"DRA" (space) message & send to 7575

تحریکِ عدم اعتماد اور حکومت

اگر تحریک عدم اعتماد لانا نامناسب عمل ہے، تو وزیر اعظم عمران خان کو بہت پہلے اسے آئین سے حذف کرنے کے بارے میں سوچنا چاہئے تھا کیونکہ کراچی اور اس سے قبل میلسی (پنجاب) میں ان کی تقریروں سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کی نظر میں تحریک عدم اعتماد ہی دراصل تمام سیاسی برائیوں کی جڑ ہے۔ جدید جمہوری نظام‘ جسے دنیا کی دیگر بہت سی قوموں کی طرح پاکستان نے بھی اتفاق رائے سے اپنایا ہے‘ کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ عوام کے منتخب نمائندوں کو حکومت بنانے کے ساتھ ساتھ حکومت تبدیل کرنے کا بھی حق حاصل ہے۔ تحریک عدم اعتماد اسی اصول پر مبنی ہے اور اسے ہر جمہوری ملک میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں فریقین یعنی حکومت اور اپوزیشن کو ایک دوسرے سے بڑھ کر اپنی کامیابی کے دعوے کرنے کا حق حاصل ہے۔ اپوزیشن اپنے موقف کے حق میں حکومت کی ناکامیوں کی نشاندہی کرکے تحریک عدم اعتماد کا دفاع کر سکتی ہے۔ اس طرح حکومت کو اپوزیشن کے الزامات کو رد کرکے تحریک کو بلا جواز‘ غیر ضروری اور مہم جویانہ ثابت کرنے کا پورا حق حاصل ہے‘ لیکن اسے مجرمانہ کارروائی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کے اپنے معتمد اور قریبی ترین ساتھی، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اسے جمہوری، آئینی اور اپوزیشن کا حق قرار دے چکے ہیں۔
اپنی پہلی ٹرم کے دوسرے سال شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی۔ کیا انہوں نے یا ان کی پارٹی نے اسلامی جمہوری اتحاد کو چوروں، ڈاکوؤں اور لٹیروں کا ٹولہ کہا تھا؟ کیا بی بی نے تحریک کی ناکامی کی صورت میں اپوزیشن کی گردن مروڑنے کی دھمکی دی تھی؟ یہ تحریک ناکام ہوئی لیکن وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت نے اپنے کسی سیاسی مخالف کو انتقام کا نشانہ نہیں بنایا تھا‘ لیکن میلسی کے جلسۂ عام میں وزیر اعظم نے تحریک عدم اعتماد لانے پر اپوزیشن رہنماؤں کے بارے میں جو الفاظ استعمال کئے، ان پر سنجیدہ حلقوں کی طرف سے تحفظات اور افسوس کا اظہار کیا گیا۔ امید تھی کہ میلسی کی تقریر پر اس رد عمل کے نتیجے میں وزیر اعظم اپنے آئندہ خطابات اور بیانات میں اپوزیشن کے رہنماؤں کے بارے میں الفاظ کے چناؤ میں اعتدال اور توازن کا خیال رکھیں گے‘ لیکن کراچی میں اپنی پارٹی کے کارکنوں سے خطاب میں ان کا رویہ پہلے سے بھی زیادہ جارحانہ تھا‘ بلکہ اپنے آئندہ جلسوں کا حوالہ دے کر انہوں نے عندیہ دیا کہ وہ اسی انداز کو جاری رکھیں گے۔
سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم اپنے خلاف اپوزیشن کی تحریکِ عدم اعتماد کا مقابلہ پارلیمنٹ سے باہر عوامی سطح پر کرنا چاہتے ہیں؟ اگر یہ درست ہے تو اس سے ناگزیر طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا جائے گا کہ حکومت ووٹنگ سے پہلے ہی تحریک عدم اعتماد پر شکست کھا چکی تھی۔ دراصل اپوزیشن نے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد اس وقت پیش کی جب حکومت ہی نہیں بلکہ عوام بھی اس کی توقع نہیں کر رہے تھے۔ اس کی وجہ خود اپوزیشن میں اس تجویز پر اختلاف تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی اسی پر زور دے رہی تھی اور اس کے لانے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی شرکت کی خواہاں تھی‘ لیکن نون لیگ کی طرف سے اس پر آمادگی کا اظہار نہیں کیا جا رہا تھا؛ تاہم فروری کے آخری ہفتے کے دوران چند واقعات کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جس نے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی۔ ان میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی دعوت پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور ان کے والد سابق صدر آصف علی زرداری کی اول الذکر کی رہائش گاہ ماڈل لاہور آمد اور کھانے میں شرکت بھی شامل تھی۔ اس ملاقات کے دوران ملکی سیاسی صورتحال پر بھی بات چیت ہوئی، جو آخر کار اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیوں کے درمیان موجودہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے پر اتفاق پر منتج ہوئی۔
حکومت نے اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اپوزیشن کے اس فیصلے کو محض ایک تماشا قرار دیا کیونکہ اس کے سیاسی حساب و کتاب میں پی پی پی اور پی ایم ایل این کے درمیان اتحاد اور تعاون کی کوئی گنجائش نہیں تھی؛ چنانچہ اس کی طرف سے اپوزیشن کے اس اقدام کے خطرناک نتائج برآمد ہونے کی تنبیہ کی گئی۔ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد اس معاملے میں غیر معمولی طور پر فعال تھے۔ وہ ایک طرف اپوزیشن کو یاد کرواتے تھے کہ جن امیدوں پر اپوزیشن، وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک اعتماد لانا چاہتی ہے‘ وہ محض مفروضے ہیں‘ ان کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں‘ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ بدستور ایک پیج پر ہیں۔ ایک وزیر نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد اپوزیشن کیلئے 'واٹر لو‘ ثابت ہو گی‘ لیکن اپوزیشن کی دو بڑی سیاسی جماعتیں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے نہ صرف باہمی تعاون کو مضبوط بتا رہی تھیں‘ بلکہ قومی اسمبلی میں حکومت کی اکثریت ختم کرنے کیلئے اس کی دو اتحاد جماعتوں مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم (پاکستان) کی حمایت حاصل کرنے کیلئے بھی سرگرم تھیں۔
اس سلسلے میں شہباز شریف کی لاہور میں چودھری برادران کے ہاں آمد، اور ق لیگ کے رہنماؤں چودھری پرویز الٰہی اور چودھری شجاعت حسین کے علاوہ ایم کیو ایم (پاکستان) کے ایک وفد اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل کے ساتھ ملاقاتیں خصوصی اہمیت کی حامل تھیں۔ لاہور میں شہباز شریف کے بعد پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے بھی چودھری برادران سے ملاقات کی لیکن وفاقی حکومت کی طرح ابتدا میں اس کی ان دو حلیف جماعتوں نے بھی اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی کوشش کو سنجیدگی سے نہیں لیا‘ مگر 8 مارچ کو متحدہ اپوزیشن کی طرف سے قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ میں باضابطہ تحریک عدم اعتماد کا نوٹس جمع کروانے کے بعد قومی سیاست کا نقشہ یکلخت بدل گیا۔ اب بیماری کے باوجود چودھری شجاعت اپوزیشن کی اہم قیادت سے ملاقاتیں اور مصالحت کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایم کیو ایم (پی) کے رہنما بھی آصف زرداری سے ملاقات کے خواہاں ہیں۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ جی ڈی اے کے رہنما پیر صاحب پگاڑا نے کراچی میں آئے ہوئے وزیر اعظم سے ملاقات کرنے سے معذرت کر لی۔
معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حلیف جماعتیں اپنا حتمی فیصلہ کرنے کیلئے جس ''اشارے‘‘ کی منتظر تھیں، وہ انہیں مل گیا ہے اور اب وہ تحریک عدم اعتماد کے بعد کی ممکنہ صورتحال میں اپنی جگہ بنانے کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہی ہیں۔ جنگ کی طرح سیاست میں بھی آخری لمحے تک سو فیصد درست پیشگوئی نہیں کی جا سکتی مگر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ متحدہ اپوزیشن نے حکومت کو ایک بڑا سرپرائز دیا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے بارے میں حکومت کی تمام قیاس آرائیوں اور دعووں کے برعکس، متحدہ اپوزیشن حکومت کے خلاف میدان میں اتر آئی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا لاہور میں چودھری برادران کے گھر جانا، پرانے ناراض ساتھیوں جہانگیر ترین اور علیم خان سے رابطے کی کوشش اور کراچی میں حکومت کے قیام کے ساڑے تین سال مکمل ہونے کے بعد ایم کیو ایم (پی) کے ہیڈکوارٹر میں آمد حکومت کی ان کوششوں کا انعکاس ہے جن کے ذریعے وہ ایک ایسے طوفان سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے، جو اب دور افق پر نمودار ہوتا ہوا نظر نہیں آتا بلکہ سر پر کھڑا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں