وزیراعظم شہباز شریف کی سرکردگی میں قائم پی ڈی ایم کی مخلوط وفاقی حکومت کے سیاسی مخالفین اسے جن القابات سے پکارتے ہیں‘ ان میں ایک 'غاصب حکومت‘ بھی ہے۔ حکومت کے مقابلے میں کھڑی اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے حکومت کو امپورٹڈ‘ ناجائز اور غاصب کے ناموں سے پکارنے کا رویہ قابلِ فہم ہے کیونکہ یہ سیاست کا ایک حصہ ہے اور جیسا کہ مشہور جرمن سٹریٹجک تھنکر کلازوِٹز (Clausewitz) نے کہا تھا کہ جنگ اور سیاست میں کوئی فرق نہیں‘ صرف طریقے جدا جدا ہیں۔ جنگ کی طرح سیاست میں بھی ہر طریقہ جائز ہے کیونکہ اصل اہمیت مقصد کی ہے‘ طریقوں کی نہیں‘ لیکن انہی القابات سے جب ایسے ناقدین حکومت کو نوازتے ہیں جن کا بظاہر اس لڑائی میں کوئی براہِ راست سٹیک نہیں‘ اور وہ تاریخ‘ سیاست‘ آئین اور قانون سے بھی بخوبی آگاہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں‘ تو حیرانی ہوتی ہے۔
یہ حقیقت بالکل عیاں ہے کہ رواں سال اپریل میں ملک میں حکومت کی تبدیلی کسی بیرونی مداخلت یا اندرونی سازش کے ذریعے واقع نہیں ہوئی بلکہ آئین میں دیے گئے طریقے پر صاف اور شفاف عمل کے ذریعے اقتدار ایک سیاسی پارٹی سے دوسری سیاسی پارٹیوں کو منتقل ہوا۔ آئین کے آرٹیکل 95 میں درج اس طریقے یعنی تحریک عدم اعتماد کی بنیاد اس اصول پر ہے کہ اگر عوام کو حکومت تشکیل دینے کا حق ہے تو اسے تبدیل کرنے کا بھی انہیں حق حاصل ہے۔ آئین کے آرٹیکل 95 میں بتایا گیا ہے کہ عوام اسمبلی میں اپنے اس آئینی اور قانونی حق کو کیسے استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ خالصتاً ایک نمبر گیم ہے‘ جس میں تبدیلی کی خواہاں اپوزیشن کو ثابت کرنا پڑتا ہے کہ ایوان میں برسر اقتدار پارٹی‘ حکومت میں رہنے کے اپنے حق یعنی اراکینِ ایوان کی اکثریت کی حمایت سے محروم ہو چکی ہے اور اپوزیشن کو حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرکے ایوان میں اپنی اکثریت ثابت کرنے اور اس طرح حکومتی بنچوں پر بیٹھنے کا حق حاصل ہے۔
یہاں اس بات کو واضح کرنا ضروری ہے کہ پارلیمانی جمہوری نظام‘ جو ہمارے آئین کی بنیاد ہے‘ کے تحت اپوزیشن کو یہ حق روزِ اول سے حاصل ہوتا ہے۔ اس پر مدت یا وقت کی کوئی قید نہیں۔ اپوزیشن اگر چاہے تو حکومت کے خلاف تشکیلِ حکومت کے اگلے دن ہی تحریک عدم اعتماد پیش کر سکتی ہے۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ اپوزیشن کا حکومت کے بارے میں اکثریت کھو جانے کا دعویٰ ہمیشہ درست ہو‘ بعض اوقات اپوزیشن اس یقین کی بنیاد پر کہ حکومت ایوان میں اکثریت کھو چکی‘ حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کر دیتی ہے مگر حکومت اپنے حامی اراکین کو ساتھ ملانے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور گنتی کے موقع پر اپوزیشن کے دعوے کو جھوٹا اور اپنی اکثریت ثابت کرکے تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنا دیتی ہے۔ 1989ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی ناکامی اس کی ایک مثال ہے۔
پی ڈی ایم کا قیام ستمبر 2020ء میں عمل میں آیا تھا اور اپنے قیام کے موقع پر 10 پارٹیوں کے اس اتحاد نے جو 27 نکاتی اعلان جاری کیا تھا‘ اس میں وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو اقتدارسے الگ کرنے کیلئے آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر آپشن‘ جس میں تحریک عدم اعتماد بھی شامل تھی‘ کے استعمال کی گنجائش تھی۔ صرف ٹائمنگ پر جھگڑا تھا۔ اتحاد میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی کا اصرار تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کو اقتدار سے الگ کرنے کا عمل تحریک عدم اعتماد کے ذریعے شروع کیا جائے اور اس کی ابتدا پنجاب سے کی جائے جہاں ایک طرف (ن) لیگ کے اراکینِ اسمبلی کی بھاری تعداد تھی اور دوسری طرف بزدار کے وزیراعلیٰ ہونے کی وجہ سے خود پی ٹی آئی کی صفوں میں اختلافات میں اضافہ ہو رہا تھا‘ لیکن اتحاد میں شامل سب سے بڑی پارٹی (ن) لیگ کی رائے تھی کہ جب تک کامیابی کا سو فیصد یقین نہ ہو جائے‘ خطرہ مول نہیں لینا چاہیے کیونکہ ناکامی کی صورت میں پی ٹی آئی حکومت اور بھی مضبوط ہو جائے گی۔ (ن) لیگی رہنما تو برملا کہتے تھے کہ جب تک مقتدر حلقے اور پی ٹی آئی ایک پیج پر ہیں‘ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو سکتی۔ خواجہ سعد رفیق کا تو خیال تھا کہ تحریک عدم اعتماد یا احتجاجی مظاہروں کے ذریعے عمران خان کی حکومت کو ہٹانے اور نئے انتخابات کا کیا فائدہ‘ اگر اس بار بھی 2018ء کے انتخابات کی تاریخ دہرائی جانی ہے۔
یاد رہے کہ (ن) لیگ سمیت تمام پارٹیوں نے 2018ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی پر مبینہ دھاندلی کا الزام لگایا تھا۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مولانا فضل الرحمن نے تو قومی اسمبلی کے بائیکاٹ کی تجویز دی تھی‘ لیکن اپوزیشن میں شامل باقی جماعتوں‘ جن میں پی پی پی اور (ن) لیگ بھی شامل تھیں‘ نے مولانا کی اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا اور فیصلہ ہوا کہ جمہوری عمل کے تسلسل کی خاطر‘ پی ٹی آئی حکومت کو اپنے آئینی مدت کے پانچ سال پورے کرنے کا موقع دینا چاہیے۔ یوں متحدہ اپوزیشن نے سسٹم میں ایک سٹیک ہولڈر ہونے کی حیثیت سے شہباز شریف کو لیڈر آف دی اپوزیشن چن لیا لیکن عمران خان شریف اور زرداری خاندان کی مبینہ کرپشن کے جس بیانیے کی بنیاد پر سیاست میں کامیاب ہوئے تھے‘ اقتدار میں آ کر اس پر پوری تندہی اورجوش و خروش سے عملدرآمد کرنا شروع کر دیا۔ مشرف دور میں نیب کو سیاستدانوں کے خلاف استعمال کرنے کیلئے جو غیرمعمولی اختیارات دیے گئے تھے‘ عمران خان نے اپنے پونے چار سالہ دورِ حکومت میں ان کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور نہ صرف (ن) لیگ اور پی پی پی کی اعلیٰ قیادت بلکہ ان کے قریبی ساتھیوں کو بھی طویل عرصے تک نیب کی تحویل میں جیل میں رکھا۔
اپوزیشن خصوصاً (ن) لیگ کو یقین ہونے لگا کہ عمران خان اپنی پہلی مدت ختم ہونے سے قبل کرپشن کے خلاف جہاد کے نام پر اپوزیشن خصوصاً (ن) لیگ کو دیوار سے لگا دیں گے۔ ان کی لیڈرشپ یا تو جیل میں ہو گی یا نواز شریف کی طرح بیرونِ ملک پناہ لینے پر مجبور ہو جائے گی اور یوں دوسری ٹرم کیلئے پی ٹی آئی کی کامیابی کا راستہ صاف ہو جائے گا۔ ان خطرات کے پیش نظر (ن) لیگ نے بھی تحریک عدم اعتماد کے آپشن کو استعمال کرنے پر سنجیدگی سے غور کرنا شروع کر دیا اور جب پی ٹی آئی کی صفوں میں دراڑیں پڑنے کی خبریں منظر عام پر آنا شروع ہوئیں اور اپوزیشن کو جب یہ خبر بھی مل گئی کہ حکومت اور مقتدر حلقے اب ایک پیج پر نہیں ہیں تو انہوں نے 8 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پیش کر دی‘ جس پر آئین میں دیے گئے رولز آف بزنس کے تحت اپریل کے پہلے ہفتے میں قومی اسمبلی میں ووٹنگ ہوئی۔ ہر قدم آئین میں دیے گئے طریقے کے مطابق اٹھایا گیا‘ کہیں آئین سے روگردانی نہیں کی گئی بلکہ سابق سپیکر قومی اسمبلی نے تحریک پر ووٹنگ میں تاخیر کرکے اور سابق ڈپٹی سپیکر نے اختیار کے بغیر تحریک کو رد کرکے آئین کی خلاف ورزی کی جس کا سپریم کورٹ کے ایک پانچ رکنی فل بنچ نے نوٹس لیا اور متفقہ طور پر ان دونوں آفیسرز کے علاوہ سابق وزیراعظم کو بھی جان بوجھ کر آئین پر عملدرآمد کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کا مرتکب قرار دیا۔
تحریک عدم اعتماد آئین کے مطابق پیش ہوئی اور آئین کے مطابق منظور ہوئی۔ اس کی تصدیق سپریم کورٹ کے فل بنچ نے کی۔ سابق وزیراعظم اور ان کی پارٹی موجودہ حکومت کو ''غاصب‘‘ قرار دیتی ہے‘ جسے ملک کے تمام ادارے‘ سول سوسائٹی‘ سیاسی پارٹیاں اور دنیا بھر کی حکومتیں پاکستان کی جائز‘ نمائندہ حکومت تسلیم کرتی ہیں۔ حالیہ سیلاب سے پہنچنے والے نقصانات کی تلافی کیلئے بین الاقوامی برادری نے وزیراعظم شہباز شریف‘ ان کی حکومت اور پاکستانی عوام سے ہمدردی اور ممکنہ امداد فراہم کرنے پر جس طرح آمادگی کا اظہار کیا ہے‘ وہ اس حکومت کے جائز اور قانونی ہونے کی ایک اور دلیل ہے۔