"DRA" (space) message & send to 7575

بھارت کے ریاستی انتخابات (2)

پاکستان کی طرح بھارت میں بھی قومی اسمبلی (لوک سبھا ) اور صوبائی (ریاستی) اسمبلیوں کی ٹرم ایک جیسی یعنی پانچ سال ہے، مگر ان کے انتخابات کا کیلنڈر الگ الگ ہے۔ چونکہ ملک 28 ریاستوں اور 8 یونین ٹیریٹریز (UTs) پر مشتمل ہے، اس لئے اس کے کسی نہ کسی حصے میں ریاستی انتخابات منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ ان انتخابات کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن پارلیمان یعنی لوک سبھا کے انتخابات کے مقابلے میں انہیں قومی یا بین الاقوامی سطح پر زیادہ تبصروں اور تجزیوں کا مستحق نہیں سمجھا جاتا؛ تاہم اس سال فروری مارچ میں بھارت کی پانچ ریاستوں پنجاب، اتر پردیش، اترا کھنڈ، گوآ، منی پور میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کو ملکی سیاست میں ایک اہم موڑ، ٹرانس فارمٹیو (Trans Formative) اور ماضی سے ہٹ کر مستقبل میں ایک نئے سیاسی منظر نامے کی نوید قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ بلند بانگ دعوے کن وجوہات کی بنا پر کئے جا رہے ہیں؟ بھارت کے ان ریاستی انتخابات کے نتائج سے ہمارے سب سے بڑے ہمسایہ ملک میں آئندہ انتخابی عمل میں کون سے نئے رجحانات کے اشارے نظر آ رہے ہیں اور قومی سلامتی اور علاقائی تعاون کے وسیع تر تناظر میں بھارت کی یہ سیاسی کروٹ پاکستان اور جنوبی ایشیا کے دیگر چھوٹے ممالک کے لئے یہ ممکنہ تبدیلیاں اپنے اندر کیا مضمرات رکھتی ہیں؟ سب سے پہلے ان انتخابات کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے انعقاد کے دو سال بعد یعنی 2024ء میں پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس لئے ان کے نتائج سے 2024ء کے انتخابات نتائج کے متاثر ہونے کا امکان بھی ملک میں جاری بحث اور تبصروں کا ایک اہم موضوع ہے۔
انتخابات کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جن ریاستوں میں یہ انتخابات منعقد ہوئے ہیں‘ ان میں سے ایک یعنی اتر پردیش آبادی کے لحاظ سے ملک کی سب سے بڑی (بیس کروڑ) اور گوآ سب سے چھوٹی (12 لاکھ) ہے‘ مگر قومی سیاست پر اثر انداز ہونے کے حوالے سے ان دونوں ریاستوں کے نتائج یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔ مثلاً اتر پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی جیت غیر متوقع نہیں تھی‘ مگر اس کے مقابلے میں کانگریس اور بہوجن سماج پارٹی جس بری طرح ہاری ہیں، اس کا تصور بھی نہیں کیا جاتا تھا۔ 4 دفعہ وزیر اعلیٰ رہنے والی ''دلت کوئین‘‘ مایا وتی اتر پردیش اسمبلی کی 403 میں سے صرف دو نشستیں حاصل کر سکی۔ کانگریس کے ساتھ اس سے بھی بری ہوئی‘ انتخابات میں اس کے 97 فیصد امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں اور ایک موقع پر 403 میں سے 382 ریاستی سیٹیں حاصل کرنے والی پارٹی کو بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش اسمبلی کے حالیہ انتخابات میں صرف ایک سیٹ ملی حالانکہ پریانیکا گاندھی کے ہاتھ میں انتخابی مہم کی باگ ڈور ہونے سے توقع کی جا رہی تھی کہ اس دفعہ پہلی نہ سہی یہ دوسری پوزیشن ضرور حاصل کرے گی۔ ان کے مقابلے میں بی جے پی نے 403 میں سے 255 نشستیں حاصل کرکے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیا ناتھ کی دوسری ٹرم کنفرم کر دی ہے۔ اتر پریش کی گزشتہ 70 سال کی انتخابی تاریخ میں دوسری مرتبہ کسی وزیر اعلیٰ نے نہ صرف اپنی پانچ سالہ ٹرم پوری کی بلکہ لگاتار دوسری دفعہ یہ معرکہ مار کر اگلی ٹرم کیلئے بھی راہ ہموار کی ہو۔ اتر پردیش میں وزیر اعظم نریندر مودی کے جادو کے علاوہ وزیر اعلیٰ ادتیا ناتھ‘ جو ایک کٹر ہندو قوم پرست ہیں، کی پالیسیوں نے بھی بی جے پی کی فتح کو ممکن بنایا ہے ان کی طرف سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ریاست میں لاء اینڈ آرڈر، کو رونا وبا کے دوران لوگوں کیلئے کھانے کے انتظام اور عورتوں کی فلاح و بہبود کیلئے کئے گئے اقدامات نے بی جے پی کو کامیابی دلائی ہے‘ مگر خود انڈین میڈیا کے سنجیدہ حلقوں نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر ہندو اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو ہراساں اور خوفزدہ کرکے ادتیاناتھ نے 80 فیصد ہندوؤں کی جو خوشنودی حاصل کی ہے‘ ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی جیت اس کا عکس ہے‘ لیکن اتر پردیش میں لگاتار دوسری مرتبہ کامیابی بی جے پی کے لئے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ لوک سبھا کے 542 اراکین میں سے 80 اتر پردیش سے منتخب ہو کر آتے ہیں۔ اس لئے جو پارٹی اتر پردیش کے ریاستی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتی ہے، مرکز میں اس کی حکومت کی تشکیل کا قوی امکان ہوتا ہے کیونکہ ریاستی انتخابات کے نتائج سے لوک سبھا کے انتخابات کا متاثر ہونا ناگزیر ہے۔
اتر پردیش کے بعد جس دوسری ریاست کے حالیہ انتخابی نتائج کو ایک ''انقلاب‘‘ اور ''طوفانی تبدیلی‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے وہ (مشرقی) پنجاب ہے۔ ساڑھے تین کروڑ آبادی والی یہ ریاست‘ جس کی سرحدیں پاکستانی پنجاب سے ملتی ہیں 1960ء کے عشرے سے کانگریسی اور اکالی دل کی مخلوط حکومتوں کے تحت رہی ہے۔ ایک آدھ مرتبہ اکالی دل نے بی جے پی کے ساتھ بھی مل کر حکومت کی ہے لیکن اس دفعہ اروند کیجری وال کی ''عام آدمی پارٹی‘‘ (AAP) نے ریاست میں بعض تبصرہ نگاروں کے بقول جھاڑو ہی نہیں بلکہ ویکیوم کلینر پھیر دیا۔ 117 میں سے 92 نشستیں جیت کر ''عام آدمی پارٹی‘‘ نے ریاست کی انتخابی مہم میں نہ صرف ایک ریکارڈ قائم کیا ہے، بلکہ کیپٹن امریندر سنگھ (سابق وزیر اعلیٰ) کو پٹیالہ میں ان کی آبائی سیٹ اور کانگریس کے بڑے بڑے لیڈرز کو شکست دے کر ریاست میں خاندانی اور روایتی سیاست کو ہمیشہ کیلئے دفن کر دیا ہے۔ پنجاب میں تبدیلی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ کانگریس کے وزیر اعلیٰ چرن سنگھ چنی اپنی دونوں سیٹوں سے ہار گئے اور ایک حلقے میں انہیں شکست دینے والا ''عام آدمی پارٹی‘‘ کا امیدوار موبائل ریپئر کرنے والی ایک دکان پر نوکری کرتا ہے۔
عام آدمی پارٹی کے کامیاب ہونے والے باقی تمام امیدواروں کا تعلق بھی متوسط اور نچلے متوسط طبقے سے ہے۔ اس سے قبل سیاست پر بڑے بڑے زمینداروں اور مالدار لوگوں کی اجارہ داری تھی مگر ''عام آدمی پارٹی‘‘ کے امیدواروں نے انہیں شکست دے کر پنجاب میں ایک نئے سیاسی دور کا آغاز کر دیا ہے۔ اکالی دل کے رہنما اور پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ پرکاش سنگھ بادل اور ریاست کی وزارت اعلیٰ کیلئے کانگریس کے ممکنہ امیدوار نجوت سنگھ سدھو بھی ''عام آدمی پارٹی‘‘ کے عام امیدواروں کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔ پارٹی کے نامزد وزیر اعلیٰ بھگونت سنگھ مان بھی ایک سکول ٹیچر کے بیٹے ہیں۔ دو دفعہ اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں اور یوکرین کے صدر زیلنسی کی طرح انہیں بھی ''کامیڈین کنگ‘‘ کہا جاتا ہے، لیکن اپنی دیانتداری اور محنت کی وجہ سے لوگوں میں بہت پاپولر ہیں۔ انہوں نے روایت سے ہٹ کر اپنے عہدے کے حلف کیلئے ہندوستان کی جنگ آزادی کے مشہور ہیرو، بھگت سنگھ کے آبائی گاوں کو چنا۔ قیاس کیا جا رہا تھا کہ دہلی کے وزیر اعلیٰ اور ''عام آدمی پارٹی‘‘ کے بانی رہنما پنجاب کی وزارت اعلیٰ سنبھالیں گے‘ لیکن انہوں نے بھگونت سنگھ مان کا انتخاب کرکے پنجاب میں ایک ایسے شخص کا نام بطور وزیر اعلیٰ تجویز کیا ہے، جسے نہ صرف مطلوبہ سیاسی اور انتخابی تجربہ ہے بلکہ عوام میں بہت مقبول بھی ہے۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں