آڈیو کیسٹس اور یُوٹیوب کے ذریعے موسیقی سے لطف اندوز ہونے والی آج کی نسل ''ہز ماسٹرز وائس‘‘ کے نام سے شاید ہی واقف ہو۔ آج سے ایک صدی قبل برطانیہ کی اس گراموفون کمپنی کے نام سے ہندوستان کا بچہ بچہ واقف تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب موسیقی کی دنیا کے بڑے بڑے فنکاروں کے گائے ہوئے کلاسیکی، نیم کلاسیکی راگوں، غزلوں، دادروں اور ٹھمریوں کو طشتری نما گول ''تووں‘‘ میں ریکارڈ کرکے چابی سے چلنے والے صندوق نما ڈبے پر رکھ کر پلے کیا جاتا تھا۔ آواز بلند کرنے کیلئے اسی ڈبے پر مائیکروفون نصب ہوتا تھا۔ بیسویں صدی کے اوائل میں متعدد گراموفون کمپنیاں موسیقی کے دلدادہ حضرات کو روح کی غذا فراہم کرنے کی خدمات سرانجام دینے میں مصروف تھیں‘ مگر ''ہز ماسٹرز وائس‘‘ اپنے لوگو کی وجہ سے ان سب کمپنیوں میں نمایاں نظر آتی تھی۔ اس لوگو میں ایک کتے کو گراموفون میں نصب سائونڈ ہارن میں منہ ڈالے گانا گانے والے کی آواز سنتے دکھایا گیا ہے۔ یہ کتا کون تھا‘ کس کا تھا اور یہ کس گوّیے کی آواز کو گراموفون کے سائونڈ ہارن کے قریب منہ کئے سن رہا تھا؟ کلاسیکی موسیقی کا شوق اور جانکاری رکھنے والے حضرات سنگیت رتن استاد عبدالکریم خان کے نام سے بخوبی واقف ہیں۔ 1872ء میں پیدا ہونے والے آواز اور سُر کے اس عظیم استاد کے بارے میں مشہور تھا کہ جب وہ گاتے تھے تو ان کا کتا بھی سامعین میں آ کر بیٹھ جاتا اور جب تک استاد گاتے رہتے، کتا بھی اپنے آقا کی سریلی آواز سنتا رہتا۔
برطانیہ کی ایک گراموفون کمپنی ہندوستان میں اپنا بزنس لانچ کرنے کیلئے ایک گلوکار کی تلاش میں تھی۔ اسے پتہ چلا کہ استاد عبدالکریم خان کی سریلی آواز کا اسیر ہونے والوں میں ان کا کتا بھی شامل ہے تو اس نے تصدیق کرنے کیلئے ایک گراموفون نصب کرکے استاد عبدالکریم خان کا ریکارڈ کیا ہوا گانا چلا دیا۔ جونہی کتے کے کان میں اپنے آقا کے گانے کی آواز پڑی وہ بھاگا بھاگا آیا اور اپنا منہ جھٹ سائونڈ ہارن میں ڈال دیا۔ سین کے منتظر فوٹوگرافرز نے فوراً تصویریں لیں اور یوں ایک گراموفون پر گانا سنتے ہوئے کتے کے ساتھ گراموفون کی تصویر کو کمپنی نے اپنا لوگو بنا لیا اور اس کے نیچے ''ہز ماسٹرز وائس‘‘ لکھ دیا۔ اسی نام سے یہ گراموفون کمپنی ہندوستان کے طول و عرض میں مشہور ہوئی۔
ہندوستان میں کلاسیکی اور نیم کلاسیکی موسیقی کو عام لوگوں میں آل انڈیا ریڈیو کے بعد پاپولرائز کرنے میں جس ادارے نے تاریخی کارنامہ سرانجام دیا، وہ ''ہز ماسٹرز وائس‘‘ گراموفون کمپنی تھی۔ موسیقی کے شوقین گراموفون پر کمپنی کے ریکارڈ کردہ گانے خود بھی سنتے اور جو شوقین حضرات گراموفون خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے، انہیں بھی کھلے دل سے اپنے ہاں آنے کی اجازت دے کر موسیقی سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کرتے۔ جب ہم نے ہوش سنبھالا تو ہوٹلوں اور چائے خانوں میں رکھے ہوئے ریڈیو کی صورت میں یہ مواقع میسر تھے۔ ان ریڈیوز سے فلمی گانوں کے علاوہ کبھی کبھی کلاسیکی موسیقی کے پروگرام بھی نشر ہوتے تھے۔ یوں ہم محمد رفیع، لتا، مکیش اور طلعت محمود کے علاوہ استاد بڑے غلام علی خان، استاد امیر خان، استاد علائوالدین خان، پنڈت بھیم سین جوشی اور روشن آرا بیگم جیسے عظیم فنکاروں کے ناموں سے بھی آشنا ہوئے۔
ان میں کبھی کبھی استاد عبدالکریم خان صاحب کے نام اور فن کا بھی ذکر ہو جاتا تھا‘ مگر خان صاحب عبدالکریم خان کے بارے میں مزید جاننے کی خواہش اس وقت پیدا ہوئی جب برصغیر کے دو عظیم فنکاروں بھارت رتنا پنڈت‘ بھیم سین جوشی اور ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم نے الگ الگ انٹرویوز میں اپنے استاد کو خراج تحسین پیش کیا۔ پنڈت بھیم سین کہتے ہیں کہ موسیقی کے ہاتھوں جب مجھے گھر بار چھوڑنا پڑا تو بمبئی کے ایک ہوٹل میں چائے پیتے ہوئے ریڈیو پر خان صاحب کو گاتے سنا تو دل نے فوراً کہا کہ آواز ہو تو ایسی ہو اور اسی دن سے میں نے خان صاحب عبد الکریم خان کی شاگردی اختیار کرنے کی ٹھان لی۔ روشن آرا بیگم کی کہانی اس سے بھی دلچسپ ہے۔ وہ بھی موسیقی کا فن سیکھنے کیلئے کسی استاد کی تلاش میں بمبئی میں مقیم تھیں کہ کسی نے انہیں بتایا کہ بمبئی میں ایک استاد ہیں‘ وہ جب گاتے ہیں تو سننے والے رونے لگ جاتے ہیں۔ روشن آرا بیگم جب خان صاحب کے حضور پہنچیں اور شاگردی کی استدعا کی تو روشن آرا کے مطابق انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ مسلمان لڑکیوں کو موسیقی کی تعلیم دینے کے سخت خلاف ہیں کیونکہ محنت اور ریاضت کرکے ان (مسلمان) لڑکیوں کو موسیقی سکھاتے ہیں لیکن وہ پھر شادی کرکے گھر بیٹھ جاتی ہیں۔ روشن آرا بیگم کی منت سماجت پر خان صاحب انہیں اپنی شاگردی میں لینے پر تیار ہو گئے‘ وہ مگر اتنے ہارڈ ٹاسک ماسٹر تھے کہ روشن آرا بیگم کا کہنا تھا کہ جب کوئی بول غلط ادا ہو جاتا تھا تو خان صاحب سارنگی کی چھڑی سیدھی ہونٹوں پر دے مارتے تھے۔
برصغیر کے اس عظیم فنکار نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے بزرگوں سے حاصل کی لیکن جب جوانی کے عالم میں وہ اپنے بھائی عبدالحق کے ہمراہ گاتے تھے تو ان کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ ان کی یہ داستان مجھے یوٹیوب پر موسیقی کے قدردان محمد لطف اللہ خان کی زبانی سننے کا موقع ملا۔ ان کے مطابق استاد عبدالکریم خان نے ایک دفعہ مہاراجہ برودا کے دربار میں پرفارم کیا۔ مہاراجہ برودا ان کے فن سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے خان صاحب کو اپنے دربار میں شاہی گویے کی حیثیت سے ملازم رکھ لیا۔ اسی خاندان کی ایک خاتون تارا بائی نے خان صاحب کے فن سے متاثر ہو کر شادی کر لی۔ شادی کے بعد دونوں کو برودا چھوڑ کر بمبئی میں قیام کرنا پڑا۔ تارا بائی خود اچھا گاتی تھی اور خان صاحب سے اس کے جو پانچ بچے (دو لڑکے اور تین لڑکیاں) پیدا ہوئے، سب نے موسیقی میں نام پیدا کیا۔ ان میں سب سے بڑی بیٹی ہیرا بائی برودکر کا نام سب سے نمایاں تھا۔ خان عبدالکریم خان نہ صرف عظیم گویے بلکہ علم موسیقی کی گرائمر ''سرگم‘‘ کے ماہر اور جدت پسند موسیقار بھی تھے۔ انہوں نے ایسی نئی دھنیں اور سُر ایجاد کئے جو بہت پاپولر ہوئے۔ لطف اللہ خان کے مطابق عبدالکریم خان کو پورے ہندوستان میں انتہائی عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا بلکہ لوگوں کے دلوں میں ان کی ایک دیوتا کی حیثیت سے جگہ تھی۔
خان عبدالکریم خان ایک مسلمان فنکار تھے اور ان کے کہانی، فن اور پذیرائی سے آگاہ ہونے کے بعد ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان دنوں ہندوؤں میں مسلمانوں کے خلاف اتنا تعصب کیوں نہیں تھا؟ حالانکہ بیسویں صدی کی پہلی تین چار دہائیوں کے دوران ہی کانگریس، مسلم لیگ کے مابین سیاسی اختلافات سامنے آچکے تھے۔ آج کل کے بھارت میں عام مسلمانوں سے ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے فنکاروں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے‘ تقریباً ایک صدی قبل کے زمانے سے اگر ہم اس کا مقابلہ کریں، تو یقین نہیں آتا کہ وہی دھرتی جس نے استاد عبدالکریم خان اور ان جیسے دیگر عظیم فنکاروں، ادیبوں اور شاعروں کو سر آنکھوں پر بٹھایا، آج وہاں مذہب کے نام پر مسلمانوں کیلئے جینا مشکل کر دیا گیا ہے۔ کچھ تو ہے جس کی بدولت دوستی، بھائی چارے اور امن کی فضا نفرت، دشمنی اور عدم برداشت میں تبدیل ہوگئی ہے۔ قائد اعظم نے امید ظاہر کی تھی کہ تقسیم کے بعد دونوں ملکوں کے مابین قریبی تعاون اور امن پر مبنی تعلقات قائم ہوں گے مگر بدقسمتی سے پاکستان اور بھارت‘ دونوں ایسا کرنے میں ناکام رہے اور یہی ناکامی ایک دوسرے کے ہاں اقلیتوں کے ساتھ اکثریتی آبادی کے ناروا سلوک کی بڑی وجہ ہے۔ اگرچہ لطف اللہ خان کے مطابق بھارت میں اب بھی کروڑوں لوگ خان صاحب ہی نہیں بلکہ ان کی عظیم شاگردہ روشن آرا بیگم کا نام بھی عقیدت سے لیتے ہیں۔