12 فروری 2022ء کو جب لاہور میں پی ڈی ایم کے ایک اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمن نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ اتحاد میں شامل تمام سیاسی جماعتوں نے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے تو بہت کم لوگوں کو یقین تھا کہ اگلے دو ماہ سے بھی کم عرصے میں یہ تحریک کامیابی سے ہمکنار ہو جائے گی۔ راقم الحروف خود ان لوگوں میں شامل تھا جو یہ سمجھتے تھے کہ اپوزیشن کا یہ فیصلہ دانشمندانہ نہیں ہے کیونکہ اس کی کامیابی کے امکانات کم نظر آ رہے تھے اور یہ بھی کہ اگر یہ ناکام ہوئی، جس کے امکانات زیادہ تھے، تو عمران خان پہلے سے زیادہ مضبوط بن کر ابھریں گے اور اپوزیشن پر کاری ضرب لگائیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ مولانا کے بیان کے بعد سابق وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اپوزیشن کو چیلنج کیا کہ اگر ہمت ہے تو تحریک عدم اعتماد لا کر دکھاؤ۔ سابق وزیر اعظم عمران خان جلسوں میں کہتے رہے کہ میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا ہے، کیونکہ میں ایک عرصے سے اس کا خواہشمند تھا۔ تحریک عدم اعتماد پر سابق حکومت کے پُر اعتماد رد عمل کی وجہ صاف نظر آتی تھی کہ اسے کسی طرف سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ اتحادی پارٹیاں پوری طرح ساتھ تھیں اور جہاں تک اپوزیشن کا تعلق تھا، لانگ مارچ کی ناکامی اس کی کمزوری کو پوری طرح عیاں کر رہی تھی۔ عام تاثر یہ تھا کہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا بہت کم امکان ہے کیونکہ اس کو ناکام بنانے کے لیے اپوزیشن کے مقابلے میں حکومت کے پاس وسائل بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر 1989ء میں بے نظیر بھٹو جیسی کمزور اور ناتجربہ کار حکومت تحریکِ عدم اعتماد کی مشترکہ کوشش کو ناکام بنا سکتی تھی تو سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو ایک ایسی اپوزیشن‘ جو آپس ہی میں دست و گریباں تھی‘ کیسے اقتدار سے باہر کر سکتی تھی‘ لیکن ہم جیسے کوتاہ نظر تجزیہ کار‘ جو صرف زمینی حقائق کو ادھر ادھر، اوپر نیچے کر کے نتائج اخذ کرنے کے عادی ہیں، کو معلوم نہیں تھا کہ عمران خان کی حکومت کے مستقبل کا فیصلہ آسمانوں میں ہو چکا ہے اور یہ کچھ ہی دیر کی بات ہے کہ اس کا بلیو پرنٹ زمین پر آنے والا ہے۔
اس عمل کو تیز کرنے میں جہاں سابق حکومت کی ضرورت سے زیادہ پُر اعتمادی بلکہ بے اعتقادی کا دخل ہے، وہاں اپوزیشن کی یکسوئی اور درست حکمت عملی کا بھی بہت اہم کردار ہے۔ اپوزیشن نے حکومت کی کمزوریوں کا درست اندازہ لگاتے ہوئے دو طرفہ حکمت عملی پر عمل کیا۔ ایک طرف انہوں نے حکومت کی اتحادی جماعتوں مثلاً مسلم لیگ (ق) اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم پی) کی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا اور دوسری طرف پاکستان تحرک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرفین سے رابطوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اپوزیشن کی یہ سرگرمیاں کسی سے خفیہ نہیں تھیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت گجرات کے چودھریوں اور ایم کیو ایم کو اپنا ہمنوا بنانے میں کھلم کھلا مصروف تھی۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں تب قائد حزب اختلاف خود گجرات کے چودھریوں کی لاہور رہائش گاہ پر مسلم لیگ (ق) کی قیادت سے ملنے گئے اور سندھ میں پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کے تمام مطالبات کو تسلیم کرنے کی پیشکش کر کے اسے اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ اس کے مقابلے میں حکومت اسی زعم میں مبتلا رہی کہ اس کی دو بڑی اتحادی یعنی پنجاب میں مسلم لیگ (ق) اور کراچی میں ایم کیو ایم پی کے پی ٹی آئی حکومت کا ساتھ چھوڑنے کا کوئی امکان نہیں۔
سابق حکومت کے اس یقین کی بنیاد ان دونوں پارٹیوں (پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی) کے عرصے سے چلے آنے والے باہمی مخاصمانہ تعلقات تھے۔ اسی وجہ سے عمران خان کی حکومت نے ان دونوں پارٹیوں کی وفاداریوں کو تبدیل کرنے کی کوششوں کے کسی موثر توڑ کا انتظام نہ کیا۔ دوسری طرف اپوزیشن نے پی ٹی آئی کے منحرفین پر فوکس کر کے ان کی حمایت کو یقینی بنا لیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت کی اتحادی پارٹیاں‘ جو اس سے پہلے حکومت کے ساتھ مکمل یکجہتی کا مظاہرہ کر رہی تھیں، اپنے موقف پر نظر ثانی کرنے پر آمادہ ہو گئیں، کیونکہ ان کے سامنے پی ٹی آئی اندر سے کھوکھلی ہو کر ڈھیر ہو رہی تھی۔ خود پی ٹی آئی کے منحرفین کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور پنجاب میں پارٹی کے دو گروپ یعنی جہانگیر ترین گروپ اور علیم گروپ کی جانب سے حکومت کا ساتھ چھوڑنے کے عندیے ملنے لگے۔ اتحادی پارٹیوں‘ جن کی حمایت سے سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل تھی، نے بھی اپوزیشن کا ساتھ دینے کے ارادے کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔
آخری وقت پر مسلم لیگ (ق) نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مفاہمت ہو جانے کے باوجود حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا‘ مگر اس کے فوراً بعد پی پی پی اور ایم کیو ایم پی کے درمیان سمجھوتے پر دستخط نے اپوزیشن کا پلڑا بھاری کر دیا۔ مسلم لیگ (ق) کے حکومت کے ساتھ رہنے کے فیصلے کے باوجود نمبر گیم میں اپوزیشن کو حکومت پر برتری حاصل تھی، کیونکہ کراچی میں ایم کیو ایم اور بلوچستان میں ''بلوچستان عوامی پارٹی‘‘ (BAP) کے 4 اراکین قومی اسمبلی کو ملا کر اپوزیشن تحریک عدم اعتماد میں کامیابی کیلئے مطلوبہ تعداد حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکی تھی۔ اگرچہ ایم کیو ایم اور بلوچستان کے گیارہ اراکین اسمبلی کی حمایت نے فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے، مگر میرے خیال میں تحریک عدم اعتماد کو فیصلہ کن مرحلے تک لے جانے میں پی ٹی آئی کے اندر سے بغاوت نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اگر پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی کی ایک بڑی تعداد اپنی مرکزی قیادت کے خلاف بغاوت کر کے، اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اعلان نہ کرتی تو تحریک عدم اعتماد کا جہاز ٹیک آف نہیں کر سکتا تھا۔ اسی ایک ایونٹ نے اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کو تحریک پیش کرنے پر آمادہ کیا۔ پی ٹی آئی کی اندر سے ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے ہی اتحادی پارٹیوں نے اپنی وفاداریوں کو بدلنے کے بارے میں سوچنا شروع کیا تھا۔ یہ سلسلہ بالآخر ایم کیو ایم پی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے گیارہ ووٹ اپوزیشن کو حاصل ہونے پر منتج ہوا۔ پی ٹی آئی کی قیادت اور چیئرمین عمران خان نے آخری لمحوں میں اتحادیوں اور منحرفین کو منانے کی کوشش کی، لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ اپوزیشن نے حکومت کو شکست سے بچنے کے لیے کوئی راستہ نہیں چھوڑا تھا۔ اس نے ذہانت اور رازداری کو ایک ساتھ استعمال کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا۔ آرٹیکل 63 کے تحت کارروائی اور سوشل بائیکاٹ کی دھمکیوں کے باوجود قیادت پارٹی منحرفین کو منانے میں کامیاب نہ ہو سکی اور نہ اتحادیوں کو ساتھ رکھ سکی۔ اس لیے بیشتر مبصرین کی رائے میں سابق وزیر اعظم عمران خان کو تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن نہیں بلکہ خود پی ٹی آئی کے ہاتھوں شکست ہوئی ہے۔