائے اور عدم توجہی کی صورت میں حکومت پر سخت تنقید کرے اور اگر ضروری ہو تو اپنے مطالبات کے حق میں صوبے بھر کے عوام کو حکومت کی بے حسی اور ناکامی کے خلاف متحرک کرے، لیکن احتجاجی تحریک کا تمام تر فوکس صرف کراچی شہر ہے۔
یہ موقف اختیار کر کے اپوزیشن سندھ کے عوام کے ساتھ یک جہتی کا مظاہرہ نہیں کر رہی بلکہ مرکزی حکومت کی ان کوششوں کو تقویت مہیا کر رہی ہے، جن کے ذریعے وفاقی حکومت نے گزشتہ ساڑھے تین برسوں میں پاکستان کے اس دوسرے سب سے بڑے اور معدنی دولت سے مالا مال صوبے میں پی پی پی کی حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا ارادہ کر رکھا ہے۔ یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ اپوزیشن نئے بلدیاتی قانون میں تبدیلیوں کے لئے نہیں بلکہ اسے واپس لینے کے مطالبے کے حق میں ایجی ٹیشن کر رہی ہے، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ٹارگٹ بہتر بلدیاتی نظام کے لئے قانون میں ترمیم نہیں، بلکہ سندھ میں پی پی پی کی حکومت ہے۔
وفاقی حکومت اور اپوزیشن نے یہ موقف کیوں اپنایا ہوا ہے؟ اسے سمجھنا کوئی زیادہ مشکل نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان ایک سے زیادہ مرتبہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کو وفاقی حکومت کی مالی مشکلات کا سبب قرار دے چکے ہیں اور اس ترمیم میں تبدیلی کو پاکستان میں مالی استحکام کے لئے ناگزیر سمجھتے ہیں۔ مگر اٹھارہویں آئینی ترمیم میں تبدیلی کے خلاف پیپلز پارٹی کی آواز سب سے زیادہ بلند ہے۔ متعدد حلقوں میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ پی ٹی آئی سندھ کی قیادت سندھ میں سیاسی اور آئینی بحران پیدا کر کے صوبے میں گورنر راج لگانے کا جواز پیدا کرنا چاہتی ہے؛ تاہم اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں میں گورنر راج کا نفاذ اتنا آسان نہیں رہا‘ اس لئے حکمران جماعت سندھ میں اپوزیشن کی باقی جماعتوں کو ساتھ ملا کر صوبے میں پی پی پی حکومت کے خلاف مسلسل ایجی ٹیشن کر کے ایسے حالات برقرار رکھنا چاہتی ہے جس سے صوبائی حکومت کی توجہ اور توانائیاں ایک بہتر گورننس اور ترقیاتی کام کے بجائے، ایجی ٹیشن سے نمٹنے پر صرف ہوں اور آئندہ انتخابات میں اپوزیشن اس سے فائدہ اٹھا سکے۔
اپوزیشن میں شامل تینوں دھڑوں یعنی جماعت اسلامی، ایم کیو ایم (پاکستان) اور جی ڈی اے نے اگرچہ حکومت کے خلاف مل کر احتجاجی تحریک شروع کر رکھی ہے، مگر اس جماعت کے ذریعے یہ تینوں دھڑے جو مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ جماعت اسلامی کراچی اور صوبے کے دیگر شہری علاقوں میں اپنی کھوئی ہوئی سیاسی ساکھ کو بحال کرنا چاہتی ہے۔ اس کے خیال میں پی ٹی آئی کی گرتی ہوئی مقبولیت، ایم کیو ایم کی دھڑے بندی اور جی ڈی اے کی غیر فعالی نے اسے پیپلز پارٹی کے مقابلے میں ایک موثر طاقت بننے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ یہی مقصد ایم کیو ایم کے پیش نظر ہے۔ اس نے تنظیمی طور پر تو الطاف حسین سے علیحدگی اختیار کر لی ہے، مگر اس کی سیاست اب بھی انہی کے نظریے اور مقاصد پر مبنی ہے۔ جی ڈی اے کے قیام کا مقصد، صوبے میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں سندھی عوام کو ایک قوم پرست متبادل فراہم کرنا تھا‘ لیکن قوم پرست جماعتوں کی شمولیت کے باوجود یہ اتحاد اس مقصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ 2018ء کے انتخابات میں اس کی پرفارمنس اس کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان تمام دھڑوں میں شامل جماعتیں پیپلز پارٹی کو اپنے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتی ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ صوبے میں پیپلز پارٹی کا اگر کوئی کمزور سپاٹ ہے، تو وہ شہری علاقے خاص طور پر کراچی ہے۔ اس لئے ان کا تمام تر فوکس کراچی اور صوبے کے دیگر شہری علاقے ہیں، لیکن اس طرح وہ سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں کے درمیان پہلے سے موجود دراڑ کو اور بھی گہرا کر رہی ہیں جو نہ صرف صوبے میں ایک خطرناک سیاسی خلفشار کا باعث بن سکتا ہے، بلکہ ملک کے اتحاد اور سالمیت کیلئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لئے کہ بلوچستان کے بعد سندھ ملک کا سب سے زیادہ حساس صوبہ ہے۔