پنجاب میں گزشتہ دو ڈھائی ماہ سے جاری سیاسی اور آئینی بحران پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اسے فریقین یعنی وزیراعلیٰ حمزہ شہباز شریف اور ان کے مدِمقابل صوبائی وزارتِ اعلیٰ کے امیدوار چودھری پرویز الٰہی نے نہ صرف قبول کیا ہے بلکہ اس پر عدالت عظمیٰ کی ہدایات کے مطابق عمل درآمد کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔ اس کے باوجود متعدد حلقوں کی جانب سے سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پاکستانی سیاست کی بحرانی کیفیت ختم ہو جائے گی؟ بدقسمتی سے اس سوال کا ہاں میں جواب دینا بتدریج مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ فیصلے سے امید کی جو موہوم سی کرن پیدا ہوئی تھی‘ اس کی جگہ مایوسی کے گہرے بادل چھا گئے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی کے لیڈر اور سابق وزیراعظم عمران خان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سیاسی مخالفین پر تابڑ توڑ حملوں میں نرمی لانے کے بجائے اپنی تقریروں اور بیانات میں زیادہ شدت اختیار کر لی ہے۔ پہلے ان کے نشانے پر موجودہ حکومت خصوصاً وزیراعظم شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کی قیادت تھی‘ اب ان کا فوکس ادارے ہیں۔ عمران خان موجودہ حکومت کو ناجائز‘ غاصب اور سازش کی پیداوار قرار دیتے ہیں‘ حالانکہ یہ حکومت آئین میں درج تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے وجود میں آئی‘ بلکہ عمران خان اور ان کی پارٹی کے بعض ساتھی جیسا کہ سابق سپیکر اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی بالترتیب اسد قیصر اور قاسم سوری کوآئینی اور جمہوری طریقے میں جان بوجھ کر رکاوٹ بننے کا ملزم تصور کیا جاتا ہے ‘ لیکن اپنے بیانیے میں سابق وزیراعظم پارلیمانی جمہوریت کے اصولوں اور آئین کی دفعات کے تحت لیڈر آف دی اپوزیشن شہباز شریف کے آئینی طریقے سے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے پر ناراض ہیں۔
دنیا بھر کی پارلیمانی جمہوریتوں میں لیڈر آف دی اپوزیشن کو ایک شیڈو کابینہ کے ساتھ 'وزیراعظم اِن ویٹنگ‘ کہا جاتا ہے اور جب حکمران پارٹی کسی وجہ سے ایوان میں اکثریت کھو دے تو وہ برسر اقتدار رہنے کے حق سے محروم ہو جاتی ہے اور آئین اپوزیشن کو تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے حکومت تشکیل دینے کا حق دیتا ہے‘ لیکن عمران خان صاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ شہباز شریف وزیراعظم بن جائیں گے‘ حالانکہ شہباز شریف 2018ء سے لیڈر آف دی اپوزیشن تھے اور پارلیمانی جمہوریت کے اصولوں کے تحت وہ کسی وقت بھی پاکستان کے وزیراعظم بن سکتے تھے‘ مگر عمران خان صاحب کے بیان کو سامنے رکھتے ہوئے غور کریں کہ 22 کروڑ آبادی والے ملک کا (سابق) وزیراعظم پارلیمانی سیاست کی تاریخ‘ اس کے اصول‘ روایات اور آئین کی دفعات سے کس قدر ناآشنا ہے۔
دنیا کے ہر ملک میں فوج حکومت کا ماتحت ادارہ ہوتا ہے اور آئین اور قانون میں اس کے درج فرائض کے مطابق ہر حکومت کے حکم کی پابندی اس پر لازمی ہے۔ سرحدوں کے پار سے جارحیت کا خطرہ ہو یا اندرون ملک آفات یا خطرات‘ فوج ہر حکومت کی کال پر آگے آنے اور مدد فراہم کرنے کی پابند ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج نے ہمیشہ ان چیلنجز کا مقابلہ کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ قومی اتحاد و یگانگت اور سالمیت کے لیے آئین اور قانون کے مطابق جائز اور قانونی حکومت کے احکامات تسلیم کرتی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو ریاست کی بقا خطرے میں پڑ سکتی ہے لیکن خان صاحب چاہتے ہیں کہ ادارے حکومت مخالف رویہ اختیار کریں۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ جو اداروں کو حکومت مخالف رویہ اختیار کرنے کا کہہ رہے ہیں وہ ساڑھے تین سال تک بڑے فخر سے اعلان کرتے رہے کہ ان کی حکومت اور ادارے ایک پیج پر ہیں‘ حالانکہ ادارے ہمیشہ حکومت کے ماتحت ہوتے ہیں اور پارلیمانی نظام میں حکومت‘ جس کا سربراہ یعنی وزیر اعظم قائد ایوان ہوتا ہے‘ ریاست کے تمام اختیارات آئین کے مطابق استعمال کرنے کا حق رکھتی ہے۔ اس اصول کا دوسرا نام پارلیمانی بالادستی ہے جو کہ پارلیمانی نظام کی سب سے بڑی اور اہم خصوصیت ہے۔ جو بھی اداروں سے حکومت کے ساتھ تعاون اور امداد سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کرتا ہے وہ دراصل ریاست مخالف بیانیہ اپناتا ہے کیونکہ پروفیسر لاسکی نے اپنی مشہور تصنیف ''گرامر آف پالیٹکس‘‘ میں لکھا ہے کہ موجودہ دور میں ریاست اور حکومت میں کوئی فرق نہیں‘ حکومت نہ صرف ریاست کے اغراض و مقاصد حاصل کرنے کا ذریعہ ہے (اور ان مقاصد میں ریاست کا تحفظ اور عوام کی فلاح و بہبود سب سے اہم ہیں) بلکہ عوام کی طرف سے دیے گئے مینڈیٹ کے تحت ان مقاصد کے حصول کے لیے ریاست کے تمام (تقریباً لامحدود) اختیارات استعمال کر سکتی ہے اور مقتدرہ ان اختیارات کے استعمال کا ایک ذریعہ (Tool) ہے۔
عمران خان صاحب نے اداروں پر جانبداری کا الزام عائد کیا اور اپنے جلسوں میں ایسے بیانات دیے جن سے نظام عدل پر دبائو کی کوشش کا صاف تاثر ملتا تھا۔ اب عمران خان نے انہیں سنگل آئوٹ کیا ہے جنہیں وہ‘ نیوٹرلز‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ اسلام آباد پریڈ گرائونڈ میں جلسہ عام سے خطاب میں انہوں نے جو کچھ کہا اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک کہ وہ اپنی غیر جانبداری ختم کرکے حکومت کے خلاف ان کی صف میں شامل نہ ہوں حالانکہ مسلح افواج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ سیاست سے فوج کا کوئی لینا دینا نہیں۔ کیا عمران خان اداروں کو غیر جانبداری ترک کرنے پر زور دے کر انہیں سیاست میں مداخلت کی دعوت نہیں دے رہے؟ اور کیا یہ آئین اور قانون کی خلاف ورزی نہیں؟
ایک ایسے موقع پر جب ملک کی تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں نے پاکستان کی75 سالہ تاریخ سے سبق سیکھا ہے اور ایک متفقہ موقف اختیار کیا ہے کہ اداروں کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے‘ اوراداروں نے بھی سیاست میں غیر جانبدار رہنے کا عہد کیا ہے‘ عمران خان صاحب واحد سیاسی لیڈر ہیں جو مضمرات کا احساس کئے بغیر انہیں غیر جانبداری ترک کر کے سیاست میں مداخلت کی دعوت دے رہے ہیں۔ کیا یہ ملک اور قوم کے مفادات کے خلاف نہیں؟ مگر خان صاحب اس کی پروا کیے بغیر اپنے بیانیے کو ہر پبلک فورم پر پورے شدومد سے بیان کر رہے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں احتجاجی ریلیاں‘ مظاہرے اور تحریکیں سیاسی افق پر سرگرم رہی ہیں‘ مگر ان کا ٹارگٹ سیاسی پارٹیاں‘ حکومت یا حکمران رہے ہیں۔ 1954ء میں مشرقی بنگال میں عوامی لیگ کی قیادت میں تشکیل پانے والے سیاسی اتحاد کا ٹارگٹ پاکستان مسلم لیگ تھی۔ انہوں نے مشرقی حصے میں مسلم لیگ کا صفایا کر دیا۔ 1958ء کے مارشل لاء سے پہلے صوبہ سرحد (موجودہ کے پی ) کے مردِ آہن خان عبدالقیوم خان نے جہلم سے راولپنڈی تک ایک ریلی نکالی تھی۔ اس ریلی کا ٹارگٹ صدر اسکندر مرزا کی ریشہ دوانیاں تھیں۔ 1968-69ء کی عوامی تحریک کا ٹارگٹ ایوب خان اور ان کا غیر جمہوری نظام تھا اور 1982ء کی تحریکِ بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) کا ایجنڈا ضیا الحق کی آمرانہ حکومت کا خاتمہ تھا۔ ان سب کا مقصد جمہوریت کی بحالی تھا‘ مگر خان صاحب کی اس تحریک کا سارا زور ایک آئینی طریقے سے قائم ہونے والی حکومت کو ہٹا کر اپنی حکومت کی بحالی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ جب تک انہیں اس مقصد میں کامیابی نہیں ہوتی ملک میں سیاسی بحران جاری رہے گا۔