"DRA" (space) message & send to 7575

تحریک عدم اعتماد اور حکومت اپوزیشن چپقلش

قومی اسمبلی کا جمعہ کے روز ہونے والا اجلاس تحریک عدم اعتماد پر کسی کارروائی کے بغیر پیر تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا ہے۔ متحدہ اپوزیشن کی طرف سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے بعد ملک میں سیاسی حالات نے ایسا رخ اختیار کیا ہے جس کے بارے میں کسی کو وہم و گمان بھی نہ تھا۔ اپوزیشن کے اس اقدام پر وزیر اعظم اور ان کے رفقا کے بیانات سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ انہیں اپنے ارکانِ اسمبلی اور اتحادی جماعتوں کا پورا اعتماد حاصل ہے اور اس اعتماد کی بنیاد پر یقین ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنا دیں گے‘ لیکن گزشتہ دو ہفتوں کے دوران حالات نے ایسی کروٹ لی ہے کہ محسوس ہوتا ہے‘ وزیر اعظم اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کا اب قومی اسمبلی میں نہیں بلکہ سڑکوں اور گلیوں میں مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ ابتدا میں وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں کے بیانات میں تحریک کو آسانی سے شکست دینے کا دعویٰ کیا جاتا تھا‘ لیکن اب سارا زور کارکنوں کو منحرف اراکین اسمبلی کے گھیراؤ پر آمادہ کرنے پر صرف ہو رہا ہے۔ 8 مارچ کو قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ میں تحریک عدم کے باقاعدہ جمع ہونے کے بعد وزیر اعظم نے پنجاب اور کے پی کے مختلف مقامات پر پبلک جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے متحدہ اپوزیشن کو حسب معمول چوروں، لٹیروں اور ڈاکوؤں کا ٹولہ قرار دیا اور اعلان کیا کہ تحریک کی ناکامی کے بعد، وہ ان کو نہیں چھوڑیں گے۔ ان کے اس لہجے کا سب سے زیادہ اثر پی ٹی آئی کے نوجوان کارکنوں پر ہوا۔ 18 مارچ کو اسلام آباد میں سندھ ہاؤس پر مشتعل کارکنوں کا دھاوا اس کا ثبوت ہے۔
تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال کا سب سے زیادہ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ حکمرانوں کو رتی بھر احساس نہیں کہ سیاسی محاذ آرائی سے ملک کی نہ صرف معیشت متاثر ہو رہی ہے بلکہ پاکستان کا پارلیمانی‘ جمہوری اور وفاقیت پر مبنی نظام بھی شدید خطرے میں ہے۔ سندھ ہاؤس پر حملے کو دارالخلافہ میں وفاقِ پاکستان کی ایک اکائی کی پراپرٹی پر حملہ بھی قرار دیا گیا ہے‘ لیکن وزیر اعظم نے سندھ ہاؤس پر حملے اور دروازہ توڑ کر عمارت میں داخل ہونے کے واقعہ کی مذمت نہیں کی۔ اس واقعہ کے اگلے روز یعنی 19 مارچ کو وزیر اعظم نے اسے کارکنوں کا جذباتی اقدام قرار دیا‘ جو وہ اپنے لیڈر کی تقاریر اور بیانات سے متاثر ہو کر اٹھانے پر مجبور ہو گئے تھے۔ اسی بیان میں انہوں نے اپنے اس الزام کو پھر دہرایا کہ پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کو ''خریدنے ‘‘ کیلئے سندھ حکومت عوام کا پیسہ استعمال کر رہی ہے‘ حالانکہ ہارس ٹریڈنگ کی نہ صرف پی ٹی آئی کے منحرف اراکین اسمبلی نے حلفاً تردید کی ہے، بلکہ حکومت کی ایک اہم اتحادی جماعت کے سربراہ اور ملک کے سینئر سیاست دان چودھری شجاعت حسین نے بھی کہا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی تحریک عدم اعتماد ہے‘ جس میں نہ کوئی پیسے لے رہا ہے اور نہ کوئی دے رہا ہے۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی کی قیادت‘ وزیر اعظم عمران خان سے لے کر ان کے ترجمانوں تک‘ منحرف اراکین اسمبلی کو ''ضمیر فروش‘‘ کہہ کر ان پر بکنے کا الزام لگا رہے ہیں اور اس کی ساری ذمہ داری حکومت سندھ پر ڈال رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کی مرکزی حکومت کا سندھ کی موجودہ حکومت کے بارے میں موقف صرف الزامات تک ہی محدود نہیں بلکہ وزارت داخلہ کی طرف سے صوبے میں گورنر راج نافذ کرنے کی تجویز نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس تجویز پر اس لیے عمل درآمد نہ ہو سکا کہ کابینہ کے چند ارکان کی مخالفت کی وجہ سے اس تجویز پر مبنی سمری منظور نہ ہو سکی‘ لیکن تحریکِ عدم اعتماد پر حکومت اور اپوزیشن کے مابین لفظی جنگ کے تناظر میں ''سندھ ہاؤس‘‘ اور سندھ کا وزیر اعظم اور وفاقی وزرا‘ خصوصاً وزیر داخلہ کے بیانات میں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ ذکر ہوتا ہے۔ تین دن کے بعد وزیر داخلہ اب یہ کہنے پر آمادہ ہوئے ہیں کہ پارلیمانی لاجز میں بغیر اجازت پولیس کو نہیں جانا چاہیے تھا‘ اور جو کچھ سندھ ہاؤس میں ہوا، وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ سوال یہ ہے کہ ان دونوں واقعات کے دوران اسلام آباد پولیس‘ جو براہ راست وفاقی حکومت کے ماتحت ہے‘ کے رویے کا جواب دہ کون ہو گا؟ یہ واضح ہے کہ وزارت داخلہ کے رویے میں تبدیلی عدالت کی طرف سے سندھ ہاؤس پر حملے کے واقعہ کا نوٹس لینے کے بعد آئی ہے‘ کیونکہ معمول سے ہٹ کر ہفتہ (19 مارچ) کے روز عدالت عظمیٰ نے سپریم کورٹ بار کی پٹیشن کی سماعت کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ آئین اور قانون کا سب سے بڑا محافظ ادارہ ایسے واقعات کو ملک اور قوم کے لیے نقصان دہ سمجھتا ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے مابین گزشتہ ساڑھے تین برسوں سے جاری کشیدگی کے پیش نظر سندھ ہاؤس جیسے واقعات ملک کے وفاقی ڈھانچے کو مزید کمزور کر سکتے ہیں‘ جو کسی طور قابل قبول نہیں۔ سندھ کی حکومت کو مختلف ایشوز یعنی پانی کی تقسیم، گیس کی سپلائی، مالیات میں حصے اور گورنر صاحب کے رویے پر پہلے ہی وفاقی حکومت سے بہت شکایات ہیں۔ پولیس کی موجودگی میں بلوائیوں کا وفاقی دارالحکومت میں واقع صوبے کی املاک کو بلا روک ٹوک نقصان پہنچانا‘ اس کے بعد محض شخصی ضمانت پر پولیس کسٹڈی سے منٹوں میں رہا ہونا، اور وزارت داخلہ کی طرف سے صوبے میں منتخب حکومت ختم کر کے گورنر راج نافذ کرنے کی سفارت کرنا، جہاں ایک طرف وفاقی حکومت کی بوکھلاہٹ کو ظاہر کرتا ہے، وہاں صوبہ سندھ میں شدید رد عمل کے اندیشے کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اپنے ایک بیان میں اسلام آباد میں ''سندھ ہاؤس‘‘ کو سندھ کی پہچان کہہ چکے ہیں۔ مزید یہ کہا کہ ''سندھ ہاؤس‘‘ پر حملہ صوبہ سندھ پر حملے کے مترادف ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے وفاقی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر صوبے اور صوبے کی منتخب قیادت کے بارے میں اس کا یہی رویہ رہا، تو سندھ کے عوام کی طرف سے سخت رد عمل آ سکتا ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ سے آگاہ لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ مشرقی پاکستان میں مرکز گریز عناصر کو اس قسم کے رویوں سے تقویت حاصل ہوئی تھی۔ سندھ میں ایسے عناصر پہلے سے موجود ہیں، جو وفاقی حکومت کے صوبے سے روا رکھے گئے سلوک کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں۔ اس صوبے کے نوجوانوں میں بھی بے چینی اور ناراضگی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ ایک ایسی حکومت‘ جس کی طاقت کا انحصار پنجاب اور کے پی میں پارٹی کی حکومتوں پر ہے، آبادی کے لحاظ سے ملک کے دوسرے سب سے بڑے اور قدرتی اور معدنی وسائل سے مالا مال صوبے کے بارے میں ایسا رویہ قومی مفاد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ تحریک عدم اعتماد سیاست کا ایک حصہ ہے، جس کی آئین اور قانون اجازت دیتا ہے۔ میرے خیال میں نہ صرف ملک و قوم بلکہ خود پی ٹی آئی کے بہترین مفاد کا تقاضا ہے کہ حق و باطل کی لڑائی قرار دینے کے بجائے اسے سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق سختی سے آئین اور قانون کے مطابق ہینڈل کیا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں