"DRA" (space) message & send to 7575

سیلاب اور عالمی برادری

ایک دوسرے پر انحصار (inter-dependence) گزشتہ تقریباً چار سو برس سے قائم چھوٹی بڑی تقریباً دو سو ریاستوں پر مشتمل بین الاقوامی نظام کی سب سے اہم خصوصیت ہے۔ اس اصول کی بنیاد اس حقیقت پر ہے کہ قوموں کو درپیش مسائل اتنے پیچیدہ اور گمبھیر ہیں کہ کوئی ملک‘ خواہ وہ کتنے ہی وسائل کا مالک کیوں نہ ہو‘ اکیلے ان مسائل پر قابو نہیں پا سکتا۔ تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے ترقی پذیر اور غریب ممالک کی حالت اور بھی قابلِ رحم ہے۔ وہ اپنے عوام کو ترقی کے ثمرات مہیا کرنے کیلئے پہلے ہی ترقی یافتہ اور امیر ملکوں کی امداد پر انحصار کرتے ہیں اور اگر قدرتی آفات مثلاً زلزلہ یا سیلاب کا شکار ہو جائیں تو بین الاقوامی برادری کی طرف سے ہنگامی بنیادوں پر پہنچائی جانے والی امداد انتہائی اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔
پاکستان اس برس مون سون کی بارشوں سے پیدا ہونے والے سیلاب سے قبل 2005ء میں آزاد کشمیر اور ملک کے شمالی علاقوں میں زلزلے اور 2010ء میں سیلاب کی صورت میں تباہ کن قدرتی آفات کا سامنا کر چکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان دونوں مواقع پر پاکستان کے مخیر‘ صاحبِ حیثیت اورعام لوگوں نے بھی آفت زدگان کی دل کھول کر مدد کی‘ لیکن ان قدرتی آفات پر بیرونی امداد کے بغیر قابو نہیں پایا جا سکتا تھا‘ اس لیے 2005ء اور 2010ء‘ دونوں مواقع پر پاکستان میں ان قدرتی آفات سے پہنچنے والے نقصانات پر قابو پانے کیلئے دوست ملکوں کے علاوہ بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں نے بھاری امداد فراہم کی‘ مگر اس دفعہ بین الاقوامی برادری کا رسپانس نہ صرف سست بلکہ ضرورت سے کہیں کم ہے‘ بلکہ امریکہ کے ایک اہم رہنما کے مطابق‘ سیلاب نے پاکستان میں جس قدر تباہی مچائی ہے اس کی فوری اور طویل المیعاد بنیادوں پر تلافی کرنے کیلئے جو فنڈز درکار ہیں‘ ان کے مقابلے میں بین الاقوامی برادری اور اداروں نے اب تک جتنے کا وعدہ کیا ہے‘ ان کی حیثیت قطرے کے برابر ہے۔
2010ء کے سیلاب نے بھی پاکستان کے چاروں صوبوں کو متاثر کیا ‘ مگر متاثر ہونے والے کل اضلاع کی تعداد 78 تھی اور دو کروڑ کے قریب لوگوں کے گھروں‘ فصلوں‘ مویشیوں اور دیگر ضروری گھریلو سامان کو نقصان پہنچا تھا۔ موجودہ سیلاب نے ملک کے چاروں صوبوں کے 116 اضلاع میں تباہی مچائی ہے اور تین کروڑ تیس لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ ''پاکستان مون سون فلڈز 2020-22ء کی سچوایشن رپورٹ نمبر6 (16 ستمبر 2022ء) کے مطابق اس سیلاب کی وجہ سے 76 لاکھ لوگ بے گھر ہو گئے ہیں اور انہیں عارضی طور پر کہیں بسانا ہو گا‘ جہاں رہائش کے علاوہ ان کی خوراک‘ علاج معالجہ اور دیگر ضروریات کا انتظام بھی کرنا پڑے گا۔ ملک بھر میں 12700 کلو میٹر سڑکیں تباہ ہو چکی ہیں اور 375 پُل ایسے ہیں جن میں سے اکثر مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں یا انہیں اتنا نقصان پہنچ چکا ہے کہ وہ استعمال کے قابل نہیں رہے۔ سب سے زیادہ نقصان سندھ میں ہوا ہے جہاں آٹھ ہزارکلومیٹر سڑکیں اور 65 پل تباہ ہو چکے ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کی 16 ستمبر تک کی رپورٹ کے مطابق ملک میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 1500 سے بڑھ چکی ہے جبکہ 12800 افراد سیلاب کے دوران مختلف حادثات میں زخمی ہوئے ہیں۔ ہلاک شدگان میں 552 بچے بھی شامل ہیں۔ زخمی ہونے والے بچوں کی تعداد چار ہزار سے زائد ہے۔ ہلاک شدگان‘ جن میں بچے بھی شامل ہیں‘ میں سے بیشتر کا تعلق سندھ سے ہے۔ اس کے بعد بلوچستان اور کے پی کا نمبر آتا ہے۔ سب سے کم تعداد پنجاب کی ہے کیونکہ اس کے صرف تین اضلاع متاثر ہوئے ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق پورے ملک میں سیلاب سے ستائیس ہزار سکولوں کو نقصان پہنچا ہے۔ زراعت کے شعبے میں پہنچنے والے نقصانات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ20 لاکھ ایکڑ پر کھڑی فصلیں سیلابی پانی میں بہہ گئی ہیں۔
اگرچہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پاکستان میں موجودہ سیلاب پر بین الاقوامی ردِ عمل شروع میں سست تھا مگر اب بین الاقوامی ادارے اور دوست ممالک کی طرف سے پاکستان کی امداد کیلئے اہم اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو درپیش صورتحال سے آگاہ کرنے اور زیادہ سے زیادہ ملکوں کو امدادی سامان فراہم کرنے پر آمادہ کرنے میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل‘ جنہوں نے ستمبر کے پہلے ہفتے میں پاکستان کا دورہ کیا تھا‘ نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس دورے پر روانہ ہونے سے پہلے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کی سفارش پر اقوام متحدہ نے پاکستان میں سیلاب سے پہنچنے والے نقصانات کی تلافی اور متاثرین کی امداد کیلئے 160 ملین ڈالر کی امداد کی اپیل کی تھی‘ لیکن پاکستان پہنچ کر جب انہوں نے سندھ اور بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور وزیراعظم شہباز شریف اور حکومتِ پاکستان کے دیگر حکام اور اداروں سے سیلاب سے پہنچنے والے نقصانات کی تفصیلات معلوم ہوئیں‘ تو انہوں نے عالمی برادری سے پاکستان کی فوری اور بھاری امداد کی اپیل کی۔پاکستان کیلئے روانہ ہونے سے قبل انہوں نے 10 بلین ڈالر نقصان کا اندازہ لگایا تھا مگر اصل نقصان اور پھر نقصانات کی تلافی کرتے ہوئے لوگوں اور معیشت کی بحالی پر جو خرچ آئے گا وہ 30 سے 40 بلین ہو سکتا ہے۔ اس بات کا احساس کرتے ہوئے کہ پاکستان کی پہلے سے کمزور معیشت اتنے بڑے نقصان کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہو سکتی‘ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے پاکستان کیلئے قرضوں کی ادائیگی میں سہولت کی سفارش کی۔ پاکستان صرف پانی میں نہیں ڈوبا ہوا بلکہ قرضوں کے بوجھ تلے بھی دبا ہوا ہے‘ اس لیے قرض خواہ ملکوں اور اداروں کو چاہیے کہ وہ پاکستان کو بیرونی قرضوں کے بوجھ سے نکالنے کی کوشش کریں۔ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے پوری دنیا کے سامنے پاکستان کا کیس پیش کرتے ہوئے اپنے خطاب میں سیکرٹری جنرل نے کہا کہ پاکستان میں حالیہ سیلاب سے جو وسیع نقصان ہوا ہے‘ ملک میں اس کی تلافی کی سکت نہیں‘ اس لیے وہ ممالک‘ جن کی صنعتی پالیسیوں کی وجہ سے یہ غیر معمولی موسمی تغیر آیا ہے ‘ کیلئے لازم ہے کہ وہ پاکستان کی امداد کو پہنچیں۔ سیکرٹری جنرل گوتریس کی طرف سے جذباتی اپیل کا اثر یہ ہوا ہے کہ دنیا کے مزید ممالک نے بھی پاکستان میں سیلاب زدگان کے ریلیف کیلئے سامان بھیجنا شروع کر دیا ہے‘ بلکہ آئی ایم ایف اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے بھی پاکستان کیلئے امدادی پیکیج کا وعدہ کیا ہے۔ پاکستان کو قرضہ دینے والے ممالک نے بھی پاکستان کے مسائل کا اندازہ لگاتے ہوئے ملک کیلئے فوری طور پر اور مستقل بنیادوں پر سیلاب زدگان کی امداد‘ بحالی‘ انفراسٹرکچر کی تعمیرِ نو کیلئے امداد پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
سب سے اہم تبدیلی یہ آئی ہے کہ ڈبلیو ایچ او اور یونیسیف کی طرف سے بھی سیلاب کے بعد بیماریوں سے لوگوں کو بچانے‘ بالخصوص بچوں کو خوراک اور ضروری ادویات پہنچانے کیلئے سرگرمی سے عمل ہو رہا ہے۔ پاکستان اس وقت بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنتا جا رہا ہے ‘پاکستان کے مسائل کی جانب توجہ مبذول کروانے میں جہاں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور دوست ممالک کے سربراہان کا ہاتھ ہے وہاں پاکستان کی وفاقی حکومت خصوصاً وزیر اعظم شہباز شریف کی انتھک کوششوں کا بھی اہم کردار ہے۔ انہوں نے سیلاب زدگان کی امداد‘ دلجوئی اور تسلی کیلئے ملک کے چاروں صوبوں میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورے کئے اور متاثرین سے ملاقاتیں کیں۔ یہ صحیح ہے کہ عالمی برادری نے اپنا رسپانس دیر میں شروع کیا اور اس کی رفتار بھی سست رہی‘ مگر اس کی وجہ وہ نہیں جس کا دعویٰ ہمارے ہاں بعض سیاستدان سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے کرتے ہیں‘ بلکہ دو ڈھائی سال کی کورونا وبا اور یوکرین کی جنگ نے عالمی معیشت پر جو برے اثرات چھوڑے ہیں‘ پاکستان کیلئے عالمی برادری کی امداد بھی اس سے متاثر ہوئی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں