یوکرائن کا بحران حل ہو جائے گا یا اس کی وجہ سے روس اور نیٹو ممالک کے درمیان ایک بڑی جنگ چھڑ جائے گی؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یوکرائن پر نہ تو روس اور نیٹو ممالک کے درمیان جنگ ہو گی اور نہ مستقبل قریب میں اس بحران کے حل کے امکانات نظر آتے ہیں۔ اگرچہ نیٹو ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یوکرائن کی سرحدوں پر ایک لاکھ نوے ہزار فوج جمع کرکے روس یورپ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑی جنگ کے آغاز کی تیاری کر چکا ہے، لیکن روس کی طرف سے یوکرائن پر براہ راست حملہ کرنے کا کوئی امکان نہیں اور اگر روس یوکرائن پر حملہ کر دے، تب بھی روس اور نیٹو ممالک کے درمیان فوری جنگ نہیں چھڑ سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یوکرائن نیٹو کا رکن ملک نہیں، اگر یوکرائن نیٹو کا رکن ہوتا تو اس معاہدے کے آرٹیکل 5 (اجتماعی دفاع) کے تحت اتحاد کے تمام باقی رکن ممالک‘ جن میں امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی بھی شامل ہیں، پر یوکرائن کی امداد لازمی قرار پاتی؛ البتہ حملے کی صورت میں نیٹو ممالک کی طرف سے روس کے خلاف بھاری اقتصادی پابندیاں عائد ہو سکتی ہیں۔ اس بارے میں نیٹو ممالک میں واضح اتفاق اور مصمم ارادہ پایا جاتا ہے‘ مثلاً امریکہ کی نائب صدر کمیلا ہیرس نے میونخ سکیورٹی کانفرنس کے حالیہ سالانہ اجلاس کے موقع پر اعلان کیا کہ اگر روس نے یوکرائن پر حملہ کیا تو اسے امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی طرف سے وسیع اور شدید ترین اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا‘ جن کے تحت روس کے مالی اداروں اور اس کی صنعتوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ اسی قسم کا اعلان برطانوی وزیر اعظم بورس جانس نے بھی کیا ہے اور روس کو وارننگ دی ہے کہ یوکرائن پر حملے کی صورت میں برطانیہ اپنے ہاں روس کی مالیاتی کمپنیوں کو کام کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ اسی طرح یورپی یونین کے مالیاتی کمیشن نے دھمکی دی ہے کہ اگر روس نے یوکرائن پر حملہ کیا تو اسے دنیا کی تمام مالیاتی منڈیوں سے منقطع کر دیا جائے گا۔
جنگ کے راستے میں ایک رکاوٹ یہ بھی ہے کہ یوکرائن پر روس کے حملے کے بارے میں امریکہ اور بعض اہم یورپی ممالک مثلاً جرمنی اور فرانس کے درمیان نقطہ نظر میں فرق ہے۔ یہ ممالک اپنی رائے کا برملا اظہار نہیں کرتے، مگر ان کے پالیسی بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ یوکرائن پر روس کے حملے کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے‘ مثلاً جرمنی کی وزیر خارجہ نے میونخ میں ایک بیان میں کہا کہ یوکرائن پر روسی حملے کے بارے میں امریکہ کے خدشات محض مفروضوں پر مبنی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کشیدہ صورتحال میں مفروضوں پر مبنی اقدامات خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس لحاظ سے یوکرائن کی صورتحال تشویشناک ہے۔
تازہ اطلاع یہ ہے کہ فرانسیسی صدر میکرون کی امریکی صدر جو بائیدن اور ان کے روسی ہم منصب پوتن کے ساتھ ٹیلیفون گفتگو کے بعد دونوں ملکوں کے رہنما اصولی طور پر سربراہی کانفرنس پر راضی ہوگئے ہیں‘ مگر دوسری طرف یوکرائن پر روس اور امریکہ کے مابین کشیدگی میں اضافہ بھی ہو رہا ہے‘ جس کی وجہ یوکرائن کے مشرقی حصے میں روس کے ہمنوا علیحدگی پسندوں کی طرف سے حملوں میں مزید تیزی بتائی جاتی ہے۔ روس کے صدر پوتن نے ان حملوں کی ذمہ داری یوکرائن پر ڈالتے ہوئے اس پر غیر ضروری اشتعال انگیزی کا الزام عائد کیا ہے۔ اس پر مغربی خصوصاً امریکی اعلیٰ حکام یہ کہنے پر مصر ہیں کہ روس، یوکرائن پر حملہ کرنے والا ہے، بلکہ سیکرٹری آف سٹیٹ کے مطابق روسی فوجی دستوں کو حملے کا حکم بھی دے دیا گیا ہے اور روسی کمانڈروں نے اپنی صفیں درست کرنا شروع کر دی ہیں‘ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ خود امریکہ میں بھی بعض حلقے یوکرائن پر روسی حملے کے فوری اور یقینی امکان کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ صدر جوبائیڈن اور ان کی کابینہ، افغانستان سے ذلت آمیز پسپائی کے داغ کو یوکرائن پر روس کے خلاف سخت موقف اپنا کر دھونا چاہتی ہے۔ اس کیلئے نہ صرف یوکرائن پر روس کے فوری اور یقینی حملے کا ہوّا کھڑا کرکے فضا کو کشیدہ بنایا جا رہا ہے، بلکہ مشرقی یورپ کے سابق کمیونسٹ ملک مثلاً پولینڈ، البانیہ، رومانیہ اور بلغاریہ کو بھی یہ کہہ کر ڈرایا جا رہا ہے کہ یوکرائن پر قبضے کے بعد روس کا رخ ان ممالک کی طرف ہوگا کیونکہ روس کے موجودہ صدر پوتن 1991ء میں علیحدہ ہونے والے مشرقی یورپ کے ممالک کو کنٹرول میں لاکر سابق سوویت یونین کو بحال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
یوکرائن کا بحران آنے والے دنوں میں کیا رخ اختیار کرتا ہے؟ اس کا زیادہ تر انحصار اس بات پر ہے کہ نیٹو کی مشرق کی طرف مزید توسیع کرکے اس میں یوکرائن کو شامل کیا جاتا ہے یا نہیں۔ اس ضمن میں جہاں تک یوکرائن کا تعلق ہے، اس کی طرف سے بھرپور خواہش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ امریکہ تو 2008ء سے یوکرائن کو نیٹو کا رکن بنانے کی حمایت کرتا چلا آ رہا ہے‘ لیکن نیٹو کے بعض بااثر اور طاقتور ممالک یوکرائن اور جارجیا کو فوری طور پر نیٹو میں شامل کرنے کے حق میں نہیں کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ اس پر روس کی طرف سے سخت ردعمل کا اظہار کیا جائے گا اور روس اور یورپی ممالک کے تعلقات کشیدہ ہو جائیں گے۔ اس کشیدگی کے نتیجے میں جہاں روس کو اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا وہاں یورپی ممالک کو بھی معاشی ترقی اور خوشحالی کے شعبوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے مغربی یورپ، روس کی طرف سے گیس کی سپلائز پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ سب سے زیادہ جرمنی اس کشیدگی سے متاثر ہو گا کیونکہ 11 بلین ڈالر کی لاگت سے بحر بالٹک میں سے گزرنے والی پائپ لائن‘ جو شمالی سائبیریا سے پہلی مرتبہ براہ راست روس کی قدرتی گیس جرمنی پہنچائے گی، کی تعمیر تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔
جاری بحران کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یوکرائن کے راستے یورپ کو روس سے جو گیس سپلائی ہوتی تھی، وہ بند ہوجائے گی۔ اس سے اندازہ ہے کہ یوکرائن کو سالانہ 2 بلین ڈالر کا نقصان ہو گا، مگر یوکرائن سے زیادہ امریکہ کو اس گیس پائپ لائن کی تعمیر پر تشویش ہے کیونکہ اس کے خیال میں گیس کی اس پائپ لائن کی تعمیر سے روس یورپ کی توانائی کی منڈی پر چھا جائے گا اور اس کے نتیجے میں یورپ کا روس پر معاشی انحصار اور بھی بڑھ جائے گا۔
امریکہ ہر حالت میں اس گیس پائپ لائن کی تعمیر اور آپریشن روکنا چاہتا ہے کیونکہ اس کے خیال میں آج سے تین دہائیاں قبل سوویت یونین کا شیزارہ بکھرنے سے عالمی سیاست میں روس کے مقام اور اثرورسوخ کو جو نقصان پہنچا تھا، اس کے ذریعے اس کا ازالہ ممکن ہے۔ یوکرائن میں چنانچہ جیو سٹریٹیجک اور جیواکنامک‘ دونوں قسم کے عوامل کارفرما ہیں۔ ایک طرف مشرقی بحر روم سے وابستہ یورپی مفادات ہیں کیونکہ تاریخی طور پر یہ خطہ یورپ کیلئے مشرقی وسطیٰ اور اس سے گزر کر آگے جانے کیلئے گیٹ کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ بحر اسود پر روس کی گرفت مضبوط ہونے سے یورپ اور مشرق وسطیٰ کے مابین بحری رابطے کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف مغربی یورپ ہے جس پر روس یا یورپ کا کوئی بھی ملک غالب حیثیت حاصل کرکے اٹلانٹک کے اس پار سے امریکی سلامتی کیلئے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب روس جرمنی کے ایک حصے (مشرقی جرمنی) میں ایک کمیونسٹ حکومت قائم کرکے وسطیٰ یورپ میں قدم جمانے میں کامیاب ہوگیا تھا تو اس خطرے کا مقابلہ کرنے کیلئے نیٹو اتحاد تشکیل دیا گیا تھا۔ (ختم)