دنیا میں علاقائی تعاون برائے ترقی کے مقصد کے تحت قائم ہونے والی کامیاب بین الاقوامی تنظیموں کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ان میں یورپین یونین (EU) اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کی تنظیم ''آسیان‘‘ (ASEAN) کے نام نمایاں ہیں‘ لیکن آج سے 21 برس قبل قائم ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) ایک منفرد حیثیت کی حامل ہے۔ بین الاقوامی سیاست میں جتنی تیزی کے ساتھ اس تنظیم کے پروفائل میں اضافہ ہوا‘ وہ کسی اور کے حصے میں نظر نہیں آتا۔ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد 2001ء میں جب روس‘ چین اور وسطی ایشیا کی چار ریاستوں نے چین کے شہر شنگھائی میں اس تنظیم کی بنیاد رکھی تھی تو اس کی رکنیت صرف چھ ملکوں پر مشتمل تھی‘ لیکن ازبکستان کے تاریخی شہر سمر قند میں منعقد ہونے والی 22ویں سربراہی کانفرنس کے بعد اس کے مستقل رکن ممالک کی تعداد نو ہو گئی کیونکہ ایران کو بھی اس تنظیم کے مستقل ارکان کی صف میں شامل کر لیا گیا۔ نو مستقل اراکین کے علاوہ‘ ایس سی او کے اجلاس میں چار ایسے ممالک بھی شرکت کرتے ہیں جنہیں ''مبصر ریاستوں‘‘ (Observer States) کا درجہ حاصل ہے۔ ان ممالک میں افغانستان‘ایران‘ بیلاروس اور منگولیا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ چھ ایسے ممالک بھی ہیں جنہیں ڈائیلاگ پارٹنر کہا جاتا ہے۔ ان میں آرمینیا‘ آذربائیجان‘ کمبوڈیا‘ نیپال‘ سری لنکا اور ترکیہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ قطر‘ مصر اور سعودی عرب کے ساتھ بھی ڈائیلاگ پارٹنرشپ پر بات چیت چل رہی ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیم سمجھی جاتی ہے کیونکہ اس میں شامل ممالک کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا 40 فیصد ہے۔معاشی لحاظ سے اس کی اہمیت کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کا 30 فیصد حصہ اس تنظیم کے رکن ممالک میں پیدا ہوتا ہے۔ ابتدا میں اس تنظیم کو وسیع رقبے اور آبادی کے ممالک مثلاً روس‘ چین اور وسطی ایشیا جیسے ممالک کی تنظیم سمجھا جاتا تھا لیکن 2017ء میں پاکستان اور بھارت کی شمولیت کے بعد اس کی سرحدیں اب شمال مغرب میں بحیرہ عرب‘ جنوب میں بحر ہند اور شمال مشرق میں خلیج بنگال کے پانیوں کو چھوتی ہیں۔ ایران کی شمولیت کے بعد ایس سی او کا حلقۂ اثر مغربی ایشیا اور خلیج فارس تک پھیل گیا ہے۔ قطر‘ سعودی عرب اور مصر کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے نتیجے میں ایس سی او کی موجودگی پورے مشرق وسطیٰ بلکہ شمالی افریقہ (المغرب) میں بھی محسوس کی جائے گی۔ ایس سی او کو مشرق کا ''نیٹو‘‘ کہا جانے لگا ہے کیونکہ اس کے نو مستقل اراکین میں سے چار (روس‘ چین‘ پاکستان اور بھارت) ایٹمی ہتھیاروں کے مالک ہیں۔ دنیا میں سب سے بڑی فوج رکھنے والے پہلے دس ممالک میں پہلے اور دوسرے نمبر پر ایس سی او کے دو مستقل رکن ممالک (چین اور بھارت) اور چھٹے نمبر پر پاکستان آتا ہے۔
سمرقند میں ایس سی او کی 22ویں سربراہی کانفرنس بلا شبہ کئی لحاظ سے خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ گزشتہ فروری میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد روس کے صدر ولادیمیر پوتن اور چین کے صدر شی جن پنگ کے درمیان ملاقات کا یہ پہلا موقع تھا۔ دونوں رہنماؤں نے کانفرنس کے باقاعدہ انعقاد سے پہلے ملاقات میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون‘ حمایت اور سٹرٹیجک پارٹنرشپ کو فروغ دینے کا عہد کیا۔ یوکرین کے مسئلے پر امریکہ کی جانب سے روس کودنیا میں الگ تھلگ کرنے اور تائیوان کے سلسلے میں چین کے خلاف امریکہ کی اشتعال انگیز کارروائیوں کے تناظر میں روس اور چین کے سربراہوں کی یہ ملاقات اہم عالمی سیاسی مضمرات کی حامل ہے۔ سربراہی کانفرنس کا بلا شبہ سب سے اہم فیصلہ ایران کو تنظیم کی مستقل رکنیت عطا کرنا ہے۔ ایران اس سے قبل تنظیم کے اجلاس میں بطور مبصر شرکت کرتا تھا مگر مستقل رکنیت کیلئے بھی درخواست دائر کر رکھی تھی‘ لیکن تنظیم کے باقی مستقل اراکین اس کی درخواست قبول کرنے میں اس لیے تامل سے کام لے رہے تھے کہ تہران پر بین الاقوامی اقتصادی پابندیاںعائد تھیں۔ ایران پر امریکہ کی طرف سے عائد پابندیاں اب بھی قائم ہیں‘ ان کی موجودگی میں ایران کو مستقل رکنیت دینے کا مطلب یہ ہے کہ ایس سی او ایران پر پابندیوں کو تسلیم نہیں کرتی۔ امریکہ کی طرف سے اقتصادی پابندیوں کے ذریعے ایران پر دباؤ جاری رکھنے کی جو کوششیں جاری ہیں‘ ایران کی ایس سی او میں ایک مستقل رکن کی حیثیت سے شمولیت سے ان کو ایک بڑا دھچکا لگا ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ فیصلہ صدر جو بائیڈن کی اس حکمت عملی پر کاری ضرب ہے جس کے تحت انہوں نے سعودی عرب کے دورے کے دوران مشرق وسطیٰ میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے آگے بند باندھنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن گزشتہ دہائیوں میں ایران اور چین کے باہمی تعلقات میں اضافہ ہوتا گیا ہے۔ جن شعبوں میں دونوں ملکوں نے اپنے دو طرفہ تعلقات کو وسعت دی ہے ان میں تجارت‘ سرمایہ کاری‘ انفراسٹرکچر کی تعمیر اور توانائی شامل ہیں۔ گزشتہ مارچ میں چین اور ایران نے ایک 25 سالہ معاہدے پر دستخط کیے جن کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی‘تزویراتی اور معاشی شعبوں میں تعاون کو فروغ دینا ہے۔ چین اس وقت ایرانی تیل کا نمبر ون خریدار اور ٹریڈنگ پارٹنر ہے۔ ایس سی او میں باقاعدہ شمولیت کے بعد چین اورایران کے درمیان نہ صرف تجارت‘ سرمایہ کاری اور توانائی کے شعبوں میں تعاون کے فلڈ گیٹس کھل جائیں گے بلکہ علاقائی تعاون اور سیاسی شعبے میں ایک دوسرے کا ساتھ دینا اور بھی آسان ہو جائے گا۔ اس ضمن میں نہ صرف چین بلکہ تنظیم کے چند دیگر رکن ممالک کی توقعات میں ایران کے ذریعے افغانستان میں طالبان حکومت کی پالیسیوں اور رویے پر اثر انداز ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ایران کے ہمسایہ ممالک بشمول چین اور روس کو خدشہ ہے کہ گزشتہ سال اگست میں اقتدار میں آنے والی طالبان حکومت ملک میں القاعدہ‘ داعش اور دیگر دہشت گرد گروپوں کی سرگرمیوں کو روکنے میں ناکام رہی ہے اور افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرنے والے ہمسایہ ممالک کیلئے خطرے کا باعث بن رہے ہیں۔ ایس سی او کی مستقل لیڈرشپ کو یقین ہے کہ ایران طالبان حکومت کو ان دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی پر آمادہ کر سکے گا۔
جیسا کہ سمرقند سے حاصل ہونے والی اطلاعات سے ثابت ہوتا ہے‘ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں پاکستانی وفد کو کانفرنس‘ خصوصاً روس اور چین کی قیادت کی طرف سے نمایاں پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس کی وجہ ملک میں حالیہ سیلاب کی لائی ہوئی وسیع تباہی ہے۔ وزیر اعظم نے نہ صرف اس موقع پر روسی صدر پوتن اور چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقاتیں کیں بلکہ کانفرنس میں شرکت کی غرض سے آنے والے ایران‘ ترکیہ اور دیگر ممالک کے سربراہان سے ملاقاتیں بھی کیں۔ روس اور چین‘ دونوں ملکوں کے صدور نے وزیر اعظم شہباز شریف کو اپنے ہاں دورے کی دعوت بھی دی۔ یہ اطلاعات ہیں کہ وزیر اعظم نومبر میں چین کا دورہ کر رہے ہیں۔
موجودہ تباہ کن سیلاب کی وجہ سے پاکستان کو اس وقت جن غیر معمولی مشکلات کا سامنا ہے‘ ان پر قابو پانے کے حوالے سے کانفرنس میں شریک سربراہان مملکت نے نہ صرف پاکستان سے ہمدردی کا اظہار کیا اور ہر ممکن امداد کا یقین دلایا بلکہ حکومت پاکستان کی کوششوں خصوصاً وزیر اعظم شہباز شریف کی شب و روز محنت کی تعریف کی۔ بین الاقوامی برادری اور تمام بین الاقوامی ادارے‘ جن میں اقوام متحدہ‘ یونیسف‘ WHO اور WFP شامل ہیں‘ موجودہ سیلاب کی تباہ کاریوں پر خدشات کا اظہار کر رہے ہیں اور امداد کی فراہمی کیلئے دنیا بھر سے اپیل کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے سیلاب زدگان کی امداد کیلئے نہ صرف عالمی ادارے بلکہ تمام بڑے ممالک‘ جن میں امریکہ جاپان‘ چین‘ مشرق وسطیٰ‘ خلیج فارس‘ وسطیٰ ایشیا اور یورپی ممالک شامل ہیں‘ پاکستان کو امداد فراہم کرنے میں مصروف ہیں۔