الیکشن ہوں یا وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت باقی ماندہ آئینی مدت پوری کرنے پر ڈٹی رہے‘ دونوں صورتوں میں ملک کی بحرانی کیفیت اور سیاسی محاذ آرائی سے جان چھوٹتی نظر نہیں آتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت عمران خان اور ان کی پارٹی کی ہر دلعزیزی کا گراف بلندیوں کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے اور انہوں نے اسلام آباد کی طرف آزادی مارچ کی تاریخ کا اعلان بھی کر دیا ہے‘ لیکن ضروری نہیں کہ پی ٹی آئی کو اسمبلیوں میں نشستیں بھی اسی تناسب سے ملیں کیونکہ جیسا کہ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما خود کہتے ہیں کہ حلقوں کی سیاست کے تقاضے اور ہوتے ہیں۔ پارلیمانی جمہوری نظام میں بعض مواقع پر پاپولر ووٹ کی اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی بھی اسی تناسب سے سیٹیں حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ بیشتر مبصرین کی رائے ہے کہ بڑے بڑے جلسوں کے باوجود عمران خان کی پارٹی دو تہائی اکثریت تو دور کی بات ہے‘ اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے بھی نہیں اُبھر سکے گی۔ نتیجہ وہی ہو گا جو پچھلے انتخاب کا تھا یعنی جو بھی بنے گی وہ مخلوط حکومت ہو گی‘ اور قومی سیاست بھی ایک مخلوط حکومت کے تقاضوں کی پابند ہو گی۔
اس کا مطلب یہ ہو گا کہ حکومت کا زیادہ وقت اہم اور دور رس فیصلے کرنے کے بجائے اتحادیوں کے ناز نخرے برداشت کرنے میں صرف ہو گا اور اگر وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت عمران خان کے الٹی میٹم کو نظر انداز کر کے اگست 2023ء تک مقتدر رہنے کا فیصلہ کرتی ہے‘ تو اسے عمران خان کے لانگ مارچ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چونکہ حکومت نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اگست 2023ء تک اقتدار میں رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے اس لئے میں اس سیناریو کوسامنے رکھتے ہوئے ممکنہ صورتحال کا جائزہ پیش کر رہا ہوں۔
عمران خان کا دعویٰ ہے کہ اسلام آباد کی طرف ان کے لانگ مارچ میں تیس لاکھ افراد ہوں گے۔ اس دعوے کو سچ ثابت کرنے کیلئے انہوں نے ملک کے طول و عرض میں طوفانی دورے کرکے تقریباً روزانہ کی بنیاد پر بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کیا ہے اور لانگ مارچ میں بھر پور شرکت پر زور دیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شرکت کو ممکن بنانے کیلئے انہوں نے لانگ مارچ میں صرف پی ٹی آئی کے کارکنوں اور حمایتیوں کو شامل ہونے پر زور نہیں دیا بلکہ انہوں نے دیگر پارٹیوں کے اراکین اور عام لوگوں کو بھی شامل ہونے کی دعوت دی ہے‘ کیونکہ ان کے دعوے کے مطابق وہ سیاست نہیں کر رہے بلکہ (امریکہ کے خلاف) قومی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
لانگ مارچ کے حجم میں مزید اضافہ کرنے کیلئے انہوں نے سرکاری ملازمین کے اہلِ خانہ کی شرکت کی طرف بھی اشارہ کیا تھا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جلسے میں شرکت اور لانگ مارچ میں شمولیت میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ دن کی سخت گرمی کے بعد جلسے میں رات کو کھلی جگہ کی ہوا اور ٹھنڈک کے ساتھ میوزک اور عمران خان کے خوبصورت فنِ تقریر سے لطف اندوز ہونا اور پنجاب کی گرمی سے تپتی ہوئی گرد آلود سڑکوں پر جسم کو جلا دینے والی لو کے تھپیڑوں کا سامنا کرنا‘ ایک دوسرے سے بالکل مختلف چیز ہے۔ عمران خان کو لانگ مارچ اور ایک لمبے عرصے کیلئے دھرنا دینے کا تجربہ پہلے ہی حاصل ہے۔ انہوں نے شہروں کو بلاک کرکے بھی دیکھ لیا لیکن نواز شریف کی حکومت نہ تو لانگ مارچ اور نہ دھرنے کی وجہ سے ختم ہوئی‘ بلکہ اس کیلئے کسی اور معاملے کا سہارا لیا گیا۔ اسی طرح عمران خان کے 25 مئی سے شروع ہونے والے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ سے حکومت کیلئے مشکلات تو پیدا ہو سکتی ہیں لیکن اگر حکومت ثابت قدم رہے اور اسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پوری معاونت حاصل ہو تو جلسے جلوسوں اور دھرنوں سے حکومت نہیں گرتی۔ یہ ہماری 75 سالہ تاریخ کا ہی سبق ہے کہ اصل فیصلہ کن کردار ''بازار‘‘ (مارکیٹ) کا ہے۔ اگر عمران خان کی کال پر تاجر اور کاروباروی طبقہ‘ چھوٹے اور بڑے دکاندار‘ مزدور اور پروفیشنل گروپ مثلاً وکیل‘ درمیانے اور نچلے درجے کے سرکاری ملازمین‘ اور کالج اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ اپنی ڈیوٹیاں چھوڑ کر سڑکوں پر نکل آئیں تو یہ حکومت دو دن بھی برقرار نہیں رہ سکتی‘ لیکن اب تک کی صورتحال میں ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔
2014ء کے دھرنے کے موقع پر بھی عمران خان نے Civil Disobedienceکی کال دی تھی۔ عوام سے کہا گیا تھا کہ وہ ٹیکس نہ دیں‘ گیس اور بجلی کے بل ادا نہ کریں‘ حتیٰ کہ سمندر پار کام کرنے والے پاکستانیوں سے کہہ دیا گیا کہ وہ اپنی کمائی بینکنگ کے طریقے سے بھیجنے کے بجائے ہنڈی کے ذریعے بھیجیں‘ لیکن ان کی کال پر کسی نے بھی کان نہ دھرا۔ جہاں تک سول سوسائٹی کا تعلق ہے‘ عمران خان نے اپنے گزشتہ ساڑھے تین سالہ دورِ حکومت میں اپنے قدامت پسندانہ خصوصاً عورتوں کے بارے میں اپنے ریمارکس سے اس کے بیشتر حصے کو ناراض کر رکھا ہے۔
متحدہ اپوزیشن نے سابقہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرکے کسی قانون کو نہیں توڑا‘ بلکہ آئین کے تحت اس نے اپنا حق استعمال کیا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ نے 9 اپریل کو اپنے غیر معمولی اقدام کے ذریعے آئین کی خلاف ورزی کو روکا تھا۔ ملک کی سول سوسائٹی اور لیگل کمیونٹی سپریم کورٹ کے ان فیصلوں اور اقدامات کی حمایت کرتی ہے۔ جہاں تک ''بازار‘‘ کا تعلق ہے‘ مسلم لیگ (ن) کا اس پر کافی اثرو رسوخ موجود ہے۔ چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری‘ خصوصاً ایکسپورٹرز کی طرف سے ایسے کسی اقدام کی مخالفت کی گئی ہے‘ جس سے یورپی یونین اور امریکہ کے ساتھ پاکستان کی برآمدی تجارت کو نقصان پہنچے۔ اس لئے عمران خان کی طرف سے عوام کی ایک بڑی تعداد‘ خصوصاً ان کے نوجوان حامیوں پر مشتمل لانگ مارچ اور اسلام آباد میں غیر معینہ دھرنا دینے کے باوجود حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اگر حکومت اپنے حواس قابو میں رکھے‘ ریاست کے وسائل خصوصاً سکیورٹی اور امن و امان قائم کرنے والے اداروں سے تعاون کو ایک مؤثر حکمت عملی کے تحت استعمال کرے تو یہ دھرنا جتنا مرضی طویل ہو‘ حکومت کو ڈکٹیٹ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔
عمران خان نے اپنے سپورٹرز کو طوفانی جلسوں کے ایک سلسلے کے ذریعے مارچ کیلئے پوری طرح تیار کررکھا ہے‘ مگر ان کے سپورٹرز ڈاکٹر طاہر القادری کے مریدوں سے زیادہ پختہ عزم نہیں ہو سکتے۔ وہ بھی اپنے اہل و عیال کے ساتھ اسلام آباد میں ''انقلاب‘‘ کے آنے تک دھرنا دینے کیلئے آئے تھے لیکن جب واپس گئے تو کسی کو خبر بھی نہ ہوئی۔ جہاں تک انتخابات کا تعلق ہے‘ موجودہ حکومت نے اس سے انکار نہیں کیا۔ صرف تاریخ کا فرق ہے جو آگے پیچھے کرکے دور ہو سکتا ہے۔
اگر آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات پاکستان کیلئے کسی بڑی رعایت پر منتج ہوتے ہیں‘ تو عمران خان کے ایجی ٹیشن کے غبارے سے ہوا نکالنے کیلئے کافی ہوں گے۔ اسی لیے حکومت نے اگلے سال اگست تک اقتدار میں رہنے کا جو فیصلہ کیا ہے‘ وہ درست ثابت ہو سکتا ہے۔