متحدہ اپوزیشن کی طرف سے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد داخل کرنے کے بعد ملک کی سیاست پر ایک ہیجانی سی کیفیت طاری ہو گئی ہے حالانکہ دنیا میں جہاں کہیں پارلیمانی نظام رائج ہے، تحاریک عدم اعتماد پیش ہوتی رہتی ہیں۔ یہ تحاریک کامیاب ہوتی ہیں اور ناکام بھی لیکن فریقین میں محاذ آرائی اور کشیدگی کا لیول اس حد تک شاذونادر ہی جاتا ہے جتنا ان دنوں پاکستان میں ہے۔ اس لئے عوام کو فکر اس بات کی نہیں کہ تحریک عدم اعتماد کا نتیجہ کیا ہو گا بلکہ اندیشہ اس بات کا ہے کہ نتیجہ آنے کے بعد کیا ہو گا؟ کیونکہ وزیر اعظم عمران خان کہہ چکے ہیں کہ ''اپوزیشن کو معلوم نہیں کہ (تحریک کی) ناکامی کے بعد میں ان کے ساتھ کیا کروں گا‘‘ اور اگر تحریک کی کامیابی کی صورت میں وزیر اعظم کو اپنے عہدے سے الگ ہونا پڑا، تو اس صورت میں ان کا اعلان ہے کہ ''حکومت تو معلوم چیز ہے، میری جان بھی جائے تو میں ان چوروں (یعنی اپوزیشن) کو نہیں چھوڑوں گا‘‘۔ دونوں صورتوں میں لگتا ہے پاکستان ایک مسلسل اور نہ ختم ہونے والے بحران میں داخل ہو چکا ہے۔
پاکستان نے اس سے پہلے بھی کئی بحران دیکھے ہیں، مگر بحرانون کے درمیان وقفہ ہوتا تھا۔ ایک بحران کے بعد مختصر یا طویل مگر مصنوعی امن و استحکام کا دور آتا تھا کیونکہ یہ امن و استحکام ڈنڈے کے زور پر قائم کیا جاتا تھا مگر اب یہ ڈنڈا دستیاب نہیں کیونکہ اسے استعمال کرنے والے خود اسے قومی مفادات کیلئے نقصان دہ اور کاؤنٹر پروڈکٹو (counter Productive) قرار دے چکے ہیں۔ اپوزیشن اور حکومت کی طرف سے تحریک عدم اعتماد کے بعد لائحہ عمل پر بیانات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک کا اِدھر یا اُدھر فیصلہ ہونے کے باوجود فریقین میں محاذ آرائی جاری رہے گی کیونکہ دونوں کے مابین لڑائی کی بنیاد نظریاتی نہیں بلکہ انا، گروہی مفادات اور اقتدار کی ہوس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فریقین ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے رکیک ذاتی حملوں یا بے بنیاد الزامات پر اتر آئے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کی نظر میں ان سے اختلاف کرنے والا ہر سیاستدان کرپٹ، چور، ڈاکو اور لٹیرا ہے، مگر گزشتہ تین برسوں میں دو بڑی سیاسی پارٹیوں کے خلاف جاری احتساب کا عمل تمام ریاستی وسائل کو استعمال کرنے کے باوجود بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ اپوزیشن کے خلاف ایک بھی کرپشن کا کیس عدالت میں ثابت نہیں کیا جا سکا۔ کرپشن کے الزامات پر مبنی اپنے بیانیے کو پٹتا دیکھ کر وزیر اعظم نے اب ایک اور کارڈ کھیلنا شروع کر دیا ہے اور ایک خالصتاً سیاسی رسہ کشی کو حق و باطل کی جنگ قرار دیا جا رہا ہے، جو دراصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹا کر فروعی جھگڑوں کی طرف مبذول کروانے کی کوشش محسوس ہوتی ہے۔
جلسوں، جلوسوں اور دیگر مواقع پر اپوزیشن رہنماؤں کی طرف سے جاری ہونے والے بیانات میں ملک کو درپیش اصل اور بنیادی مسائل کا ذکر نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے تو ان کے حل کیلئے تجاویز پیش کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ کہاں گیا نواز شریف کا بیانیہ؟ اب مسلم لیگ (ن) کے کسی رہنما کی زبان سے اس کا ذکر سننے میں نہیں آتا۔ اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ ہماری سیاسی پارٹیاں ملک کو درپیش اصل مسائل سے آگاہ نہیں۔ وہ نہ صرف مسائل سے آگاہ ہیں، بلکہ ان کا حل بھی جانتی ہیں مگر سچ بات کہنے کی جرأت نہیں۔ انہوں نے ہر فیصلہ کن موقع پر ابن الوقتی کا مظاہر کیا ہے جسے وہ اپنے آپ کو پوتّر اور حریف کو پلید ثابت کر کے، پوشیدہ رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
ہر گزرنے والے دن کے ساتھ تحریک عدم اعتماد پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی کی ایک نئی جہت پیدا ہو رہی ہے۔ پہلے اسے اپوزیشن کی ''کرپشن‘‘ چھپانے کی ایک کوشش بیان کیا جا رہا تھا مگر 27 مارچ کے اسلام آباد کے جلسے میں وزیر اعظم نے یہ انکشاف کر کے کہ انہیں آزاد خارجہ پالیسی اپنانے پر تحریری وارننگ دی گئی ہے، اپوزیشن پر تحریک عدم اعتماد پیش کر کے غیر ملکی سازش کا آلہ کار بننے کا الزام عائد کیا ہے۔ وزیر اعظم کے اس برملا الزام نے تحریک عدم اعتماد کے بعد کی صورتحال کے بارے میں عوام کی تشویش میں مزید اضافہ کر دیا ہے اور یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ تحریک کا نتیجہ کچھ بھی نکلے، ملک‘ جس کی معیشت پہلے ہی انڈر پریشر ہے، سیاسی عدم استحکام کے ایک نئے اور طویل دور میں داخل ہونے والا ہے۔ اپنی سابقہ تقاریر کی طرح 27 مارچ کے خطاب میں بھی وزیر اعظم نے اپنے عزم کو ایک دفعہ پھر دہرایا ہے کہ حکومت تو کیا اپنی جان کی بھی پروا کئے بغیر بقول ان کے چوروں، ڈاکوؤں اور لٹیروں کو نہیںچھوڑیں گے۔
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں اپنی 155 نشستوں کے ساتھ، تحریک انصاف اپوزیشن بینچوں پر بیٹھے گی اور عمران خان صاحب لیڈر آف دی اپوزیشن ہوں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ ایک موثر اپوزیشن لیڈر کا کردار پارلیمنٹ کے اندر ادا کرتے ہیں یا باہر۔ 2013 تا 2018 قومی اسمبلی میں ان کے کردار کے حوالے سے قرین قیاس تو یہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ سے باہر سے حکومت (جو کہ ایک مخلوط حکومت ہو گی، پر دباؤ ڈالنے کو ترجیح دیں گے) کیونکہ وہ جلسوں اور جلوسوں کی سیاست کے نہ صرف عادی ہیں بلکہ اس میں کمفرٹیبل (Comfortable) ہیں۔ اس لئے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ آنے والا دور عمران خان کی قیادت میں اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ایک مسلسل محاذ آرائی کا دور ہو گا، جسے زیادہ سے زیادہ ہنگامہ خیز بنا کر عمران خان آئندہ انتخابات میں اپنے چانسز کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔
پاکستان کے موجودہ سیاسی نقشے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 2023ء میں یا تحریک عدم اعتماد کے بعد کسی بھی تاریخ کو ہونے والے انتخابات میں کوئی بھی سیاسی پارٹی اکثریت حاصل کرکے اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہو گی، بلکہ ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آئے گی اور تشکیل پانے والی حکومت ایک مخلوط حکومت ہو گی۔ ایک طرف اس حکومت کو تمام چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا اور دوسری طرف اسے شدید معاشی دباؤ کا سامنا بھی ہو گا۔ اس لیے جو بھی پارٹی اپوزیشن میں ہو گی، اسے حکومت کو آڑے ہاتھوں لینے کیلئے بہت سے مواقع میسر ہوں گے۔ اگر تحریک انصاف کو اپوزیشن کا کردار ادا کرنا پڑا تو اس کے رہنما عمران خان وہی حکمت عملی اختیار کریں گے، جو انہوں نے 2014ء کے بعد نون لیگ حکومت کے خلاف استعمال کی یعنی جلسے، جلوسوں‘ دھرنوں اور روڈ بلاک کے طریقے اختیار کرکے، حکومت کو اگر گرانے میں کامیاب نہ بھی ہوں تو وہ اسے غیر موثر بنانے کی کوشش کریں گے۔ اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوتی ہے، عمران خان کو اپنی ٹرم پوری کرنے کا موقع ملتا ہے، تب بھی ملک میں امن و سیاسی استحکام نام کی کوئی چیز نہیں ہو گی، کیونکہ اپوزیشن کے خلاف حکومت کے سخت اقدامات دیکھنے میں آئیں گے۔
پاکستان یقینی طور پر ایک دوراہے پر کھڑا ہے اور اسے اپنی معیشت ‘سیاسی نظام اور سکیورٹی کے تحفظ کیلئے نہ صرف اندرونی بلکہ بیرونی محاذوں پر بھی اردگرد کے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر اپنے نقطہ نظر‘ پالیسیوں اور پالیسی مقاصد میں ایک پیراڈائم شفٹ بروئے کار لانا ہو گی۔