اگر یہ کہا جائے کہ دنیا سوشل میڈیا کے طوفان میں گھر چکی ہے تو مبالغہ نہ ہو گا۔ پاکستان اس سے باہر نہیں۔ اس کا ثبوت سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور ان کی اقتدار سے علیحدگی کے بعد ٹویٹر میسجز کی بھرمار ہے۔ پاکستانی میڈیا میں چھپنے والی اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم کے عہدے سے برطرفی کے بعد اردو میں ''امپورٹڈ حکومت نا منظور‘‘ کے نام سے صرف ایک ہیش ٹیگ سے مختصر وقت میں دس کروڑ 70 لاکھ ٹویٹ کئے گئے‘ جبکہ فوج کے خلاف جنریٹ ہونے والے ٹویٹس کی تعداد 60 ہزار تھی۔ ان سے ملتے جلتے دیگر ٹویٹس کی تعداد چار لاکھ دس ہزار ہے‘ جو پہلے تین روز میں جنریٹ کئے گئے۔
سوشل میڈیا کے چینلز کو اپنے سیاسی بیانیے کی تشہیر کے لیے استعمال کرنے میں پی ٹی آئی کو باقی سیاسی جماعتوں خصوصاً اپنی قریب ترین سیاسی حریف پاکستان مسلم لیگ (ن) پر واضح برتری حاصل ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے سیاست اور انتخابات میں سوشل میڈیا کی اہمیت کو باقی تمام سیاسی پارٹیوں کے مقابلے میں بہت پہلے تسلیم کر لیا تھا۔ فعال سیاست میں قدم رکھتے ہی پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا ٹیم کو منظم اور ٹرینڈ کرنا شروع کر دیا تھا۔ پی ٹی آئی نے ووٹرز کی زیادہ سے زیاددہ تعداد کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے سب سے پہلے 2008ء کے انتخابات میں سوشل میڈیا کا استعمال کیا تھا اور اس تجربے سے سبق سیکھتے ہوئے 2013ء کے انتخابات میں اس کی سپیشل میڈیا ٹیم نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا‘ لیکن اصل کارکردگی 2018ء کے انتخابات میں دیکھنے میں آئی‘ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی سب سے بڑی حریف پارٹی مسلم لیگ (ن) زیر عتاب تھی۔ نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے علیحدہ کر کے جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ ساتھ ان کی بیٹی مریم نواز بھی نیب کی حراست میں تھیں۔ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو بھی گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ جیل میں بند کئے جانے والے مسلم لیگ (ن) کے دیگر اہم قائدین میں شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، سعد رفیق اور حمزہ شہباز (پنجاب اسمبلی میں لیڈر آف دی اپوزیشن) شامل تھے۔ اعلیٰ قیادت کے جیل میں رہتے ہوئے اور احتسابی عمل کا سامنا کرتے ہوئے، مسلم لیگ (ن) کی حالت ایسی ہی تھی جیسے ایک پہلوان کے ہاتھ باندھ کر اسے اکھاڑے میں ایک طاقت ور پہلوان سے مقابلہ کرنے کا کہا جائے۔ اس کے علاوہ کچھ ٹی وی چینلز بھی پی ٹی آئی کے حق میں ٹاک شوز اور توڑ مروڑ کے خبریں نشر کر رہے تھے۔ اس ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں پی ٹی آئی حکومت نے پارٹی کے سوشل میڈیا گروپ کو منظم اور مزید مضبوط بنانے پر بھرپور توجہ دی جس کا وہ اب اقتدار سے باہر ہو کر پھل کھا رہی ہے۔
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اپنے اولین جلسوں میں سابق وزیر اعظم نے واضح اشارے دئیے تھے کہ نئی حکومت کے خلاف اپنے بیانیے کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے وہ سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ انحصار کریں گے‘ اور بقول ان کے اس میں ان کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں‘ کیونکہ یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔
دنیا بھر میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی سب سے بڑی تعداد چین میں ہے اور اس کے بعد بھارت اور جنوبی ایشیا میں بھارت کے بعد پاکستان کا نمبر آتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد ملک کی کل آبادی کا تقریباً 54 فیصد ہے (2021ء کے اعداد و شمار کے مطابق)۔ اسی طرح جنوری 2021ء میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد چار کروڑ ساٹھ لاکھ تھی جو اب بڑھ کر چھ کروڑ ہو چکی ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں سب سے زیادہ تعداد فیس بک استعمال کرنے والوں کی ہے۔ اس کے بعد یو ٹیوب، ٹویٹر اور دوسرے چینلز کا نمبر آتا ہے۔
چونکہ پاکستان میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے‘ اس لیے ہر سیاسی پارٹی عوام میں اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے یہ میڈیا استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پارٹی کی موبائل رکنیت کی مہم کا افتتاح کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے حال ہی میں کہا کہ ان کی پارٹی جدید ٹیکنالوجی سے بھرپور استفادہ کرے گی۔ اس میں یقینا انتخابات میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کا ٹارگٹ بھی شامل ہے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سوشل میڈیا ووٹرز پر فیصلہ کن حد تک اثر انداز ہو سکتا ہے؟ اس سلسلے میں نئی دہلی کے ایک ادارے سنٹر فار سٹڈیز آف ڈویلپنگ سوسائٹیز (CSDC) نے ایک ریسرچ کے ذریعہ یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ ضروری نہیں۔ اس ریسرچ میں سنٹر نے 2014ء اور 2019ء کے لوک سبھا کے انتخابات میں کانگریس اور بی جے پی کے حق میں پڑنے والے ووٹوں کی شرح کا موازنہ پیش کیا تھا۔
عام طور پر کہا گیا کہ 2019ء کے انتخابات میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت سے کامیابی کے پیچھے سوشل میڈیا کا ہاتھ تھا‘ مگر سنٹر کی ریسرچ نے ثابت کیا کہ 2014ء کے انتخابات میں کامیابی کے مقابلے میں بی جے پی کے حق میں ڈالے گئے ووٹوں کی شرح 2019ء میں کم تھی‘ یعنی 2014ء کے انتخابات میں بی جے پی کی کانگریس پر لیڈ کا تناسب 2019ء کے مقابلے میں زیادہ تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ باقاعدگی سے سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں، انہوں نے بی جے پی کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر اسے ضرور ووٹ دیا ہو گا‘ لیکن ایسے ووٹرز کی تعداد کل ووٹر کی صرف 10 فیصد ہے۔ باقی 80 فیصد سوشل میڈیا کبھی کبھی یا بالکل استعمال کرتے ہیں اوراپنے ووٹ کا دیگر وجوہات کی بنا پر استعمال کرتے ہیں۔ جن ووٹرز کا سوشل میڈیا کے ساتھ ایکسپوژر ہائی ہے، وہ کل الیکٹوریٹ کا صرف دسواں حصہ ہیں، جبکہ ایسے ووٹرز جو سوشل میڈیا بالکل استعمال نہیں کرتے‘ ان کی تعداد 64 فیصد ہے۔ اس لئے بی جے پی کی جیت سوشل میڈیا کی مرہون منت نہیں ہے۔ وہ اس کے بغیر بھی جیت سکتی تھی۔
اسی طرح پاکستان کے 2018ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے اگرچہ سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا مگر اس کا کردار بہت محدود تھا۔ روایتی میڈیا مثلاً الیکٹرانک میڈیا اور دیگر عوامل کا اس کی جیت میں بہت اہم کردار تھا۔ آئندہ انتخابات میں بھی سوشل میڈیا پر انحصار پی ٹی آئی کی کامیابی کا ضامن نہیں بن سکتا کیونکہ ان انتخابات میںپی ٹی آئی کو 2018کے انتخابات کی طرح نہ تو الیکٹرانک میڈیا اور نہ ہی غیر مری ہاتھوں کی حمایت حاصل ہو گی۔ صرف سوشل میڈیا پر انحصار کر کے پی ٹی آئی آئندہ انتخابات میں اپنی کامیابی کو یقینی نہیں بنا سکتی کیونکہ ہائی ایکسپوژر والے سوشل میڈیا یوزرز کا کل ووٹرز کی تعداد میں تناسب بہت کم ہے۔ (ختم)