بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری کی زیرِ صدارت پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک حالیہ اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے مسئلے کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا جائے اور اس بارے میں جو بھی پالیسی اور مقصد متعین کیا جائے اسے تمام سٹیک ہولڈرز کی متفقہ حمایت حاصل ہو۔ اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ پیپلز پارٹی اس مقصدکیلئے باقی تمام سیاسی جماعتوں سے رابطہ پیدا کرے گی۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ پی پی پی کی طرف سے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے اور نہ ہی پی پی پی واحد حلقہ ہے جس کی طرف سے اس قسم کے خدشات ظاہر کیے گئے ہیں‘ پاکستان میں دیگر حلقوں خصوصاً سول سوسائٹی اور میڈیا کی طرف سے بھی حکومت اور ٹی ٹی پی کے مابین مذاکرات پر پوری شفافیت اور آئین کی پاسداری کا مطالبہ کیا جا چکا ہے۔ اس کی ایک وجہ ماضی میں کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ پاکستانی حکام کی بات چیت اور اس کے نتیجے میں ہونے والے معاہدوں کا تجربہ ہے‘ جو بدقسمتی سے زیادہ خوشگوار نہیں رہا۔ 2004ء میں نیک محمد کے ساتھ معاہدے کے بعد اس تنظیم کے ساتھ حکومت پاکستان نے درجن بھر جنگ بندی اور قیام امن کے معاہدے کیے تھے‘ لیکن ہر معاہدے کے بعد ٹی ٹی پی نے پہلے سے زیادہ توانا ہو کر نہ صرف سکیورٹی فورسز اور حساس اداروں بلکہ بے گناہ شہریوں اور سیاسی مخالفین کو بھی اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنایا۔ اب تک ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا جو سبق حاصل ہوا ہے‘ اس کے مطابق ٹی ٹی پی نے ہر معاہدے کو حکومتِ پاکستان سے زیادہ سے زیادہ رعایات حاصل کرنے اور اپنی تنظیم کو مضبوط بنانے کیلئے استعمال کیا۔ مذاکرات کے موجودہ سلسلے کے بارے میں بھی اس قسم کے خدشات اس لیے ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ ان میں ٹی ٹی پی نے اپنے موقف میں ذرہ برابر لچک دکھائے بغیر اہم اہداف حاصل کر لیے ہیں۔ سب سے اہم کامیابی یہ ہے کہ ایک کالعدم تنظیم ہوتے ہوئے اور پاکستان کے آئین اور سیاسی نظام کو تسلیم نہ کرتے ہوئے بھی اس نے حکومت پاکستان کے ساتھ برابر کا فریق ہونے کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔ اس کے علاوہ اس نے اپنے اہم اور سرکردہ رہنمائوں‘ جو دہشتگردی اور مختلف جرائم کے الزام میںجیلوں میں بند تھے‘ کو رہا کرا لیا ہے۔ ٹی ٹی پی نے افغان طالبان کی وساطت سے مذاکرات کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے‘ اس میں یہی سب سے بڑا مطالبہ تھا۔ اس کے بدلے میں پاکستان نے کیا حاصل کیا؟ جنگ بندی‘ جسے ٹی ٹی پی یقینی طور پر اپنی صف بندی کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کرے گی۔
گزشتہ کئی ماہ سے جاری ان مذاکرات میں سول اور عسکری حکام کے علاوہ پچاس رکنی جرگے کی شرکت کے باوجود ٹی ٹی پی نے اپنے موقف میں کوئی لچک پیدا نہیں کی اور وہ بدستور اپنے مطالبات یعنی کے پی میں فاٹا کے انضمام کو ختم کرکے شمالی قبائلی علاقہ جات کی سابقہ حیثیت کی بحالی اور ان علاقوں میں اپنی مرضی کا سیاسی‘ سماجی اور قانونی نظام نافذ کرنے پر مصر ہے۔ ٹی ٹی پی کے یہ مطالبات نہ صرف ملک کے آئین کے منافی اور ریاست پاکستان کی سالمیت کے خلاف ہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف مہم میں ہماری فوج اور پولیس کے علاوہ عام شہریوں نے جان و مال کی جو قربانیاں پیش کی ہیں‘ ان سے بھی صریح انحراف کے مترادف ہیں۔
ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے موجودہ دور کے بارے میں مختلف سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں کی طرف سے تحفظات ظاہر کرنے کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ایک کالعدم اور عالمی سطح پر دہشتگرد تنظیم قرار دیے جانے کے باوجود ریاست نے ٹی ٹی پی کے ساتھ کن شرائط پر بات چیت کا آغاز کیا‘ کیونکہ مذاکرات کی ایک بنیادی شرط کے طور پر ٹی ٹی پی کے جنگجوئوں نے آئینِ پاکستان کو قبول کرنے اور ہتھیار پھینکنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کے بجائے انہوں نے اپنے اہم رہنمائوں کو پاکستانی جیلوں سے رہا کروا کے اپنی ایک اہم شرط منوا لی ہے۔
قوم کو ان مذاکرات کے بارے میں سب سے پہلے اکتوبر 2021ء میں پتا چلا تھا جب سابق وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں ٹرکش ریڈیو اینڈ ٹیلی وژن (TRT) کے ساتھ ایک انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ افغان طالبان کی وساطت سے کابل میں ٹی ٹی پی کے ''کچھ گروپوں کے ساتھ حکومت پاکستان کی بات چیت جاری ہے‘‘۔ یاد رہے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجوئوں نے 2014ء کے بعد شمالی قبائلی علاقہ جات میں آپریشنز کی وجہ سے بھاگ کر افغانستان میں پناہ لے لی تھی‘ اور وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کو جاری رکھے ہوئے تھے۔ پاکستان کا موقف تھا کہ افغانستان کی سابقہ حکومتیں اور بھارت کی خفیہ ایجنسی ٹی ٹی پی کو مالی اور عسکری امداد فراہم کرتی ہیں‘ لیکن اگست 2021ء میں افغان طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد سے ٹی ٹی پی نے افغانستان سے پاک افغان سرحد کے پار سے پاکستانی فوج کی چوکیوں اور دیگر ٹھکانوں پر نہ صرف اپنے حملے تیز کر دیے بلکہ پاکستان کی بار بار درخواست کے باوجود افغان طالبان کی حکومت نے ٹی ٹی پی کے خلاف اقدام کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ افغانستان میں عبوری طالبان حکومت کا موقف یہ ہے کہ ٹی ٹی پی امریکہ کے خلاف طویل جنگ میں ان کی حلیف رہی ہے‘ بلکہ افغان طالبان اس جنگ میں ٹی ٹی پی کے جنگجوئوں کی قربانیوں کا برملا اعتراف کرتے ہیں‘ اس لیے انہوں نے پاکستان کے مطالبے پر ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے سے صاف انکار کر دیا‘ البتہ پاکستان کو ٹی ٹی پی کے ساتھ غیر مشروط طور پر ایک میز پر بات چیت کرنے پر راضی کر لیا۔
افغان طالبان کے سینئر رہنمائوں اور ان کے ترجمانوں کے مختلف مواقع پہ جاری بیانات کا اگر بنظرِ غائر جائزہ لیا جائے تو صاف معلوم ہوگا کہ وہ پاکستان کی طرف سے ٹی ٹی پی کو ''رعایات‘‘ دینے کے حق میں ہیں تاکہ اعتماد سازی کے ایک مضبوط عمل کے ذریعے مستقل امن اور مصالحت کی طرف پیش قدمی ہو سکے۔ پاکستان نے ٹی ٹی پی کے اہم رہنمائوں کو رہا کرنے کا جو قدم اٹھایا ہے‘ وہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس کے بدلے ٹی ٹی پی نے جنگ بندی کی میعاد میں‘ جو 31 مئی کو ختم ہو رہی تھی‘ غیر معینہ مدت کیلئے توسیع کر دی ہے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت اسے ایک اہم پیش رفت قرار دیتی ہے اور وزیرِ اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے پہلی دفعہ اعتراف کیا ہے کہ ان مذاکرات میں حکومت پاکستان بھی ایک فریق ہے اور افغانستان میں طالبان حکومت کے سینئر رہنما‘ جن میں قائم مقام وزیر داخلہ سراج الدین حقانی اور قائم مقام وزیراعظم ملا حسن اخوند شامل ہیں‘ اہم کردار ادا کر رہے ہیں‘ لیکن کیا ٹی ٹی پی اپنی سابقہ روش کے برعکس جیسا کہ سابقہ وزیر داخلہ فواد چودھری نے دعویٰ کیا تھا‘ پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق مستقل امن پر آمادہ ہو جائے گی؟ اس سوال کا ہاں میں جواب دینا اس لیے مشکل ہے کہ جنگ بندی کے باوجود دہشت گردی کی کارروائیاں اور شمالی علاقہ جات میں پاکستانی چوکیوںپر سرحد پار سے حملے جاری ہیں۔ دوسرا‘ خود سابق وزیراعظم عمران خان کے مطابق ان مذاکرات میں ٹی ٹی پی کے کچھ گروہ حصہ لے رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ گروہ ان مذاکرات کا حصہ نہیں ہیں۔ ان کی طرف سے اگر دہشت گردانہ سرگرمیاں جاری رہیں تو مذاکراتی عمل کا حصہ بننے والے گروہوں کی اچھی نیت کے باوجود جنگ بندی کسی وقت بھی ختم ہو سکتی ہے۔ یہ وہ حالات ہیں‘ جن کے پیشِ نظر پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کی طرف سے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کو پارلیمنٹ میں لانا ضروری قرار دیا گیا ہے تاکہ اس پر پوری قوم کو اعتماد میں لے کر ایک جامع اور شفاف پالیسی تشکیل دی جا سکے۔