آج کل امریکہ اور مشرقِ وسطیٰ میں اس کے سب سے اہم حلیف ملک سعودی عرب کے درمیان ٹھنی ہوئی ہے۔ صدر جوبائیڈن کے علاوہ ان کی ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے امریکی کانگرس کے متعدد ارکان بھی سعودی عرب کے اس فیصلے سے خوش نہیں جس کے تحت اوپیک پلس ممالک نے خام تیل کی اپنی پیداوار میں بیس لاکھ بیرل یومیہ کی کمی کر دی ہے۔ واشنگٹن کا مؤقف ہے کہ اس فیصلے سے یوکرین کی جنگ میں روس کو فائدہ پہنچے گا کیونکہ اس سے متعدد ممالک‘ جن میں امریکہ کے حامی کئی یورپی ممالک بھی شامل ہو سکتے ہیں‘ روس سے تیل خریدنے پر مجبور ہو جائیں گے اور اس طرح امریکہ کی طرف سے روس کے خلاف اقتصادی پابندیوں کا جو جال بچھایا گیا ہے‘ اس میں سوراخ پیدا ہو جائیں گے۔
امریکہ سعودی عرب کے اس فیصلے پر اتنا ناراض ہے کہ صدر بائیڈن نے تین ماہ قبل سعودی عرب کے دورے کے دوران شاہ سلمان اور محمد بن سلمان کی طرف سے مشرقِ وسطیٰ میں خصوصاً ایران کے خلاف امریکی پالیسی کی حمایت کو بھی نظر انداز کر دیا ہے اور احتیاط کا دامن چھوڑ کر ایک ایسے ملک‘ جس نے لاطینی امریکہ میں امریکہ کے خفیہ فوجی آپریشن کی مالی امداد کے علاوہ عراق کے خلاف خلیج فارس کی پہلی جنگ (1991ء) کا بل بھی ادا کیا تھا‘ کے خلاف معاندانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ صدر جو بائیڈن تو سعودی عرب کی سکیورٹی پر مامور امریکی فوجی دستے اور اینٹی ایئر دفاعی انتظامات‘ جن میں پہلے ہی کافی کمی کر دی گئی ہے‘ کو واپس بلانے کی دھمکی بھی دے چکے ہیں۔ سعودی عرب کو اندرونی طور پر سیاسی عدم استحکام سے بچانے اور بیرونی حملوں کے خلاف اس کے دفاع کیلئے امریکہ نے سعودی عرب میں مختلف مقامات پر اپنے فوجی دستے تعینات کر رکھے ہیں۔ جزیرہ نما عرب کے دیگر مختلف حصوں اور اس کے اردگرد واقع مختلف مقامات مثلاً قطر‘ بحرین‘ ڈیاگو گارشیا میں مقیم امریکی بحریہ‘ فضائیہ اور بری فوج کے دستے بھی بالواسطہ طور پر سعودی عرب کے دفاع کو مضبوط کرتے ہیں۔ پیداوار کم یا زیادہ کرکے عالمی منڈی میں تیل کی سپلائی کو اپنے سیاسی مفاد کے حق میں استعمال کرنے اور مسلم دنیا میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے امریکہ نے سعودی عرب کے ساتھ اپنے خصوصی اور مضبوط تعلقات کو ہمیشہ استعمال کیا ہے۔ تیل کی پیداوار کو کم کرنے کے حالیہ سعودی فیصلے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تلخی کا ایک مخصوص پس منظر اور ایک طویل داستان ہے۔ اس کا حوالہ دیے بغیر تیل کی پیداوار کی حد پر موجودہ امریکہ سعودی عرب تنازع کو صحیح طور پر نہیں سمجھا جا سکتا۔
اگرچہ امریکہ اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان رابطے انیسویں صدی میں ہی قائم ہو گئے تھے مگر ان کی نوعیت زیادہ تر ثقافتی تھی۔ اس کی ایک وجہ تو خود امریکہ کی طرف سے مشرقِ وسطیٰ میں سیاسی اثرورسوخ کے حصول میں عدم دلچسپی تھی کیونکہ امریکہ‘ جو تیزی سے ایک اہم عالمی طاقت بن کر ابھر رہا تھا‘ کی توجہ کا بیشتر حصہ ابھی تک لاطینی امریکہ اور بحرالکاہل کے خطوں پر مرکوز تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ پہلی جنگِ عظیم کے نتیجے میں فاتح اتحادی یورپی ممالک خصوصاً برطانیہ اور فرانس کے درمیان معاہدات کے تحت مشرقِ وسطیٰ ان دو بڑی طاقتوں یعنی برطانیہ اور فرانس کا حلقۂ اثر سمجھا جاتا تھا‘ تاہم خطے میں تیل کی دریافت نے امریکہ کی تیل کمپنیوں کو مشرقِ وسطیٰ کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور کر دیا۔ اس ضمن میں امریکہ نے سعودی عرب سے رابطہ پیدا کیا جس کے ساتھ اس نے باقاعدہ طور پر 1933ء میں سفارتی تعلقات قائم کیے کیونکہ خطے کے دیگر ملکوں مثلاً ایران میں تیل کی دریافت کے بعد اس ''بلیک گولڈ‘‘ کی باقاعدہ تجارت شروع ہو چکی تھی اگرچہ وہ برطانیہ‘ فرانس اور یورپ کے کچھ ممالک سے تعلق رکھنے والی یورپی تیل کمپنیوں کے کنٹرول میں تھی۔
دوسری جنگِ عظیم (1945ء) سے پہلے امریکہ نے مشرقِ وسطیٰ میں تیل کی انڈسٹری اور کاروبار میں اہم جگہ بنائی تھی۔ پہلی کی طرح دوسری عالمی جنگ نے بھی مشرقِ وسطیٰ پر گہرا اثر ڈالا تھا۔ برطانیہ اور فرانس‘ جنہیں دونوں عالمی جنگوں کے درمیانی عرصے میں مشرقِ وسطیٰ پر مکمل کنٹرول حاصل تھا‘ مگر دوسری جنگ میں فاتح بن کر ابھرنے کے باوجود اقتصادی لحاظ سے اتنی کمزور ہو چکی تھیں کہ ان کیلئے اس کنٹرول کو برقراررکھنا مشکل ہو چکا تھا۔ خطے میں عرب قوم پرستی کی ابھرتی ہوئی لہر کا سامنا کرنا ان کے بس کی بات نہیں تھی‘ اس لیے خطے پر ان کی بالا دستی کے خاتمے کا عمل شروع ہوا جس کا آخری سین 1956ء کی سویز جنگ میں برطانیہ اور فرانس کی مصر پر حملہ آور فوجوں کی ذلت آمیز واپسی تھی۔اسی دوران سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہو گیا۔ مشرقِ وسطیٰ اپنے جغرافیائی محل وقوع اور تیل کی دولت کی وجہ سے جلد ہی اس کی لپیٹ میں آ گیا۔ سوویت یونین نے جب اپنا سارا بوجھ عرب قوم پرستی کے پلڑے میں ڈالا تو امریکہ کو بھی اس کے خلاف ردِ عمل کے طور پر خطے میں ایسے ممالک تلاش کرنا پڑے جو عرب قوم پرستی اور کمیونزم کے خلاف اس کے اتحادی ثابت ہو سکتے تھے۔ ایسے ممالک کی صف میں سعودی عرب سب سے نمایاں تھا جو اگرچہ امریکہ کا باضابطہ اتحادی نہیں تھا مگر خطے میں عرب قوم پرستی کے سب سے بڑے لیڈر‘ مصر کے صدر جمال عبدالناصر کا دہائیوں تک سب سے بڑا مخالف رہا۔ اس کے باوجود کہ سعودی عرب نے امریکہ کی سرپرستی میں قائم دفاعی تنظیم'' معاہدۂ بغداد‘‘جو بعد میں ''سینٹو‘‘ کے نام سے مشہور ہوا‘ میں نہ صرف شرکت سے انکار کر دیا بلکہ اس کی مخالفت کی۔ امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات چٹان کی طرح مضبوط رہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی بنیاد باہمی رضا مندی کے ساتھ چند اصولوں پر رکھی گئی تھی۔ ان میں ایک اصول امریکہ کی سعودی عرب کو یہ یقین دہانی تھی کہ اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی جائے گی اور سعودی خاندان کے اقتدار کے تحفظ کی پوری ذمہ داری لی جائے گی۔ اس کے بدلے سعودی عرب امریکہ کو سستا اور بغیر کسی تعطل کے وافر مقدار میں تیل مہیا کرے گا اور اس کی قیمت امریکی ڈالرز میں وصول کی جائے گی۔ سعودی عرب چونکہ خام تیل کی پیداوار اور برآمد میں تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک میں سب سے آگے تھا‘ اس لیے اس کی طرف سے امریکی کرنسی میں تیل کی قیمت وصول کرنے کے فیصلے کے بعد خطے کے باقی ممالک بھی اپنا تیل امریکی ڈالرز میں فروخت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اس طرح سعودی عرب نے نہ صرف امریکہ کو مشرقِ وسطیٰ کی پٹرولیم انڈسٹری میں داخل ہونے کے لیے دروازے کا کردار ادا کیا بلکہ تیل کی قیمت ڈالرز میں قبول کرکے امریکی کرنسی کو دنیا کی سب سے زیادہ مضبوط کرنسی کا مقام حاصل کرنے کا موقع فراہم کرکے امریکی معیشت کو دنیا کی مضبوط ترین معیشت بنا دیا۔
امریکہ انیسویں صدی کے آخر میں ایک عالمی طاقت بن چکا تھا‘ مگر بیسویں صدی میں اسے ایک سپر پاور بنانے میں مشرقِ وسطیٰ سے سستے داموں بغیر کسی تعطل کے توانائی کے حصول کا بہت بڑا کردار ہے۔ اس کی بنیاد امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان 1933ء کے معاہدے پر رکھی گئی تھی۔ اس معاہدے کی اساسی نوعیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج بھی اگر دونوں ملکوں کے درمیان دفاع‘ معیشت‘ تجارت‘ سرمایہ کاری‘ ٹیکنالوجی اور دیگر اہم شعبوں میں تعاون کو مزید وسیع اور گہرا کرنے کیلئے طویل المیعاد سمجھوتے کیے جاتے ہیں تو 1933ء کے اس معاہدے کے فریم ورک کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات ''تیل کے بدلے سکیورٹی‘‘ (Oil for Security) کے اصول پر قائم ہیں۔