وزیراعظم شہباز شریف نے جون کے آخری ہفتے میں ''امن و امان‘‘ کے مسئلے پر ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ سابقہ حکومت کے دور میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صوبوں کے کردار کو نظر انداز کیا گیا‘ اسی لیے ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی حکومت صوبوں کے اس کردار کو بحال کرے گی۔ انسدادِ دہشت گردی میں صوبوں کے کردار کے بارے میں وزیر اعظم کے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے ایک اعلیٰ افسر نے 2014ء کے نیشنل ایکشن پلان میں صوبوں کے کردار کے حوالے سے کہا کہ صوبوں کو کچھ ضروری اقدامات کرنا تھے‘ جن میں قانونی‘ عدالتی اور دینی مدرسوں کے نظام میں اصلاحات‘ نفرت پھیلانے والے مواد کی اشاعت پر پابندی‘ بغیر لائسنس ہتھیاروں کی ضبطی اور دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کیلئے صوبوں کی سول سکیورٹی ایجنسیوں کی خصوصی تربیت شامل تھی۔
نیشنل ایکشن پلان 16 دسمبر 2014ء کو پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے بہیمانہ حملے سے پیدا ہونے والے رد عمل کے نتیجے میں تشکیل دیا گیا تھا۔ پاکستان دہشت گردی کا شکار تو ایک دہائی سے چلا آ رہا تھا لیکن آرمی پبلک سکول کے سانحے نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور ہر مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے دہشت گردی کی بیخ کنی کیلئے ایک جامع اور کثیرالجہتی منصوبے کی تشکیل کا مطالبہ کیا جو نہ صرف مؤثر اقدامات پر مشتمل ہو بلکہ اسے پوری قوم کی حمایت بھی حاصل ہو؛ چنانچہ 24 دسمبر 2014ء کو پارلیمنٹ نے اتفاق رائے سے ایک 20 نکاتی عملی پلان کی منظوری دی جس میں پاک فوج کی نگرانی میں دو سال کے عرصے کیلئے فوجی عدالتوں کا قیام اور دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف اقدامات شامل تھے۔ ان اقدامات میں سے چند نکات مثلاً نکتہ نمبر 6 کے تحت دہشت گردوں کو مالی امداد کی فراہمی روکنے کے اقدامات کی سفارش کی گئی تھی‘ نکتہ نمبر 10کا تعلق دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ریگولیشن سے تھا۔ آخری یعنی نکتہ نمبر 20 کے تحت فوجداری قوانین میں ضروری ترامیم اور تبدیلیاں لانے کا کام صوبوں کے سپرد کیا گیا تھا۔
وزیراعظم شہباز شریف کے بیان پر قومی سلامتی کے ذمہ داروں کی طرف سے جو کچھ کہا گیا ہے‘ اس کا بھی غالباً یہی مطلب ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت صوبوں کو جو ذمہ داریاں دی گئی تھیں وہ انہوں نے پوری نہیں کیں۔ لیکن وزیراعظم نے اپنے خطاب میں جو الفاظ استعمال کیے ان سے یہ معنی اخذ نہیں کیے جا سکتے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صوبوں کے کردار کو نظر انداز کیا گیا۔ انہوں نے اس کیلئے صرف سابقہ حکومت کو ذمہ دار قرار دے کر کہا کہ ذمہ داری کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی تقریباً دو دہائیوں کے دوران ہر حکومت کے دور میں صوبوں کے کردار کو نہ صرف نظر انداز کیا گیا بلکہ پالیسی سازی میں اور اہم فیصلوں کے مواقع پر صوبوں کو جان بوجھ کر باہر رکھا گیا۔ پاکستان میں دہشت گردی کی جنگ میں خاطر خواہ مقاصد حاصل نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اسے محض لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ سمجھا جاتا رہا ہے اور چونکہ لا اینڈ آرڈر آئین کے مطابق صوبوں کی ذمہ داری ہے‘ اس لیے یہ سمجھا گیا کہ اس سے نمٹنا صوبوں کا کام ہے۔ سابق وزیر داخلہ مرحوم رحمان ملک اسی نظریے کے حامی تھے۔ ان کا خیال تھا کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنا صوبوں کی ذمہ داری ہے کیونکہ بنیادی طور پر یہ لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ ہے اور لا اینڈ آرڈر کو قائم رکھنے کی ذمہ داری آئین نے صوبوں کو تفویض کر رکھی ہے۔ مگر دہشت گردی کے مفہوم اور اس سے نبرد آزما ہونے کے بارے میں یہ کوئی حقیقت پسندانہ اپروچ معلوم نہیں ہوتی لیکن بدقسمتی سے ملک میں ابھی تک اسی اپروچ کو فالو کیا جاتا ہے۔ آئین کے تحت لا اینڈ آرڈر کے قیام کی ذمہ داری کے تحت پولیس کا محکمہ بھی صوبوں کے ماتحت ہے اور دہشت گردی کے خلاف صوبوں کو اس فورس کے ذریعے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس اور انتہائی منظم اور بین الاقوامی نیٹ ورک سے مسلح دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت صوبائی سطح پر سکیورٹی ایجنسیوں کو سپیشل ٹریننگ دینے کی سفارش کی گئی تھی مگر اس پر آج تک عمل نہیں ہو سکا۔ صوبوں کے پاس دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کیلئے نہ صرف جدید ترین ہتھیاروں اور تربیت کی کمی ہے بلکہ مرکز کے تحت کام کرنے والی سکیورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ رابطے اور تعاون کا بھی فقدان ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ مرکزی اور صوبائی سکیورٹی ایجنسیاں اکثر Cross Purpose سطح پر کام کرتی ہیں۔ اس سے دہشت گرد فائدہ اٹھاتے ہیں اور صوبوں نے اپنے وسائل سے جو کائونٹر ٹیرر ازم انفراسٹرکچر کھڑا کیا ہے‘ اس سے پورا پورا فائدہ نہیں اٹھایا جاتا کیونکہ دہشت گردوں کی سرگرمیاں نہ صرف پورے پاکستان میں بلکہ متعدد ملکوں میں پھیلی ہوئی ہیں اور وہ دہشت گردی کے حملوں کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ اتنے منظم اور طاقتور گروہوں کا مقابلہ کرنے کیلئے مرکز کی طرف سے تعاون اور امداد کے بغیر صوبے دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے اپنا کردار پوری طرح ادا نہیں کر سکتے۔
صوبائی حکام کو اکثر اس بات کی شکایت رہی ہے کہ مرکز کے کنٹرول میں کام کرنے والی سول اور ملٹری سکیورٹی ایجنسیاں دہشت گردی کے بارے میں ان سے معلومات پوری طرح شیئر نہیں کرتیں۔ اگرچہ کچھ عرصہ سے دونوں سطح کی کائونٹر ٹیرر ازم ایجنسیوں نے متعدد آپریشنز میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا ہے‘ لیکن دونوں سطح پر کام کرنے والی ایجنسیوں کے درمیان نہ صرف وسائل‘ تربیت اور Capacity کا نمایاں فرق ہے بلکہ نوآبادیاتی دور سے چلی آنے والی روایت کے تحت اعتماد کا فقدان (Trust Deficit) بھی بدستور موجود ہے۔ دہشت گردوں کو پاکستانی ریاست کی ساخت اور کارکردگی میں شروع سے موجود ان فالٹ لائنز کا علم ہے‘ اور وہ کمال مہارت سے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس لیے وزیراعظم کو اگر دہشت گردی کے خلاف صوبوں کے ایک مؤثر کردار کی بحالی مطلوب ہے تو ذمہ داری کے ساتھ ان کی استعداد اور وسائل میں بھی اضافہ لازمی ہے۔
صوبوں کی استعداد میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ سویلین انٹیلی جنس انفراسٹرکچر کو بھی مطلوبہ وسائل‘ آلات اور سہولتوں سے آراستہ کرنا ضروری ہے۔ اس وقت ملٹری انٹیلی جنس انفراسٹرکچر اور سویلین انٹیلی جنس انفراسٹرکچر کے درمیان وسائل‘ اختیارات اور آلات کے لحاظ سے بہت تفاوت موجود ہے۔ اگرچہ ملٹری انٹیلی جنس انفراسٹرکچر کو ہمیشہ پہلے نمبر پر ہونا چاہیے کیونکہ ان کا کام ملک اور اس کی سرحدوں کو دشمنوں سے محفوظ رکھنا ہے لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے سویلین انٹیلی جنس انفراسٹرکچر کی موجودہ استعداد میں اضافہ بھی لازمی ہے کیونکہ دہشت گردی‘ عام لا اینڈ آرڈر کے قیام کا مسئلہ نہیں ہے یہ بنیادی طور پر سیاسی مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کیلئے ایک طرف سیاسی قوتوں کو آن بورڈ لینا ضروری ہے اور دوسری طرف سویلین لا انفورسمنٹ ایجنسیز کو ضروری وسائل‘ تربیت اور ہتھیاروں سے لیس کرنا ضروری ہے تاکہ ریگولر آرمی اپنے بنیادی فریضے یعنی سرحدوں کی حفاظت کی طرف پوری توجہ دے سکے۔ سیاسی قوتوں خصوصاً علاقائی سطح پر مؤثر سیاسی پارٹیوں کو اعتماد میں لے کر آن بورڈ کرنے کا یہ فائدہ ہو گا کہ اس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی عوامی ملکیت قائم ہو جائے گی اور دہشت گردوں کو عوام کو گمراہ کرنے اور کہیں چھپنے کا موقع نہیں مل سکے گا جبکہ صوبوں کی استعداد میں اضافے سے دہشت گردوں کے حملوں کو فوری طور پر ناکام بنانے میں مدد ملے گی‘ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ تمام ایجنسیوں کے درمیان معلومات کو شیئر کرنے اور ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کی پالیسی پر سختی سے عمل کیا جانا چاہیے۔