27اکتوبر کو ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس آئی کی شرکت اور ان کی طرف سے قومی سلامتی اور اس سے متعلقہ اداروں کے کردار کے بارے میں سوالات کے جواب فراہم کرنا بلاشبہ پاکستان کی تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ ہے۔ ان امور کے بارے میں عام طور پر حکومتی عہدیداروں کی طرف سے وضاحت پیش کی جاتی ہے اس لیے پریس کانفرنس کے بعد سے اب تک اس پر جو بحث جاری ہے یا تبصرے کیے جا رہے ہیں‘ ان میں مختلف سوالات اٹھائے جا رہے ہیں؛ تاہم اس بحث اور ان تبصروں میں پریس کانفرنس کے دوران سوالات کے جواب میں جو مثبت اشارے سامنے آئے ہیں ان کی طرف کم توجہ دی جا رہی ہے۔ ان کا تعلق چونکہ پاکستان میں ایک جمہوری اور نمائندہ حکومت کے تصور پر مبنی نظام کی بقا سے ہے اس لیے ان کی طرف بھی نظر جانی چاہیے اور اب ان کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔ ان میں ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے صاف اور واشگاف الفاظ میں یہ اعلان کہ دیگر اداروں کی طرح فوج بھی حکومت کا ایک ماتحت ادارہ ہے جس کا کام ملک کے آئین اور قانون کے مطابق اپنے فرائض کی انجام دہی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں یہ بھی یقین دلایا گیا کہ اداروں کو سیاست سے الگ کرنے کا فیصلہ ایک سوچا سمجھا اور طویل بحث کا نتیجہ ہے جس میں ایسے افسران کی رائے بھی شامل ہے جو آئندہ 15 سے 20 سال تک ممکنہ طور پر فوج کی قیادت سنبھالیں گے۔ اس لیے یہ ایک عارضی نہیں بلکہ مستقل فیصلہ ہے‘ جسے کسی ایک فرد یا سیاسی جماعت کے لیے نہیں کیا گیا‘ نہ ہی یہ ایک فرد کا فیصلہ ہے‘ بلکہ ادارہ ایک سال کی بحث کے بعد متفقہ طور پر اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ فوج کا کردارغیر سیاسی ہو گا اور اس پر سختی سے عمل کیا جائے گا۔
اس کا یہ ثبوت پیش کیا گیا کہ گزشتہ سال مارچ کے بعد ملک کے کسی سیاسی معاملے‘ خواہ وہ کنٹونمنٹ بورڈ کے ہوں یا ضمنی انتخابات‘ اس میں فوج کی کسی بھی شکل میں مداخلت کا وجود نہیں۔ پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ پچھلے سال فروری میں فیصلہ کیا گیا کہ ہم نے اپنے آپ کو آئینی کردار تک محدود رکھنا ہے۔ یہ ایک فردِ واحد کا فیصلہ نہیں بلکہ بڑی بحث اور غور و فکر کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا۔ یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ فوج پر آئین کے منافی اقدام کیلئے بڑا دباؤ تھا مگر ہم نے طے کیا کہ جو فیصلہ کیا ہے اس پر قائم رہیں گے۔ پاک فوج کے موجودہ سربراہ کے بارے میں کہا گیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ایک ایسی لیگیسی (Legacy) چھوڑیں جو آئینی ہو اور اپنے آپ کو آئینی حدود تک محدود رکھے۔ آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے فوج کے کردار پر بات کرتے ہوئے کہا گیا کہ اگر حکومت آئین کی دفعہ 245 کے تحت مدد کے لیے بلاتی ہے تو ہم ضرور مدد کریں گے‘ کل کو کوئی بھی سیاسی جماعت آئینی طریقے سے حکومت بناتی ہے تو فوج کا فرض ہے کہ اس کی بھی آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے مدد کرے۔ عسکری قیادت اور موجودہ اپوزیشن پارٹی کے سربراہ کے درمیان رابطے اور ڈائیلاگ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا گیا کہ ان ملاقاتوں میں بھی پاک فوج کی طرف سے واضح کیا گیا کہ ہم جو بھی کریں گے‘ آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر کریں گے۔ کوئی ایسا اقدام نہیں کریں گے جو قانون کے دائرے سے باہر ہو۔
اس پریس کانفرنس میں دو سینئر اور اہم عہدوں پر فائز افسران کی باتوں سے تین نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں: پاک فوج میں احساس پایا جاتا ہے کہ ماضی میں آئین اور قانون کے دائرے سے باہر اقدامات اور سیاست میں مداخلت سے نہ صرف ملک اور قوم بلکہ فوج کو بھی نقصان پہنچا ہے اور اب قوم اور ادارے کے مفاد میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس کا کردار غیر سیاسی ہوگا۔ دوسرا‘ پاک فوج وہی اقدامات کرے گی جس کی اجازت آئین اور قانون دیتے ہیں‘ آئین اور قانون کے دائرے سے باہر کوئی اقدام نہیں کیا جا ئے گا‘ اور تیسرا‘ اگر ایک آئینی اور قانونی طریقے سے تشکیل پانے والی حکومت اداروں کو اپنی مدد کے لیے بلاتی ہے تو آئینی اور قانونی حدود میں رہتے ہوئے ادارے ایسی حکومت کی مدد کریں گے‘ خواہ اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو۔ یہ پریس کانفرنس نہ صرف پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران بلکہ آئندہ کے لیے بھی سول ملٹری تعلقات کے بارے میں پاک فوج کی سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات ایک اہم موڑ (Paradigm Shift) پر پہنچ چکے ہیں۔
جب بالواسطہ طور پر یہ تسلیم کیا جائے کہ اندرونی اور بیرونی محاذوں پر پالیسی سازی کا حق آئینی اور قانونی طریقے سے منتخب حکومت کو حاصل ہے اور فوج کا کام اپنے ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کے تجزیے کی بنیاد اپنی رائے دینا ہے مگر فیصلہ کرنا حکومت کا کام ہے‘ تو اس سے کسی حد تک یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ افواج سویلین بالادستی قبول کرنے پر آمادہ ہیں۔ اب گیند سیاسی پارٹیوں کی کورٹ میں ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں اپنا کیا رد عمل پیش کرتی ہیں؟ کیونکہ ایک عرصے سے ملک کی تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں کے درمیان اتفاقِ رائے (Consensus) پایا جاتا ہے کہ اداروں کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور اس کا کردار آئینی اور قانونی دائرے کے اندر ہونا چاہیے۔ یہ زیادہ دور کی بات نہیں‘ سابقہ اپوزیشن اور موجودہ حکمران اتحاد (پی ڈی ایم) میں شامل جماعتوں کا اصرار سب سے زیادہ اس بات پر تھا کہ ملک میں سیاسی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ ہر ادارہ آئینی اور قانونی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دے۔ حکمران اتحاد میں شامل ایک پارٹی کا تو یہ مؤقف تھا کہ جب تک ہر ادارے سے آئین اور قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے اپنے کردار کی ادائیگی پر ضمانت حاصل نہ ہو‘ آئندہ انتخابات کا کوئی فائدہ نہیں۔ اب جبکہ اداروں نے خود اپنے لیے اس قسم کے کردار کا چناؤ کر لیا ہے تو کیا یہ سیاسی پارٹیوں پر لازم نہیں کہ وہ اس تبدیلی کی نہ صرف حمایت کریں بلکہ خیر مقدم کرتے ہوئے ایک گرینڈ ڈائیلاگ‘ جس کی وہ خود تجویز پیش کرتی رہی ہیں‘ کی طرف قدم بڑھائیں تاکہ سول ملٹری تعلقات کو آئین اور قانون کے تابع لایا جا سکے۔ اس سے سیاسی استحکام کی راہ ہموار ہو گی اور ریاست اپنے تحفظ کے ساتھ ساتھ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بھی کام کر سکے گی۔
یہ درست ہے کہ اس پریس کانفرنس کا فوکس سوشل میڈیا پر چلائی کی منفی مہم اور اس کے پیچھے مذموم مقاصد کو عیاں کرنا تھا تاہم سوال جواب کے سیشن میں یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ مسلح افواج اور ان کی قیادت ملک میں تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی محرکات سے آگاہ ہے‘ اور اس آگاہی کی بنیاد پر اس نے اپنے سابقہ اور آئندہ کردار کا جائزہ پیش کیا ہے۔ پوری قوم پریس کانفرنس میں پیش کی جانے والی اس رائے سے اتفاق کرے گی کہ ملک کو اس وقت باہر نہیں بلکہ اندر سے خطرہ ہے اور یہ خطرہ سیاسی عدم استحکام کی صورت میں ہمارے سامنے کھڑا ہے۔ سیاسی عدم استحکام کو پیدا کرنے میں نفرت اور تقسیم کی سیاست کا ہاتھ ہے۔ ماضی میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا حوالہ دیتے ہوئے تسلیم کیا گیا کہ اس کی وجہ بھی نفرت اور تقسیم کی سیاست تھی۔
اب بھی پاکستان میں باہمی احترام‘ برداشت اور اتحاد کے بجائے‘ عدم برداشت‘ نفرت اور تقسیم کی سیاست کو پروان چڑھایا جا رہا ہے اور اس کے نتیجے میں لازمی طور پر ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوگا۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ صرف چند روز پہلے ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ فوج کسی قیمت پر ملک کو عدم استحکام کا شکار نہیں ہونے دے گی۔ 27 اکتوبر کی پریس کانفرنس میں فوج کے دو اعلیٰ افسران نے اپنے آئینی اور قانونی کردار کی وضاحت کرکے ملک میں جمہوریت کی ترقی اور عوام کی فلاح کے لیے اس کی اہمیت کو بیان کر دیا ہے۔