حال ہی میں اسلام آباد میں 57 مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس منعقد ہوئی۔ یہ کانفرنس مسلم ممالک کے مابین تعاون کو فروغ دینے والی تنظیم او آئی سی (The Organisation of Islamic Cooperation) کے زیر اہتمام ہوئی۔ یہ اقوام متحدہ اور غیر جانبدار ممالک کی تنظیم (NAM) کے بعد عددی اعتبار سے سب سے بڑی بین الاقوامی تنظیم ہے؛ چنانچہ بین الاقوامی سیاست میں اس کا اپنی جگہ ایک کردار ہے لیکن کارکردگی کے میدان میں یہ ان توقعات پر پورا نہیں اتر سکی جو رکن ممالک نے اس سے وابستہ کئے رکھی ہیں۔ اسی لیے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو اپنے خطاب میں کہنا پڑا کہ او آئی سی کو محض قراردادوں پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس سے آگے عملی اقدامات کرنے چاہئیں‘ لیکن باقی تمام بین الاقوامی تنظیموں کی طرح او آئی سی میں بھی شمولیت رکن ممالک نے رضا کارانہ طور پر اختیار کر رکھی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ تنظیم کا رکن ہوتے ہوئے بھی ہر ملک نے اپنی انفرادی آزادی اور خود مختاری برقرار رکھی ہوئی ہے اور بین الاقوامی سیاست میں ان کی پالیسیاں قومی مفادات کے تابع ہوتی ہیں۔
او آئی سی ہو یا اقوم متحدہ‘ ''نام‘‘ یا کوئی اور بین الاقوامی تنظیم‘ سبھی ایسے اراکین ممالک پر مشتمل ہیں جنہوں نے ان میں رضا کارانہ طور پر شمولیت اختیار کی ہے۔ جب چاہیں ان سے علیحدگی اختیار کر سکتے ہیں اور ان کے فیصلے ممبر ممالک پر عمل درآمد کیلئے لازم نہیں ہوتے۔ بین الاقوامی سیاست میں ان کے موثر ہونے کا انحصار ممبر ممالک کے درمیان متعدد مسائل پر یکساں نقطہ نظر پر ہے مثلاً اقوام متحدہ اپنے قیام کے ابتدائی برسوں میں متعدد شعبوں میں مؤثر اور فعال تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کے سب سے طاقتور ادارے، سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین امریکہ، سوویت یونین، چین، برطانیہ اور فرانس کے درمیان اہم مسائل پر اختلاف نہیں تھا۔ فیصلے جلد ہو جایا کرتے تھے اور ان پر عمل درآمد بھی ہوتا تھا۔ اس ماحول میں سکیورٹی اور نوآبادیاتی نظام کے خاتمے سے متعلق کئی اہم فیصلے ہوئے۔ ایشیا‘ افریقہ میں متعدد ممالک نے نوآبادیاتی نظام سے آزادی حاصل کی۔ تخفیف اسلحہ پر کئی مفاہمانہ معاملات ہوئے کیونکہ بڑی طاقتوں کے درمیان ان امور پر اتفاق تھا‘ لیکن جونہی سوویت یونین اور امریکہ کی سرکردگی میں مغربی ممالک کے درمیان محاذ آرائی کا دور (کولڈ وار) شروع ہوا، اقوام متحدہ غیر موثر بلکہ غیر فعال ہو گئی۔ غالباً یہی کیفیت او آئی سی کی ہے۔
اس تنظیم کا قیام اگست 1968ء میں مسجد اقصیٰ سے متعلق ایک افسوسناک اور اشتعال انگیز واقعہ کی وجہ سے عمل میں آیا تھا۔ چونکہ تمام مسلم ممالک‘ جن میں عرب، افریقی اور ایشیائی ممالک بھی تھے‘ کے جذبات اور رد عمل ایک جیسا تھا‘ اس لیے بین الاقوامی سیاست میں اس کا کردار بھی نمایاں تھا۔ اسی دوران 1970ء کی دہائی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کا بھی سلسلہ شروع ہوا۔ اس کی وجہ سے بین الاقوامی مالیاتی مارکیٹ میں تیل برآمد کرنے والے ممالک‘ جو بیشتر مسلم ممالک تھے، میں او آئی سی کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا جانے لگا۔ تیسری عرب، اسرائیل جنگ اور اس کے نتیجے میں مغربی ممالک کو تیل کی فراہمی پر پابندی، عالمی مارکیٹ میں ایک بھونچال سے کم نہ تھی۔ اس کے بعد تیل اور تیل برآمد کرنے والے ممالک کی آواز اور موقف کو زیادہ سے زیادہ اہمیت دی جانے لگی۔ اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں متعدد قراردادیں، نہ صرف او آئی سی بلکہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے اسی دور میں منظور کی گئیں۔
اس کے بعد آہستہ آہستہ او آئی سی کا اثر اور فعالیت کم ہونے لگی۔ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں: او آئی سی کے بعض بااثر ممالک کے درمیان رقابت اور بین الاقوامی سیاسی حالات میں تبدیلی۔ ایران اور سعودی عرب کے مابین علاقائی مسابقت او آئی سی کے غیر موثر ہونے کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ اس رقابت کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں نہ صرف کئی مسائل پیدا ہوئے ہیں بلکہ بعض مسائل کی وجہ سے معصوم اور غیر مسلح مسلم شہریوں کا وسیع پیمانے پر جانی نقصان ہو رہا ہے۔ گزشتہ سات برس سے جاری یمن کی جنگ اس کی ایک مثال ہے۔
او آئی سی کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کا 43واں اجلاس ایک ایسے موقع پر اسلام آباد میں منعقد ہوا، جب امت مسلمہ کو بعض سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ ان میں سے بعض چیلنجز مثلاً کووڈ19 اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی مسائل، عالمی دہشت گردی، موسمیاتی تغیرات، جنگ، قحط اور قدرتی آفات سے پیدا ہونے والے انسانی بحران، مسلم دنیا اور عالمی برادری کو مشترکہ طور پر درپیش ہیں، اس لیے ان پر او آئی سی وزرائے خارجہ کے اسلا م آباد اجلاس میں اتفاق رائے کا حصول مشکل نہیں تھا‘ لیکن بعض مسائل جیسے یمن میں جنگ، کشمیر میں بھارت کے غیر قانونی اور غاصبانہ اقدامات، اسرائیل کے ساتھ تعلقات اور افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرانا، ایسے مسائل ہیں، جن پر او آئی سی کے رکن ممالک کا موقف یکساں نہیں ہے، کیونکہ ان کے انفرادی نیشنل سکیورٹی کے مفادات آڑے آجاتے ہیں مثلاً افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کو آٹھ ماہ ہونے کو ہیں مگر اسے آج تک دنیا کے کسی ملک‘ جن میں مسلم ممالک بھی شامل ہیں، نے ملک کی جائز اور قانونی حکومت تسلیم نہیں کیا۔
افغانستان میں عوام کو بھوک‘ بیماری اور بیروزگاری کی شکل میں جو مسائل درپیش ہیں، وزرائے خارجہ کانفرنس کے پلیٹ فارم سے ان پر تشویش کا اظہار تو کیا گیا‘ اور ان کے ازالے کے سلسلے میں افغانستان کیلئے ایک ٹرسٹ فنڈ کے قیام پر دستخط بھی کر دئیے گئے ہیں‘ لیکن پاکستان سمیت بہت سے ممالک کا موقف یہ ہے کہ افغان عوام کو اس وقت درپیش مشکلات کا سبب عالمی برادری کی طرف سے طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرنا ہے۔ ایک خالصتاً انسانی مسئلہ عالمی سیاسی مصلحتوںکا شکار ہوگیا ہے اور بدقسمتی سے مسلم ملکوں کیلئے بھی ان سے دامن چھڑانا مشکل ہے۔ یہی صورتحال کشمیر میں بھارت کے یکطرفہ اقدام کی وجہ سے پیدا ہو چکی ہے۔ پاکستان اس اقدام کی سختی سے مذمت کا خواہاں ہے اور اس کی کوشش تھی کہ وزرائے خارجہ کانفرنس کی طرف سے بھارت کو ایک سخت پیغام جائے کہ کشمیر میں جاری بھارت کے اقدامات جن میں اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش بھی شامل ہے، ملت اسلامیہ کیلئے قابل قبول نہیں ہو گی۔ کشمیر پر قرارداد میں اگرچہ کانفرنس نے کشمیریوں کے حق خود اختیاری اور مسئلے کو اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کی روشنی میں حل کرنے پر زور دیا ہے مگر 5 اگست کے اقدام کی شدید مذمت اور اسے واپس لینے کے مطالبے سے احتراز کیا گیا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ او آئی سی کے بعض رکن ممالک نے بھارت کے ساتھ قریبی اور گہرے تجارتی اور معاشی تعلقات استوار کر رکھے ہیں۔ اس سے ناگزیر طور پر نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ بدلتے ہوئے عالمی سیاسی حالات‘ جن میں ہر ملک اپنے تجارتی اور معاشی مفادات کوترجیح دیتا ہے، مسلم ملکوں کو درپیش سیاسی مسائل او آئی سی کی کارکردگی پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ پاکستان اورملتِ اسلامیہ کے دیگر ممالک جو او آئی سی کو زیادہ فعال اور موثر دیکھنا چاہتے ہیں، کیلئے لازم ہے کہ وہ تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی حالات اور ان کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے او آئی سی کی کارکردگی کو پرکھنا شروع کریں۔ او آئی سی کا سابقہ ریکارڈ ہمارے سامنے ہے، اب تک یہ تنظیم ایک بھی اہم مسئلہ حل کرنے میںکامیاب نہیں ہوئی۔ سوچنا ہو گا کہ مستقبل میں اس کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔