پچھلے ہفتے پاکستان اور بھارت کے درمیان دریائوں کے پانی کے مشترکہ استعمال سے متعلق متنازع امور پر نئی دہلی میں دو روزہ مذاکرات ہوئے۔ اگرچہ مذاکرات کے اس دور کی نوعیت غیرسیاسی ہے اور 1960ء کے سندھ طاس معاہدے کے تحت دونوں ملکوں کیلئے ہر سال ان مذاکرات کا انعقاد لازمی ہے‘ اس لیے انہیں پاکستان اور بھارت کے دو طرفہ تعلقات میں اگست 2019 ء سے جاری جمود کے ٹوٹنے کا آغاز نہیں کہا جا سکتا‘ تاہم دونوں ملکوں کے درمیان سخت کشیدگی کی متواتر موجودگی کے پیش نظر ان مذاکرات کو ایک اچھی پیش رفت کے طور پر خوش آمدید ضرور کہا جا سکتا ہے‘ کیونکہ کشمیر سے بہتے ہوئے پاکستان کی لاکھوں ایکڑ زمین سیراب کرنے والے دریائوں کے پانی کی تقسیم سے متعلقہ مسائل پر بات چیت پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ کمپوزٹ ڈائیلاگ (Composite Dialogue)کے آٹھ میں سے ایک حصہ ہے‘ جس پر دونوں ملکوں نے 1997ء میں دستخط کیے تھے اور جسے 2004ء میں پاک بھارت امن عمل (Peace Process) کی شکل میں دوبارہ شروع کیا گیا تھا۔
امن کے اس عمل کے تحت جب بھی دونوں ملکوں نے کسی بھی شعبے‘ سیاسی یا غیرسیاسی‘ میں میز پر بیٹھ کر ایک دوسرے سے بات چیت کی ہے‘ اس کا ہمیشہ خوشگوار اثر محسوس ہوا ہے کیونکہ اس سے کئی برسوں سے تعطل کے شکار امن کے عمل کے احیا کے آثار پیدا ہوتے ہیں‘ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ غیرسیاسی ہوتے ہوئے بھی سیاسی شعبوں‘ مثلاً سکیورٹی اور مسئلہ کشمیر‘ پر بات چیت کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اس لیے پاکستان اور بھارت جب کبھی کمپوزٹ ڈائیلاگ اور پیس پراسیس (Composite Dialogue and Peace Process) کے تحت کسی دو طرفہ تنازع پر بات چیت کریں اور یہ بات چیت خوش گوار اور مثبت ماحول میں ہو تو دونوں ملکوں میں باقی تنازعات پر بھی مذاکرات کی امید پیدا ہو جاتی ہے۔
پانی کے مسئلے پر دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کا یہ 118واں دور تھا۔ اس سے قبل مارچ میں اسلام آباد میں دونوں ملکوں کے آبی کمیشنز کے حکام نے پانی سے متعلقہ امور پر بات چیت کی تھی‘ اور تب ان مذاکرات کو نہ صرف حوصلہ افزا قرار دیا گیا تھا بلکہ اسے مسئلے کے حل کی طرف ایک اہم پیش رفت کے طور پر ویلکم بھی کیا گیا تھا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی فضا کو ختم کرنے اور دونوں ملکوں کے درمیان اگست 2019ء سے پہلے کی سطح پر دو طرفہ تعلقات کو بحال کرنے کیلئے پانی کے مسئلے پر حالیہ مذکرات کے علاوہ بھی حوصلہ افزا اور مثبت ملاقاتیں ہوئی ہیں‘ مثلاً حال ہی میں دہلی میں شنگھائی تعاون تنظیم (Shanghai Cooperation Organisation) کے تحت دہشت گردی اور علاقائی سلامتی‘ خصوصاً افغانستان کی موجودہ صورت حال سے پیدا ہونے والے چیلنجز کا جائزہ لینے کیلئے منعقدہ کانفرنس میں پاکستان نے بھی شرکت کی تھی۔ پاکستان اور بھارت‘ دونوں شنگھائی تعاون تنظیم کے مستقل اراکین ہیں اور اس تنظیم کے پلیٹ فارم پر ہونے والی تمام سرگرمیوں میں شریک ہوتے ہیں‘ لیکن اگست 2019ء کے بعد پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم کے تحت بھی نئی دہلی میں منعقدہ ہر کانفرنس میں شرکت سے اجتناب کیا تھا۔
یہ پہلا موقع ہے کہ علاقائی سلامتی اور افغانستان پر پاکستان اور بھارت کے نمائندے ایک میز پر اہم مسائل‘ اور وہ بھی افغانستان کے بارے میں‘ پر بحث کر رہے تھے۔ باہمی اختلافات اور دو طرفہ کشیدہ تعلقات کے باوجود نئی دہلی میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اس اہم فورم میں پاکستان کی شرکت ایک اہم‘ حوصلہ افزا اور مثبت پیش رفت ہے اور اس سے یہ امید بندھی ہے کہ دیگر اہم شعبوں‘ مثلاً دو طرفہ تجارت کی بحالی کے اقدامات‘ میں بھی دونوں ملک راضی ہو جائیں گے اور آگے بڑھنے کی راہ ہموار ہوگی۔ اس امید کو تقویت اس امر سے بھی ملتی ہے کہ حال ہی میں دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ تعلقات کی بحالی کے حق میں جن حلقوں کی طرف سے آوازیں بلندہونا شروع ہوئی ہیں‘ ان حلقوں میں ریٹائرڈ اعلیٰ سفارت کار‘ معیشت دان‘ تاجر اور سرمایہ دار بھی شامل ہیں۔ پاکستان کا صنعت کاروں اور کاروباری لوگوں پر مشتمل طبقہ‘ جو ایک موقع پر بھارت کے ساتھ تجارت سے سخت خوفزدہ تھا‘ اب اس بڑے ہمسایہ ملک کے ساتھ نہ صرف تجارت بلکہ مشترکہ سرمایہ کاری کے شعبے میں بھی باہمی تعاون کی برملا حمایت کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت میں تجارت اور سرمایہ کاری کے مشیر اور ایک ممتاز صنعت کار اور تاجر رزاق دائود بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کے احیا کی نہ صرف حمایت کرتے رہے ہیں بلکہ پاکستان کی معاشی صحت کیلئے اسے ضروری قرار دے چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہمارے میڈیا میں اس قسم کی اطلاعات بھی شائع ہوئی ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ ایک سال سے زائد عرصہ سے غیرسرکاری اور پس پردہ روابط جاری ہیں۔ ان روابط میں ماہرین دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے مختلف طریقوں اور اقدامات پر اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان بیک چینل روابط کے کچھ مثبت نتائج بھی پیدا ہوئے ہیں۔ ان نتائج میں گزشتہ سال فروری میں دونوں ملکوں کے درمیان لائن آف کنٹرول کے آر پار آئے دن کی فائرنگ اور گولہ باری کے سلسلے کو بند کرکے دونوں طرف رہنے والے لوگوں کو پُرامن ماحول مہیا کرنے پر اتفاق بھی شامل ہے۔
لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کے اس معاہدے پر بغیر کسی خلاف ورزی اور اشتعال انگیزی کے عمل ہو رہا ہے۔ اس سے حوصلہ پا کر پاکستان اور بھارت نے دیگر شعبوں مثلاً دو طرفہ تجارت میں پیش رفت کی کوشش کی تھی‘ لیکن پاکستان میں مخالفانہ عوامی رائے کی بدستور موجودگی کی وجہ سے اس سلسلے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی‘ مگر دونوں طرف سے تعلقات کو معمول پر لانے کی خواہش بہرحال موجود ہے۔ پاکستان اور بھارت کے دور و نزدیک واقع دوست ممالک‘ جن میں امریکہ‘ روس‘ ترکی‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی شامل ہیں‘ دونوں ممالک پر اس اقدام پر توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں‘ کیونکہ بین الاقوامی برادری کی رائے میں پاک بھارت دوستی اور تعاون نہ صرف ان دونوں ملکوں کے امن اورترقی کیلئے مفید ہے بلکہ علاقائی سلامتی اور خصوصاً خطے میں ابھرتے ہوئے خطرات کا مؤثر مقابلہ کرنے کیلئے بھی ضروری ہیں۔ اگرچہ پاکستان کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں 5اگست 2019ء کے بھارتی اقدامات کو واپس لینے کو امن مذاکرات کیلئے ایک بنیادی شرط قرار دیا گیا ہے‘ مگر ملک میں بڑھتے ہوئے خلفشار اور قومی معیشت کی زبوں حالی کے پیشِ نظر اسلام آباد‘ نئی دہلی کے ساتھ مذاکرات اور معمول کے تعلقات کے قیام کی ضرورت اور افادیت کو زیادہ دیر تک نظر انداز نہیں کر سکتا۔ دوسری طرف بھارت میں بھی یہ احساس تقویت پکڑتا جا رہا ہے کہ طاقت کے زور پر کشمیریوں کو نہیں دبایا جا سکتا۔ بین الاقوامی برادری کی طرف سے کشمیر میں جاری بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں کی بڑھتی ہوئی مذمت سے مودی حکومت مشکل میں مبتلا ہے۔ بھارت میں بی جے پی کے انتہا پسندوں کے سوا وزیراعظم نریندر مودی کو ملک کی کسی بھی اہم سیاسی پارٹی کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں کیے گئے اقدامات پر حمایت حاصل نہیں۔ یہ خوش قسمتی کی بات ہے کہ دونوں ملکوں میں اس وقت جمہوری‘ سیاسی قوتیں برسرِ اقتدار ہیں۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دونوں حکومتوں کو باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے دلیرانہ فیصلوں سے احتراز نہیں کرنا چاہئے۔