پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین پروگرام کی بحالی پر ایک عرصے سے جو تعطل چلا آ رہا تھا‘ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے مطابق اس کے خاتمے کی راہ ہموار ہو گئی ہے کیونکہ نئے بجٹ میں ضروری تبدیلیوں پر پاکستان کی آمادگی کے بعد آئی ایم ایف نے اس پر اپنے اطمینان کا اظہار کر دیا ہے۔ اگرچہ آئی ایم ایف کی طرف سے ابھی تک رسمی اور حقیقی بیان جاری نہیں کیا گیا‘ مگر ''فنڈ‘‘ کا یہ اعلان کہ اس کا ایک جائزہ مشن عنقریب پاکستان کا دورہ کرے گا‘ اس بات کا ثبوت ہے کہ آئی ایم ایف کو پاکستانی بجٹ میں دی گئی تجاویز پر جو تحفظات تھے‘ وہ دور ہو گئے ہیں اور اس طرح آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو پرانے پروگرام (6بلین ڈالر) کے تحت ایک بلین ڈالر کی قسط کی ادائیگی کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین موجود اختلافات دور ہونے کے بعد پاکستانی معیشت کو ایک بڑا ریلیف ملے گا‘ کیونکہ دیگر ذرائع سے قرضوں کی فراہمی بھی آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان معاہدے سے مشروط تھی۔ اب جبکہ آئی ایم ایف نے گرین سگنل دے دیا ہے‘ دیگر دوست ممالک مثلاً چین‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات وغیرہ بھی اپنے خزانوں کے منہ پاکستان کو قرض فراہم کرنے کیلئے کھول دیں گے۔ چین نے پاکستان کی امداد کیلئے پاکستان کو پہلے سے دیے گئے 2.3 بلین ڈالر کے قرضے کو نہ صرف رول بیک کر دیا ہے بلکہ اس پر شرح سود کو بھی 3.5سے کم کر کے 1.5 فیصد کر دیا گیا ہے۔ موجودہ حالات میں چین کی طرف سے اس رعایت سے پاکستان کی معیشت پر فوری طور پر اچھا اثر پڑے گا۔ اس طرح آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کے نتیجے میں دیگر بین الاقوامی اداروں اور دوست ملکوں کی طرف سے بھی ادھار ڈالروں کی اتنی مقدار حاصل ہونے کی توقع ہے کہ دیوالیہ ہونے کا خطرہ ٹل جائے گا۔
ایٹمی طاقت رکھنے والا واحد مسلم ملک پاکستان سر سے پائوں تک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے اور ان قرضوں کی ادائیگی ہماری خارجہ پالیسی کا اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا حالیہ دورۂ امریکہ و چین ان ممالک سے پہلے سے حاصل کیے گئے قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے حاصل کرنے کے لیے تھا۔ چند روز پیشتر وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کی بحالی کیلئے جو مفاہمت کی تھی‘ وہ بھی امریکہ کی اعانت سے ممکن ہوئی تھی اور پاکستان کی طرف سے اس کی خصوصی طور پر درخواست کی گئی تھی۔ اس مفاہمت کے تحت پاکستان نے بجٹ کے حجم میں تقریباً ساڑھے چار سو ارب روپے کا مزید اضافہ کرنے پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان کو اتنی بڑی رقم کا انتظام کرنے کیلئے ٹیکسوں میں اضافہ کرنا پڑے گا اور بعض اشیا پر سبسڈی کم کرنے کے علاوہ پٹرول اور ڈیزل پر لیوی اور جی ایس ٹی عائد کرنا پڑے گا۔ اس کے تحت آئی ایم ایف ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کرنے کے علاوہ پیکیج کے حجم اور ادائیگی کیلئے مدت میں اضافہ کر دے گا۔ ماہرین اقتصادیات اسے ایک خوش آئند پیشرفت قرار دے رہے ہیں۔
ایک اطلاع کے مطابق پاکستان رواں مالی سال کے پہلے دس ماہ کے دوران‘ پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں‘ 15بلین ڈالر کا قرضہ لے چکا ہے اور آئندہ سال اسے 37ارب ڈالر کی شکل میں پہلے سے حاصل کیے گئے قرضوں پر کیپٹل اور سود ادا کرنا پڑے گا۔ اب اس بوجھ میں مزید اضافہ ہو گا اور ہم اس پر خوشیاں منا رہے ہیں۔ کوئی نہیں سوچتا کہ ہمارا ملک آخر اس نہج پر کیسے پہنچا؟ جن لوگوں نے اس پر سوچ بچار کی ہے‘ اور اپنی گزارشات پیش کی ہیں‘ ان کے مطابق کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کے فروغ میں صرف طبعی اور قدرتی وسائل کا کردار نہیں ہوتا بلکہ سیاسی و سماجی اور ثقافتی عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں۔ سیاسی نظام سے مراد یہ ہے کہ کیا یہ ریاست کے ہر فرد کی شرکت کا مکمل احساس فراہم کرتا ہے۔ کیا آبادی کے کسی حصے سے امتیازی سلوک تو روا نہیں رکھتا؟ امن‘ استحکام اور تعاون بھی سیاسی نظام کے زمرے میں آتا ہے۔
جنوبی ایشیا کے خطے کے دو بڑے ممالک‘ جو جوہری ہتھیاروں سے بھی لیس ہیں‘ کے مابین کشیدگی اور تصادم کا ہمہ وقت خطرہ‘ ترقی اور خوشحالی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے‘ کیونکہ اس سے بیرونی سرمایہ کاری رک جاتی ہے اور آج کے زمانے میں جبکہ دنیا نے سکڑ کر ایک گائوں کی شکل اختیار کر لی ہے‘ بین الاقوامی تعاون اور امداد کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا‘ اور نہ کوئی خطہ خوشحالی کی منزلیں طے کر سکتا ہے۔ اس کی مثال ایشیا پیسفک (Asia Pacific) میں تجارت‘ سرمایہ کاری اور امن کے شعبوں میں تعاون کے ذریعے ترقی اور خوشحالی کے حصول میں کامیابی ہے۔ جنوبی ایشیا میں بھی امن اور تعاون کے ادوار میں خطے کے ممالک نے ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کی ہیں۔ اس کی مثال 1990ء کی دہائی اور 2004ء کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو معمول پر لانے اور امن کے قیام کیلئے بات چیت کے زمانے کی شکل میں موجود ہے۔ بین الاقوامی کوششوں یا مقامی طاقتوں کی خواہش کے زیر اثر جب کبھی پاکستان اور بھارت کے درمیان امن‘ دوستی اور تعاون کے امکانات روشن ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں‘ خطے میں شرح نمو میں ترقی کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پُرامن ماحول بیرونی اور اندرونی سرمایہ کاری کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی بیرونی سرمایہ کاری (FDI) پر ایک رپورٹ کے مطابق 1990ء کی دہائی میں جنوبی ایشیا کے ممالک (سوائے پاکستان) کے جی ڈی پی کے فروغ (GDP Growth) میں دنیا کے تیز ترین ترقی کی رفتار والے ممالک میں شامل تھے‘ اور اس کی وجہ ان ممالک کی لبرل اکنامک پالیسیوں کے علاوہ بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ تھا۔ پاکستان خطے میں واحد ملک تھا جو ترقی کی اس دوڑ میں اپنے تمام ہمسایہ ممالک سے پیچھے تھا‘ اور اس کی سب سے اہم وجہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام تھا۔ اس دہائی میں تین حکومتیں (1990ء‘ 1993ء‘ 1996ء) آئین کی دفعہ 58 ٹو بی کے تحت اور ایک 1999ء میں مارشل لا کے ذریعے تبدیل کی گئی۔ اس کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام‘ غیر یقینی اور کشیدگی کی فضا پیدا ہوئی جس نے معیشت‘ کاروبار اور سرمایہ کاری پر منفی اثر ڈالا۔ اس دور میں چینی سرمایہ کار اور صنعت کار بھی پاکستان میں سرمایہ کاری پر تیار نہ تھے‘ اوراس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے ہاں لا اینڈ آرڈر‘ سکیورٹی اور استحکام کا مسئلہ تھا۔ 2001-02ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان بھارتی پارلیمنٹ پر دہشت گردوں کے حملے سے جو انتہائی کشیدہ صورت پیدا ہوئی اس کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری تو کجا‘ بہت سے ملکوں نے اپنے شہریوں کیلئے ٹریول ایڈوائزری بھی جاری کر دی تھی کیونکہ دونوں ملکوں میں ایٹمی تصادم کا شدید خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔
آئی ایم ایف کے ساتھ گزشتہ ایک سال سے تعطل کے شکار امدادی پروگرام کی بحالی سے پاکستان کی معیشت کو ایک فوری طور پر درکار ریلیف کے حصول میں کامیابی یقینا باعث اطمینان اور حوصلہ افزا پیش رفت ہے لیکن یہ پاکستان کے معاشی مسائل کا مستقل اور دیرپا حل نہیں۔ بد قسمتی سے ہمیں آئی ایم ایف کے نشے کی لت لگ چکی ہے۔ جب کبھی اپنی کوتاہیوں‘ نالائقیوں اور شاہ خرچیوں کے باعث معاشی مسائل کی دلدل میں دھنس جاتے ہیں تو ہم آئی ایم ایف کو پکارتے ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے یہی تماشا جاری ہے۔ اسے اب ختم ہونا چاہئے اور اس کے لیے قائداعظم کے ایک اہم فرمان کا نسخہ استعمال کرنا پڑے گا‘ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مقصد نہ صرف اندرونی بلکہ بیرونی امن کا قیام بھی ہے۔ جب تک سرحدوں پر امن قائم نہیں ہوگا‘ ملک کے اندر امن قائم نہیں ہو سکتا اور ملک کے اندر امن کے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں۔