بحر ہند کے عین وسط میں اور بھارت کے جنوبی حصے سے صرف 55 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سری لنکا دنیا میں اپنے خوبصورت سیاحتی مقامات کی وجہ سے مشہور ہے۔ ان مقامات‘ خاص طور پر ساحل سمندر کی سیر اور تفریح کیلئے آنے والے غیر ملکی سیاحوں سے حاصل ہونے والی آمدنی ملک کی معیشت میں کلیدی کردار ادا کرتی رہی ہے۔ کووڈ19 سے جن ملکوں کی معیشت سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے ان میں سری لنکا بھی شامل ہے کیونکہ اس کی معیشت کا انحصار سیاحت سے حاصل ہونے والی آمدنی پر ہے‘ لیکن گزشتہ چند ہفتوں سے جاری ہنگاموں، احتجاجی مظاہروں اور ہڑتالوں کی پشت پر صرف معاشی محرکات کارفرما نہیں، بلکہ بیشتر مبصرین کی نظر میں سری لنکا میں موجودہ بحران کا سبب حکومت کی غلط پالیسیاں اور عاقبت نااندیشانہ فیصلے بھی ہیں۔
اس وقت معاشی محاذ پر صورتحال یہ ہے کہ ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہو چکے ہیں اور سر پہ بیرونی قرضوں کا بھاری بوجھ ہے۔ ان کی ادائیگی کیلئے سری لنکا کی حکومت نے بھارت اور چین سے مدد کی درخواست کی ہے لیکن تیل اور خوراک کی اشیا کی درآمد کیلئے زرمبادلہ نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ملک میں پٹرولیم، ڈیزل اور کھانے پینے کی اشیا کی سخت قلت پیدا ہو گئی ہے۔ چند سال پیشتر سری لنکا کی زراعت مقامی لوگوں کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کی پوزیشن میں تھی مگر کچھ عرصہ پہلے حکومت نے نتائج کا اندازہ کئے بغیر فصلوں کی کاشت میں کیمیائی کھاد کے استعمال پر پابندی لگا دی، مقصد آرگینک (Organic) فوڈ حاصل کرنا تھا‘ لیکن برس ہا برس سے کیمیائی کھاد کی عادی فصلوں کی پیداوار یک دم گر گئی اور اس کے نتیجے میں کھانے پینے کی اشیا مثلاً دالوں، چاول، گندم کی سخت قلت پیدا ہو گئی۔ اس قلت کو دالیں، چاول اور گندم باہر سے درآمد کرکے پورا کیا جا سکتا تھا، مگر اس کیلئے غیر ملکی کرنسی نہیں تھی‘ اس لیے مارکیٹ سے یہ اشیا غائب ہو گئیں اور اگر کہیں دستیاب ہیں تو لوگوں کو بہت زیادہ قیمت ادا کرکے یہ اشیا خریدنا پڑتی ہیں۔
سری لنکا کی معیشت کا اس وقت یہ حال ہے کہ مہنگائی کی سطح 30.1 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ سری لنکا کی پارلیمنٹ میں اپوزیشن اور خود حکمران اتحاد سے تعلق رکھنے والے ارکان، اس تمام صورتحال کی ذمہ داری، وزیر اعظم مہندا راجا پاکسا پر ڈالتے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ مہندا راجا پاکسا کی آمرانہ سوچ اور خود سری نے ملک کو اس ہولناک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ مہندا راجا پاکسا اس سے قبل دو دفعہ سری لنکا کے صدر (2015-2005) رہ چکے ہیں۔ ان کے دور صدارت کا سب سے اہم واقعہ 2009ء میں تامل باغیوں کی 26 سالہ بغاوت کا خاتمہ تھا۔ اس بغاوت میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ مہندا راجا پاکسا نے ایل ٹی ٹی کے باغیوں کے خلاف ایک بڑی فوجی کارروائی کرکے اس کے سرغنہ پربھارکر کو اس کے اہل خانہ سمیت مئی 2009ء میں قتل کر دیا تھا۔ یوں ایک طویل خانہ جنگی اپنے انجام کو پہنچی لیکن اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی علمبردار دیگر تنظیموں نے مہندا راجا پاکسا کی حکومت، خصوصاً فوج پر جنگی جرائم کے ارتکاب کا الزام عائد کیا تھا اور اس کی وجہ سے سری لنکا کو کچھ پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا مگر مہندا راجا پاکسا کو ملک کی اکثریتی اور بدھ مت کو ماننے والی آبادی میں ایک ہیرو کی حیثیت حاصل ہو گئی اور ان کے دور میں بین الاقوامی رائے عامہ کی پروا کئے بغیر تامل نسل سے تعلق رکھنے والے باشندوں کے ساتھ امتیازی سلوک جاری رکھا گیا۔
تامل بغاوت پر قابو پانے سے مہندا راجا پاکسا کو جو ہردلعزیزی حاصل ہوئی، اسی کی بنا پر انہوں نے صدارتی انتخابات میں دوسری مدت (2015-2010) میں آسانی سے کامیابی حاصل کر لی‘ لیکن 2015 کے صدارتی انتخابات میں سری سینا متھری پالی نے کامیابی حاصل کر لی کیونکہ مہندا راجا پاکسا پر اقربا پروری، کرپشن اور آمرانہ رجحانات کے سنگین الزام عائد کئے گئے تھے۔ 2015ء کے صدارتی انتخابات میں شکست نے تاہم راجا پاکسا فیملی کے سیاسی عزائم کو ختم نہیں کیا بلکہ صدر سری سینا کی کمزور اور مخلوط حکومت کی غلطیوں اور خامیوں سے فائدہ اٹھا کر 2019ء کے انتخابات میں مہندا راجا پاکسا نے اپنے بھائی گوٹابایا کو صدر منتخب کروا لیا۔ حلف اٹھانے کے بعد صدر گوٹابایا راجا پاکسا نے مہندا راج پاکسا کو وزیر اعظم مقرر کر لیا‘ اور ایک بھائی باسل راجا پاکسا کو پارلیمنٹ کا رکن بنوا دیا۔ جنوبی ایشیا کے باقی ملکوں مثلاً بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال میں بھی خاندانی راج نیتی کی مثالیں موجود ہیں، مگر 2015ء کے بعد سری لنکا میں راجا پاکسا خاندان نے اہم ریاستی عہدوں پر اپنے قریبی عزیزوں کو مقرر کرکے خاندانی راج نیتی کی جو مثال قائم کی اس کا جواب نہیں۔
اقتدار پر اپنے قبضے کو مستحکم کرنے کیلئے راجا پاکسا خاندان نے نہ صرف ریاست کے تمام اختیارات کو صدر کے ہاتھوں میں مرتکز کر دیا بلکہ معاشی فیصلوں میں لوگوں کو خوش اور مطمئن رکھنے کی کوشش میں ایسے اقدامات کئے جن سے معیشت کو نقصان پہنچا، مثلاً پاکستان کی طرح سری لنکا نے بھی آئی ایم ایف سے اقتصادی امداد کا پیکیج حاصل کر رکھا ہے۔ اس پیکیج کی شرائط کے تحت پاکستان کی طرح سری لنکا کو بھی چند اقدامات کرنے لازمی ہیں۔ ان میں ٹیکسوں سے زیادہ سے زیادہ آمدن کا حصول بھی شامل ہے‘ لیکن صدر گوٹابایا کی حکومت نے ٹیکسوں میں اضافہ کرنے کے بجائے عوام کو جی ایس ٹی اور انکم ٹیکس میں چھوٹ دے دی۔ اس سے شارٹ ٹرم معنوں میں وقتی طور پر لوگوں کو تو خوش کر لیا گیا مگر لانگ ٹرم تناظر میں معیشت کی بنیاد کمزور ہو گئی۔ ملک میں اقتصادی بحران انہی پالیسی پر عمل کرنے کا نتیجہ ہے۔
اقتصادی بحران اتنا گمبھیر ہوتا جا رہا ہے کہ راجا پاکسا خاندان کی حکومت خطرے میں نظر آ رہی ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق صدر گوٹابایا راجا پاکسا کے 26 وزرا مستعفی ہو چکے ہیں‘ جن میں وزیر خزانہ بھی شامل ہے۔ پارلیمنٹ میں حکومت اپنی اکثریت کھو چکی ہے۔ صدر نے حالات پر قابو پانے کیلئے چند روز قبل ہنگامی حالات کا اعلان کیا تھا، مگر احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ اس پر حکومت کو ہنگامی حالات کا اعلان واپس لینا پڑا۔
سری لنکا بحر ہند میں اپنی جغرافیائی لوکیشن کی وجہ سے علاقائی سیاسی اور معاشی تناظر میں خصوصیت اہمیت کا حامل ہے۔ تجارت اور علاقائی تعاون کو فروغ دینے کیلئے چین نے بیلٹ اینڈ روڈ کا جو منصوبہ شروع کر رکھا ہے، سری لنکا اس میں شامل ہے۔ ملک میں شاہراہوں، ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں کی تعمیر میں چین کی شمولیت سے سری لنکا بحر ہند اور جنوبی ایشیا میں رقابت کا مرکز ہے۔ مزید یہ کہ راجا پاکسا خاندان کی موجودہ حکومت چین نواز سمجھی جاتی ہے اور اس کے برسر اقتدار آنے کے بعد سری لنکا میں چین کے اثرورسوخ میں جو اضافہ ہوا ہے، بھارت نے اس پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے؛ تاہم جغرافیائی طور پر سری لنکا اور بھارت ایک دوسرے کے اتنے قریب ہیں کہ بھارت سری لنکا میں جاری انارکی کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکتا۔ اس کے تدارک کیلئے بھارتی حکومت نے سری لنکا کی حکومت کو مالی امداد دی ہے، مگر حالات سدھرنے کا انحصار کافی حد تک اس بات پر ہے کہ عوامی حمایت سے محروم راجا پاکسا اپنے مستقبل کا کیا فیصلہ کرتے ہیں۔