پاک بھارت تعلقات‘ جن میں دو طرفہ تجارت اور مواصلاتی روابط بھی شامل ہیں‘ گزشتہ تقریباً ڈھائی برسوں سے تعطل کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ 5 اگست 2019ء کا بھارتی حکومت کا وہ یکطرفہ اقدام ہے جس کے تحت بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھارتی آئین کی دفعہ 370 کے تحت حاصل داخلی خود مختاری ختم کر دی‘ اور اسے دو حصوں میں تقسیم کرکے بھارتی یونین میں ضم کر لیا تھا۔ اس اقدام کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے پاکستان نے احتجاجی طور پر بھارت کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات کو معطل کر دیا تھا‘ لیکن حال ہی میں چند اشارے ایسے ملے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ تعطل ختم کرکے باہمی تعلقات بحال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت رزاق دائود کا ایک حالیہ بیان خصوصی اہمیت کا حامل ہے‘ جس میں انہوں نے پاکستان اور بھارت کے مابین تجارت کی فوری بحالی کی حمایت کی۔ اس سے کچھ عرصہ قبل پاکستان کی ایک ممتاز کاروباری شخصیت میاں منشا نے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں اپنے ایک خطاب میں پاک بھارت تجارت کی بحالی پر زور دیتے ہوئے انکشاف کیا تھاکہ دونوں ملکوں میں اس مقصد کیلئے بیک چینل سفارتی کوشش (Back Channel Diplomacy) جاری ہے‘ بلکہ انہوں نے یہ پیشگوئی بھی کی تھی کہ اس سلسلے میں قوم کو بہت جلد ایک اچھی خبر ملے گی۔
جہاں تک پاک بھارت بیک چینل روابط کا تعلق ہے، میری معلومات کے مطابق اس کا سلسلہ اکتوبر 2020ء سے جاری ہے اور انہی روابط کے نتیجے میں فروری 2021ء میں دونوں ملکوں نے نومبر 2003ء کے معاہدے کے تحت لائن آف کنٹرول پر فائربندی پر سختی سے عمل کرنے کا اعادہ کیا تھا۔ لائن آف کنٹرول پر فائر بندی سے پیدا ہونے والی پُرامن فضا کے نتیجے میں پاکستان نے بھارت سے چینی اور کپاس کی درآمد کا فیصلہ کر کے ایک اہم قدم اٹھایا تھا‘ مگر اگلے ہی دن وفاقی کابینہ نے یہ فیصلہ واپس لے لیا تھا کیونکہ مقبوضہ کشمیر میں اقدامات کی وجہ سے پاکستان میں بھارت کے ساتھ تجارت اور دیگر روابط بحال کرنے کے حق میں فضا استوار نہیں تھی؛ تاہم انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اقدامات مثلاً ایک دوسرے کے قیدیوں کی رہائی، پاکستان کی طرف سے ہندو یاتریوں کو سندھ میں اپنے مقدس مذہبی مقامات کی یاترا کی اجازت اور حال ہی میں یوکرین سے انخلا میں پاکستانی حکام کی طرف سے بھارتی طلبا کی امداد‘ نے نہ صرف دونوں ملکوں کے عوام میں ایک دوسرے کے بارے میں خیر سگالی کے جذبات کو فروغ دیا بلکہ حکومتی سطح پر بھی متنازع امور پر بات چیت کو آگے بڑھانے کا عمل شروع کیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں اسلام آباد میں حال ہی میں ہونے والے پاک بھارت آبی مسائل پر مذاکرات خصوصی طور پر اہم ہیں۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاک بھارت آبی مذاکرات کا اسلام آباد راؤنڈ دونوں ملکوں کے مابین سابقہ آبی مذاکرات کا تسلسل تھا۔ تین دن جاری رہنے والے ان مذاکرات میں کوئی بریک تھرو تو نہیں ہوا، مگر جیساکہ میڈیا اطلاعات سے ظاہر ہے، دونوں ملکوں کے مابین یہ مذاکرات ''انتہائی خوشگوار‘‘ ماحول میں ہوئے‘ اور پاکستان کی طر ف سے کشمیر سے آنے والے دریائے سندھ کے معاون دریا‘ خصوصاً دریائے چناب پر بھارتی آبی سٹرکچر کی تعمیر کے ڈیزائنز پر جو اعتراضات اٹھائے گئے، بھارت نے مذاکرات کے آئندہ راؤنڈ میں ان کا مثبت جواب دینے کا وعدہ کیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین مثبت اور حوصلہ افزا ماحول میں پانی کے تنازع کو حل کرنے کی خواہش، پاکستان کے کاروباری حلقے کی طرف سے بھارت کے ساتھ تجارت کی فوری بحالی کی تجویز اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر باہمی خیر سگالی کے چھوٹے چھوٹے اقدامات سے محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں گزشتہ ڈھائی برسوں سے جاری جمود ٹوٹنے والا ہے۔
جس شعبے میں اس عمل کی ابتدا کا زیادہ امکان ہے وہ دو طرفہ تجارت ہے۔ وفاقی حکومت کے ایک اہم اور بااثر رکن کی طرف سے اس کی حمایت نے پاک بھارت تجارتی روابط کو بحال کرنے کے امکانات کو بڑھا دیا ہے۔ یاد رہے کہ 2004ء سے 2008ء کے دوران پاک بھارت کمپوزٹ ڈائیلاگ اور پیس پراسیس کے تحت دونوں ملکوں میں تجارت کا حجم پانچ گنا بڑھ گیا تھا‘ بلکہ پیپلز پارٹی کی حکومت (2008ء تا 2013ء) کے آخری سالوں میں پاکستان کی طرف سے بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن کا مقام دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی جگہ اقتدار سنبھالنے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت (2013 تا 2018) نے بھی اس فیصلے پر عمل درآمد کا اعلان کیا تھا‘ مگر 2014ء کے بھارتی انتخابات کے نتیجے میں نریندر مودی کی سرکردگی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے قیام سے یہ عمل رک گیا؛ تاہم تجارت جاری رہی۔ 2019ء میں پاکستان نے اس پر عملی پابندی عائد کر دی۔ پاکستان کی طرف سے جب بھارت کے ساتھ تجارت پر مکمل پابندی کا اعلان کیا گیا تو بھارت نے پاکستان کو تجارت جاری رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔ اب بھی بھارت کا موقف یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین تجارت پر پابندی پاکستان کی طرف سے لگائی گئی تھی اور اسے بحال کرنے کی ابتدا بھی اسی طرف سے ہونی چاہیے‘ مگر پاکستان اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ جب تک بھارت اگست 2019ء کے اقدامات کو واپس نہیں لیتا، نارمل تعلقات‘ جن میں دو طرفہ تجارت بھی شامل ہے، بحال نہیں ہو سکتے‘ لیکن دونوں ملکوں کے تعلقات کی گزشتہ 74 سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ ان کی بحالی ہمیشہ غیر مشروط طریقے سے عمل میں آئی ہے۔ بدلے ہوئے حالات میں باہمی تجارت کا آپشن پھر کھل گیا ہے۔ اسی لئے ایک اہم تجارتی شخصیت نے اپنے بیان میں زور دے کر کہا تھا کہ اقتصادی مشکلات پر قابو پانے کا واحد راستہ علاقائی تجارت کو فروغ دینا ہے۔
اس وقت جنوبی ایشیا میں علاقائی تجارت کی صورتحال نا گفتہ بہ ہے۔ اپنے چار بڑے ہمسایوں میں سے صرف ایک یعنی چین کے ساتھ ہمارے بھرپور تجارتی تعلقات ہیں۔ اس کی وجہ دو طرفہ تنازعات اور علاقائی امن و امان کی ابتر صورت حال ہے۔ تجارت‘ سرمایہ کاری‘ جو معاشی ترقی اور خوشحالی کی اساس ہیں‘ امن کے بغیر ممکن نہیں، اس لئے جیسا کہ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت بارہا کہہ چکی ہے‘ پاکستان کو اب قومی سلامتی کے تقاضے پورے کرنے کیلئے معاشی ترقی پر فوکس کرنا ہو گا اور اس کیلئے لازم ہے کہ ہم اپنے خطے‘ خصوصاً اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اختلافات اور کشیدگی دور کرنے کیلئے طویل المیعاد پالیسی فریم ورک پر عملدرآمد کریں۔ نئی قومی سلامتی پالیسی میں اس پر خصوصی زور دیا گیا ہے۔ بین الاقوامی رائے عامہ بھی پاکستان کے نقطہ نظر میں اس صحت مندانہ تبدیلی کا خیر مقدم کرنے پر تیار ہے۔ اگر پاکستان کی کوششیں علاقائی امن اور استحکام کو بحال کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں، تو دنیا کی بڑی طاقتیں‘ جن میں امریکہ، یورپی یونین اور جاپان شامل ہیں، اس میں پاکستان کی مدد کریں گی۔ چین بھی اس کی حمایت کرے گا کیونکہ اس کی اپنی علاقائی حکمت عملی تجارت، سرمایہ کاری اور دیگر شعبوں میں باہمی تعاون پر مبنی ہے۔ پاک بھارت جمود کے ٹوٹنے کیلئے نہ صرف قومی اور علاقائی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی سازگار حالات پیدا ہو رہے ہیں اور عین ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین تعلقات کی بحالی کا عمل شروع ہو جائے۔