"DRA" (space) message & send to 7575

نواز شریف تحریک عدم اعتماد پر کیوں راضی ہوئے؟

لاہور میں 5 فروری کو ماڈل ٹاؤن میں مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی دعوت پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور سابق صدر آصف علی زرداری کی ظہرانے میں شرکت اور اسی دوران دونوں پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت کے درمیان ملک کی سیاسی صورتحال اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کے بارے میں لائحہ عمل پر بات چیت بلا شبہ قومی سیاست میں ایک تہلکہ مچا دینے والا واقعہ ہے۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ پہلی: تاریخی طور پر خصوصاً 1988ء کے بعد ملک میں بے شک لولی لنگڑی مگر جمہوریت کے آغاز کے بعد اسٹیبلشمنٹ کیلئے ان دونوں پارٹیوں کے مابین مفاہمت اور تعاون سب سے ڈرائونا خواب (Nightmare) ہے کیونکہ ان میں سے ایک یعنی پی ایم ایل (این) کا سپورٹ بیس ملک کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا اور امیر ترین صوبہ پنجاب ہے۔ پی ٹی آئی کسی اشیرباد کے باوجود پنجاب میں نون لیگ کی جگہ نہیں لے سکی۔ میرا اندازہ ہے کہ اب بھی اگر آزادانہ اور غیر جانب دارانہ انتخابات ہوں تو نون لیگ، پی ٹی آئی پر واضح برتری حاصل کرے گی۔ اسی طرح سندھ میں بھی مقتدر حلقوں کو پی پی کا کوئی متبادل نہیں مل سکا۔ سندھ اور پنجاب، پاکستان کے صرف آبادی کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ وسائل کے اعتبار سے بھی سب سے اہم صوبے ہیں اور جب ان میں جڑیں رکھنے والی دو سیاسی جماعتیں آپس میں مل بیٹھیں، تو ایوان اقتدار میں ہلچل بلکہ ہیجان کی کیفیت کا پیدا ہونا قدرتی ہے۔
لاہور کی اس ملاقات کی اہمیت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ میڈیا رپورٹ کے مطابق شہباز شریف نے پی پی پی کی قیادت کے ساتھ رابطہ کر کے اسے ظہرانے پر نون لیگ کے قائد نواز شریف کی ہدایت پر دعوت دی جسے پی پی پی کی قیادت نے فوراً قبول کر لیا اور بلاول اور زرداری صاحب ‘ دونوں نے ایک ساتھ آنے کا فیصلہ کیا۔ اس طرف سے ان کا استقبال کرنے والوں میں شہباز شریف کے ہمراہ مریم نواز اور سعد رفیق شامل تھے۔ کچھ حلقوں نے سابق وزیر اعظم اور نون لیگ کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی کی غیر موجودگی کو ایشو بنانے کی کوشش کی مگر یہ بے معنی کوشش ہے کیونکہ شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کی سوچ اور موقف کے حامی سعد رفیق ملاقات میں موجود تھے۔
شاہد خاقان عباسی کے تازہ ترین بیانات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ نون لیگ میں نام نہاد ''مزاحمتی‘‘ گروپ نے نام نہاد ''مفاہمتی‘‘ گروپ کے آگے ہتھیار ڈال دئیے ہیں۔ اس کا اظہار شہباز شریف کی 5 فروری کو بلاول اور زرداری صاحب سے لاہور میں ظہرانے پر ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کے دوران اس بیان سے بھی ہوتا ہے‘ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اب تک نون لیگ میں وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے بارے میں دو آرا تھیں لیکن اب ایک ہی سوچ ہے اور وہ یہ کہ مزید وقت ضائع کئے بغیر اس حکومت کو گھر بھیجنے کی کوشش کی جائے‘ اور اس کے لئے تمام دستیاب قانونی، آئینی، جمہوری اور سیاسی طریقے اختیار کئے جائیں۔
میڈیا نے بھی باخبر ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ نون لیگ کے قائد نوا ز شریف نے تحریک عدم اعتماد کی اجازت دے دی ہے‘ اور اس کیلئے پارٹی کے صدر شہباز شریف کو باقی تمام سیاسی پارٹیوں سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی ہے تاکہ قومی اتفاق رائے سے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ''ان ہاؤس‘‘ تبدیلی لائی جائے۔ بلاول اور زرداری صاحب کو ظہرانے کی دعوت، ایم کیو ایم کے وفد سے شہباز شریف کی ملاقات، ق لیگ کی قیادت سے رابطہ اور مولانا فضل الرحمن سے رابطہ اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ ''ن لیگ‘‘ اور ''ق لیگ‘‘ کی اعلیٰ قیادت کے مابین جلد ملاقات ہونے والی ہے۔ اس کے علاوہ نون لیگ نے بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں اور اپوزیشن رہنماؤں سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
اہم سوال یہ ہے کہ نون لیگ‘ جو اب تک تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ''ان ہاؤس‘‘ تبدیلی پر آمادہ نہیں تھی بلکہ صاف، شفاف، غیر جانبدارانہ اور بیرونی مداخلت سے پاک انتخابات پر مصر تھی، اب اس پر کیوں راضی ہو گئی ہے؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے بہتر ہو گا کہ شہباز شریف کے بیان کے مطابق نون لیگ میں الگ الگ پائی جانے والی دو سوچوں کی نشاندہی کی جائے اور اس کے بعد یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جائے کہ کن وجوہات کی بنا پر نام نہاد ''مزاحمتی‘‘ گروپ نے نام نہاد ''مفاہمتی‘‘ گروپ کے ساتھ مصالحت کر لی ہے۔ شہباز شریف کے بیان سے قبل نون لیگ قیادت کے کسی بھی اہم رکن نے واضح طور پر اور کھلے عام پارٹی میں دو مختلف سوچوں اور گروپ کی موجودگی کا اعتراف نہیں کیا تھا؛ البتہ اشاروں کنایوں میں اس اختلاف کے وجود کو تسلیم کیا جاتا تھا۔ اس کے مطابق پارٹی کے کچھ زعما اس رائے کے حامل تھے کہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ان ہاؤس تبدیلی بلکہ مڈٹرم انتخابات کا بھی اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں، جب تک اس بات کی ضمانت نہ دی جائے کہ تمام ادارے آئین اور قانون کے مطابق اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہیں گے اور صاف، شفاف، غیر جانبدارانہ اور غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت کے بغیر انتخابات کے نتیجے میں منتخب حکومت کو اپنے مینڈیٹ کے مطابق اختیار استعمال کرنے کا موقع حاصل ہو گا۔
مسلم لیگ (ن) میں اس سوچ کے حامی رہنماؤں میں شاہد خاقان عباسی، خواجہ سعد رفیق، احسن اقبال، پرویز رشید اور مریم نواز شامل ہیں۔ اس سوچ کی بنیاد نواز شریف کا وہ بیانیہ ہے جس میں انہوں نے کہا کہ 1950ء کی دہائی سے آج تک کسی سویلین حکومت کو اس کے آئینی مینڈیٹ کے مطابق اختیارات استعمال کرنے کی آزادی نہیں دی گئی بلکہ غیر سیاسی حلقوں کی طرف سے سویلین حکومت کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں 1980ء کی دہائی کے بعد کسی سویلین وزیر اعظم کو اس کی مدت کے 5 سال پورے کرنے کا موقع نہیں ملا۔ دیگر الفاظ میں سویلین بالادستی کے بغیر تشکیل پانے والی حکومت اپاہج اور بے اختیار ہو گی اور عوام کی طرف سے ملنے والے مینڈیٹ کے مطابق پالیسی سازی کے عمل میں ناکام رہے گی۔ شاہد خاقان عباسی نے ایک دفعہ نہیں بلکہ متعدد بار اپنی اس رائے کو بیان کیا کہ اگر اگلے انتخابات گزشتہ یعنی 2018ء کے انتخابات کی طرح ہوتے ہیں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ خواجہ سعد رفیق نے جمہوری سیاسی عمل میں غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت کے بارے میں متعدد بار اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) میں ایک گروپ‘ اور یہ گروپ منتخب ممبران قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی ایک بڑی تعداد پر مشتمل ہے، کی سوچ ہے کہ عمران خان سے جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں، وہ پوری نہیں ہوئیں، بلکہ قومی معیشت کی دن بدن خراب صورتحال نے قومی سلامتی کیلئے جو خطرہ پیدا کر دیا ہے، اسٹیبلشمنٹ کو اس پر سخت تشویش ہے۔ خصوصاً ان حالات میں جب چین کے علاوہ پاکستان کو کسی بھی بڑی طاقت کی طرف سے مطلوبہ حمایت حاصل نہیں ہے۔ سرحدوں پر صورتحال مخدوش ہے۔ ان حالات میں ملک کا چہرہ یعنی حکومت کی تبدیلی ناگزیر ہوتی جا رہی ہے۔ حالات نون لیگ کیلئے سازگار بنتے جا رہے ہیں۔ اس لئے ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ (باقی آئندہ )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں