پاکستان، بھارت اور ان کے دیگر چھوٹے ہمسایہ ممالک پر مشتمل جنوبی ایشیا کے خطے کی ثقافت اور تہذیب پر جتنا اثر مغربی ایشیا یعنی ایران، سعودی عرب، خلیج فارس اور مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک نے چھوڑا ہے شاید ہی کسی اور طرف سے اس قسم کے اثرات آئے ہوں۔ اس کی بڑی وجہ جنوبی ایشیا کا مغربی ایشیا اور خلیج فارس کے ساتھ جغرافیائی اتصال ہے۔ جنوبی ایشیا کے شمال میں قدیم چین کی تہذیب واقع تھی‘ لیکن ہمالیہ کی بلند و بالا اور سال کے ہر موسم میں برف سے ڈھکے رہنے والی چوٹیوں اور نا قابل گزر پہاڑی دروں کے باعث ہندو تہذیب سے رابطہ بہت محدود رہا ہے۔ اگرچہ آج سے تقریباً دو ہزار سال قبل دو چینی سیاحوں اور دانشوروں کی وسطی ایشیا کے راستے ہندوستان آمد کے بارے میں معلومات دستیاب ہیں‘ مگر تجارت، نقل مکانی اور ثقافت کے شعبوں میں جتنے گہرے جنوبی ایشیا کے روابط موجودہ مشرق وسطیٰ کے ساتھ رہے ہیں، اتنے کسی اور خطے کے ساتھ نہیں رہے۔
اگرچہ پندرہویں صدی عیسوی میں مغربی نوآبادیاتی تسلط کے تحت جنوبی ایشیا کی قسمت کو سمندر کے راستے یورپ سے نتھی کر دیا گیا تھا اور قدیم شاہراہ ریشم کے ذریعے مغربی ایشیا کے ساتھ اس کے روابط تقریباً منقطع کر دئیے گئے تھے، اس کے باوجود بہت سی وجوہات کی بنا پر مشرق وسطیٰ جنوبی ایشیا کے لیے اہم رہا ہے۔ ان وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ کروڑوں مسلمانوں کی موجودگی ہے‘ جن کے پاؤں اگرچہ جنوبی ایشیا کی مٹی میں دھنسے ہوئے ہیں مگر نظریں مغرب کی جانب ایران، عراق، سعودی عرب اور فلسطین کی طرف لگی ہوئی ہیں۔
بیسویں صدی کے اوائل میں ''تحریک خلافت‘‘ اور دوسری جنگ عظیم کے بعد مسئلہ فلسطین پر ہندوستان کے مسلمانوں کی ہر دلعزیز سیاسی جماعت مسلم لیگ کی طرف سے مختلف بیانات اور قراردادوں کی صورت میں تشویش کے اظہار کو اس ضمن میں بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ تیل کی درآمد اور ترسیلاتِ زر نے جنوبی ایشیا کی معیشت کو مشرق وسطیٰ سے اور بھی مضبوطی سے جوڑ دیا ہے۔ اس لیے مشرق وسطیٰ سے کسی بھی اہم واقعے یا حالات کی تبدیلی کی خبر جنوبی ایشیا خصوصاً پاکستان کی حکومتوں کے لیے خاص دلچسپی اور اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔
پاکستان کی جنوب مغربی سرحدوں سے ملحقہ اس خطے کی طرف سے پاکستان کے لیے خوش آمدید تازہ ترین خبر یہ ہے کہ گزشتہ ایک برس سے عراقی حکومت کے توسط سے ایران اور سعودی عرب کے مابین مخاصمت کم کر کے کشیدگی سے پاک، بلکہ خلیج فارس اور مشرقِ وسطیٰ کے باقی علاقوں میں قیام امن اور ترقی کے حصول کے لیے دو طرفہ تعاون پر مبنی تعلقات قائم کرنے کی جو کوششیں جاری تھیں، ان میں اہم اور مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔
ایران اور سعودی عرب کے مابین اس بات چیت کا پانچواں راؤنڈ گزشتہ روز یعنی 26 اپریل کو بغداد میں منعقد ہوا تھا۔ ایرانی ذرائع کے مطابق مذاکرات کے پانچویں راؤنڈ میں دونوں ملکوں کے سینئر افسران نے شرکت کی اور باہمی اختلافات کو دور کرنے کے لیے سنجیدگی سے بات چیت ہوئی۔ دونوں ملکوں نے بات چیت جاری رکھنے کا بھی فیصلہ کیا ہے اور امید ہے کہ اگلے راؤنڈ میں ایران اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ شرکت کریں گے۔ اگر ایران اور سعودی عرب کے مابین مذاکرات کا آئندہ راؤنڈ وزرائے خارجہ کی سطح پر ہوتا ہے تو مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس کے خطے کے علاوہ ارد گرد کے خطوں کے ممالک کے لیے بھی یہ بہت اہم خبر ہو گی کیونکہ اس سے مشرق وسطیٰ میں قیام امن‘ یمن میں جنگ بندی اور شام میں ایران، سعودی عرب اختلافات کے خاتمے کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے۔
ایران اور سعودی عرب مشرق وسطیٰ کے دو اہم ممالک ہیں۔ ایک تو یہ پٹرولیم برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم (اوپیک) کے دو سب سے زیادہ خام تیل پیدا کرنے والے ممالک ہیں۔ دوسرے مسلمانوں کے دو اہم فرقوں میں منقسم لوگوں کے لیے بھی بالترتیب سعودی عرب اور ایران خصوصی اہمیت اور اثر و رسوخ کے حامل ہیں‘ اس لیے ایران اور سعودی عرب کے تعلقات پوری ملت اسلامیہ کو متاثر کرتے ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ خبر‘ جو خدا کرے آگے چل کر دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ مصالحت پر منتج ہو، اس لیے اہم ہے کہ اسلام آباد، تہران اور ریاض دونوں سے اچھے تعلقات چاہتا ہے اور اب جبکہ ایران اور امریکہ کے مابین ایٹمی مسئلے پر مصالحت کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں، ایران اور سعودی عرب کے درمیان مصالحت سے پاکستان کی مشکل آسان ہو جائے گی، کیونکہ ایران کے خلاف امریکہ کی اقتصادی پابندیوں کے اٹھائے جانے کے بعد پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت اور معاشی تعاون، جس میں ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل بھی شامل ہے، میں یک دم اضافہ ہو جائے گا۔ اس طرح یمن کے مسئلے پر سعودی عرب کی پاکستان سے ناراضی بھی دور ہو جائے گی۔
ایران اور سعودی عرب کی سرد مہری‘ جو گزشتہ چھ سال سے جاری تھی، کی برف پگھلنے کا آغاز خطے میں دو اہم واقعات کا نتیجہ ہے۔ ایک‘ گزشتہ برس اگست میں افغانستان میں طالبان کا کابل پر دوبارہ قبضہ اور اس سے پہلے جنوری میں ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر جو بائیڈن کی ایڈمنسٹریشن کا اقتدار سنبھالنا۔ جو بائیڈن کے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ نے 2015ء کے ایران، امریکہ کے ایٹمی معاہدے کو یک طرفہ طور پر منسوخ کر کے ایران کے خلاف سخت پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا‘ مگر جو بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اس معاہدے کو دوبارہ بحال کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کی بحالی میں باقی ماندہ رکاوٹ یعنی اسرائیل کی مخالفت بھی نئی حکومت کی پالیسی کی وجہ سے دور ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ اس طرح ایٹمی ڈیل (2015ء) کی بحالی کی امید کے ساتھ ہی ایران کے خلاف امریکہ کی اقتصادی پابندیوں کے خاتمہ کے امکانات پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
مستقبل میں ان تبدیلیوں کے ممکنہ نتائج کو بھانپتے ہوئے مشرق وسطیٰ کے ہر ملک نے‘ جن میں ترکی، ایران، شام، عراق، اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور بحرین بھی شامل ہیں‘ اپنی علاقائی اور عالمی پالیسیوں میں تبدیلیوں کا عمل شروع کر دیا ہے اور اس عمل کے پیچھے ان ممالک کی یہ سوچ کار فرما ہے کہ افغانستان سے امریکہ نے جس طرح عجلت میں اور بے ہنگم طریقے سے اپنی فورسز کو نکالا ہے اور جس طرح وہ ایران کے ساتھ 2015ء کا معاہدہ بحال کرنے پر آمادہ ہے‘ اس سے یہ بات صاف ظاہر ہو جاتی ہے کہ علاقائی اور قومی سلامتی کے لیے امریکہ پر انحصار نہیں کیا جا سکتا اورکچھ نہ کچھ اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کی بھی ضرورت ہے۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان اگرچہ تمام اختلافات کا خاتمہ اتنی جلدی ممکن نہیں؛ تاہم مندرجہ بالا تبدیلیوں کے تحت دونوں جانب سے یکساں سوچ کا اظہار کیا جا رہا ہے جو نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ جنوبی ایشیا کے لیے بھی خوش آئند ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے ان دونوں ممالک کے مابین مصالحت نہ صرف عرب خطے بلکہ جنوبی ایشیا کے لیے بھی تعمیر و ترقی کے نئے در وا کرے گا‘ جس سے ان خطوں کے عوام کی قسمت سنور جائے گی۔