کیا تحریک عدم اعتماد کے حق میں حالات واقعی سازگار ہو گئے ہیں؟ پی پی پی کی طرف سے تو یہ دعویٰ کافی عرصے سے کیا جا رہا تھا؛ البتہ نون لیگ چند ہفتے پہلے تک اس سے متفق نہیں تھی۔ اس کی رائے میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے دو شرائط لازمی ہیں۔ پہلی‘ نمبرز پورے ہوں اور دوسری‘ امپائر کا اشارہ ہو۔ لاہور والی ملاقات سے پہلے شاہد خاقان عباسی نے کہا تھا کہ ابھی ان دونوں میں سے ایک بھی شرط پوری نہیں ہوئی اور اپنے موقف کے حق میں انہوں نے سینیٹ میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ترمیمی بل پر ووٹنگ اور بعض ارکان پارلیمنٹ کی طرف سے مبینہ طور پر ''ٹیلیفون کال‘‘ موصول ہونے کی اطلاعات کا حوالہ دیا۔
ایک اور سینئر لیگی رہنما، رانا ثناء اللہ بھی شاہد خاقان عباسی کے موقف سے متفق تھے اور پی پی پی کی طرف سے تحریک عدم اعتماد لانے پر اصرار کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ ہمارے اندازے کے مطابق ابھی نمبرز پورے نہیں‘ اگر پی پی پی کے پاس پورے ہیں تو وہ ہمیں دکھا دے ہم تحریک عدم اعتماد پیش کر دیں گے۔ مرکز اور پنجاب میں حکمران پی ٹی آئی کے اقتدار میں رہنے کا انحصار اس کی دو بڑی اتحادی جماعتوں ق لیگ اور ایم کی ایم کی حمایت پر ہے۔ ابھی تک ان دونوں میں سے کسی ایک کی طرف سے بھی حکومت سے علیحدگی کا اشارہ نہیں دیا گیا بلکہ پی پی پی اور ق لیگ کے مابین لاہور میں ایک حالیہ ملاقات کے دوران مواخرالذکر نے اول الذکر کو صاف بتا دیا کہ انہوں نے حکومت کے ساتھ 5 سال کیلئے اتحاد کا معاہدہ کیا ہے۔ ایم کیو ایم (پاکستان)کے سینئر رہنماؤں پر مشتمل وفد‘ جس نے حال ہی میں لاہور میں ق لیگ اور ن لیگ کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں، کی طرف بھی حکومت سے الگ ہونے کا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا۔
ق لیگ کے ایک اور سینئر رہنما کامل علی آغا کا حال ہی میں ایک بیان آیا‘ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے ایک بنیادی شرط یعنی کسی کا نیوٹرل ہونا، ابھی دور دور تک نظر نہیں آتا۔ نیوٹرل ہونے کا مطلب اس کی طرف سے حکومت کی سیاسی پشت پناہی سے ہاتھ کھینچنا ہے‘ لیکن اس کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ تو آخر نون لیگ کن شواہد کی بنیاد پر دعویٰ کر رہی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کیلئے حالات سازگار ہیں؟ یہی سوال پی ڈی ایم کے صدر اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے اس دعوے پر اٹھایا جا سکتا ہے، جو انہوں نے لاہور میں جمعہ 11 فروری کو اپوزیشن کے اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کے دوران کیا تھا، لیکن مولانا سمیت نون لیگ کا بھی کوئی رہنما ان ''ٹھوس شواہد‘‘ کی نشاندہی نہیں کر رہا‘ جس کی بنیاد پر وہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کو یقینی قرار دیں؛ البتہ نون لیگ کے اہم رہنما جن میں مریم نواز اور سعد رفیق شامل ہیں، نمبرز پورا ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں لیکن امپائر کی غیر جانبداری پر خاموش ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اپوزیشن عوام میں یہ تاثر پیدا نہیں کرنا چاہتی کہ تحریک عدم اعتماد امپائر کے اشارے پر لائی جا رہی ہے، لیکن شاہد خاقان عباسی جیسے رہنما تو متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ مفاہمت کے تاثر کو عوام میں پھیلنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے‘ اس صورت میں نواز شریف کے بیانیے پر سوالات اٹھائے جائیں گے۔ نواز شریف اور ان کے بیانیے کے حامی نون لیگ کے رہنما دعویٰ کر سکتے ہیں کہ وہ بیانیے سے دست بردار نہیں ہو رہے مگر عوام میں ناگزیر طور پر یہ تاثر پھیلے گا کہ جس بیانیے کا نوا زشریف نے گزشتہ سال اعلان کیا تھا، اپوزیشن اسے دفن کرکے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا رہی ہے۔ نون لیگ کے رہنماؤں خصوصاً مریم نواز کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپوزیشن کسی اشارے کے بجائے ''حالات‘‘ پر انحصار کر رہی ہے۔ ان حالات میں سب سے اہم گزشتہ ساڑھے تین برسوں میں قومی معیشت کو سنبھالا دینے میں حکومت کی مکمل ناکامی ہے۔ باقی واقعات مثلاً ضمنی اور کے پی کے بلدیاتی انتخابات میں شکست، مہنگائی، بیروزگاری اور افراط زر، گرتی ہوئی معیشت کی پیداوار ہیں۔ حکومت کے پاس آئندہ ڈیڑھ سال کا جو باقی وقت ہے، امید نہیں کہ اس میں وہ معاشی محاذ پر کوئی کامیابی حاصل کر سکے۔ ان حالات نے وہ ''ماحول‘‘ پیدا کیا ہے جس کے پیش نظر مولانا فضل الرحمن کے مطابق ماضی کے موقف کے برعکس، اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا ہے‘ کیونکہ ان حالات سے نہ صرف نون لیگ سے وابستہ اراکین پارلیمنٹ کی طرف سے حکومت کو ''ہر قانونی اور آئینی‘‘ طریقے سے ہٹانے پر زور دیا جا رہا ہے بلکہ پی ٹی آئی کی حلقوں میں بے چینی اور انتشار کے واضح آثار بھی پیدا ہوئے ہیں۔ نون لیگ کی طرف سے پی پی پی کے اعلیٰ قیادت کے ساتھ ملاقات اور تحریک عدم اعتماد پر آمادگی کی ایک اور فوری وجہ وزیر اعظم کی طرف سے سابق مشیر برائے احتساب اور امور داخلہ شہزاد اکبر کی جگہ بریگیڈیئر (ر) مصدق عباسی کی تقرری بھی ہو سکتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے شہزاد اکبر کو شریف برادران کے خلاف کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات ثابت کرنے اور ''لوٹی ہوئی دولت‘‘ واپس لانے کی ذمہ داری سونپی تھی۔ اب وہ نئے مشیر کے ذریعے نہ صرف یہ مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں بلکہ شہباز شریف اور نون لیگ کے باقی سرکردہ رہنماؤں کو جیل میں ڈال کر شاید ویسا ''ماحول‘‘ پیدا کرنا چاہتے ہیں جیسا 2018ء کے انتخابات سے قبل نواز شریف کی معزولی اور شہباز شریف کی گرفتاری سے پیدا ہوا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان گرفتاریوں سے پی ٹی آئی کو خصوصاً پنجاب میں انتخابات جیتنے میں بہت مدد حاصل ہوئی تھی۔ نون لیگ کے رہنماؤں کا خیال ہے کہ پیشتر اس کے‘ عمران خان اپوزیشن کو سلاخوں کے پیچھے بند کرکے اگلے انتخابات میں اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کی کوشش کریں، تحریک عدم اعتماد کا اعلان کرکے حکومت کو بیک فٹ پر کھیلنے پر مجبور کر دینا چاہئے۔ ابھی تحریک عدم اعتماد کا صرف اعلان ہوا ہے اور کوئی تاریخ مقرر نہیں کی گئی، مگر حکومت کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ اس کا ثبوت حکومتی رہنماؤں، ترجمانوں اور مشیروں کے بیانات اور وزیر اعظم عمران خان کے پبلک جلسوں کے شیڈول کا اعلان ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں بھی ان حالات اور واقعات کی وجہ سے اضطراب پایا جاتا ہے اور آصف زرداری اور بلاول بھٹو کے ساتھ ملاقات کے بعد پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں اراکین کی طرف سے نواز شریف پر تحریک عدم اعتماد پر راضی ہونے کیلئے جس دباؤ کا مریم نواز نے ذکر کیا، اسے نواز شریف کے موقف میں تبدیلی کی ایک بڑی وجہ قرار دیا جا سکتا ہے‘ مگر نون لیگ کو 1806ء کی آسٹرڈز کی مشہور لڑائی میں نپولین کے اس مقولے کو یاد رکھنا چاہیے کہ ''جب دشمن خود غلطیاں کر رہا ہو تو اسے ڈسٹرب نہیں کرنا چاہیے‘‘ بہتر ہوتا اپوزیشن ڈیڑھ سال مزید انتظار کرکے آئندہ انتخابات کی تیاری کرتی کیونکہ محسوس ہوتا ہے‘ حکومت کی ساکھ گرنے کا عمل رکے گا نہیں بلکہ مزید تیز ہو گا۔ تحریک عدم اعتماد، کامیابی اور ناکامی، دونوں صورتوں میں رجحان میں تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے جس کا ممکن ہے، اپوزیشن کو نقصان ہو۔