پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کراچی میں منعقدہ ایک حالیہ سیمینار سے آن لائن خطاب میں کہا کہ سیاسی عدم استحکام کی موجودگی میں پاکستان معاشی طور پر ترقی نہیں کر سکتا۔ خان صاحب کے اس بیان پر دو آرا نہیں ہو سکتیں۔ سیاست اور معیشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں معاشی ترقی کی سست رفتاری کی ایک بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے لیکن بات یہیں پہ ختم نہیں ہوتی ہمیں آگے بڑھتے ہوئے یہ پتا چلانا چاہیے کہ اس عدم استحکام کی کیا وجوہات ہیں‘ انہیں کیسے دور کیا جا سکتا ہے اور ملک کی ایک بڑی قومی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے سابق وزیراعظم اس میں خود کیا کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ معیشت کسی ایک پارٹی‘ گروہ یا دھڑے کا نہیں بلکہ قومی مسئلہ ہے۔ اسی لیے یہ کہا جاتا ہے کہ معیشت پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔
معاشی مسائل کے حل یا معیشت کی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کے لیے مختلف سیاسی پارٹیوں کی مختلف اپروچ ہو سکتی ہے لیکن ایسے اقدامات‘ جن کے سبب قومی معیشت کو نقصان پہنچے‘ سے اجتناب کرنا سب پر لازم ہے کیونکہ ان اقدامات کے نتیجے میں کسی ایک حکومت یا سیاسی پارٹی کو نقصان نہیں پہنچتا بلکہ اس سے ریاست کمزور ہوتی ہے اور یہ کیفیت کسی بھی سیاسی پارٹی کے مفاد میں نہیں۔ سیاسی استحکام کو معاشی ترقی کے لیے لازمی قرار دیتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا ہے کہ اسے صرف بلا تاخیر صاف اور شفاف انتخابات سے حاصل کیا جا سکتا ہے‘ مگر ماضی قریب کے تجربات کی روشنی میں یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ انتخابات کے بعد سیاسی استحکام قائم ہو جائے گا۔ 2013ء کے پارلیمانی انتخابات اگرچہ آئیڈیل‘ بے ضابطگیوں اور شکایات سے پاک نہیں تھے مگر انتخابات کے دوران آبزرور کی حیثیت سے کام کرنے والی ملکی اور غیر ملکی تنظیموں کی رپورٹس کے مطابق یہ انتخابات ان سے قبل ہونے والے انتخابات کے مقابلے میں صاف‘ شفاف اور غیر جانبدار تھے۔
انتخابات کے بعد قائم ہونے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومت پارلیمنٹ میں اپنی پوزیشن کے لحاظ سے پوری طرح مستحکم تھی اور اس کے بعض پالیسی اقدامات سے نہ صرف ملک میں سیاسی استحکام مزید مضبوط ہونے کے امکانات پیدا ہو گئے تھے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کا امیج بہتر ہونا شروع ہو گیا تھا۔ ان اقدامات میں سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ تعاون اور شراکت کی بنیاد پر کراچی میں امن و امان کی بحالی کے لیے پولیس اور رینجرز کے مشترکہ آپریشن کا آغاز‘ بلوچستان میں قوم پرست جماعتوں سے مل کر مخلوط صوبائی حکومت کا قیام اور پاک بھارت کشیدگی ختم کرنے اور بھارت کے ساتھ تنازعات کے حل کی راہ ہموار کرنے کے لیے بھارتی حکومت کے ساتھ روابط کا آغاز شامل تھے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان اقدامات کو نہ صرف پاکستان کے عوام کی حمایت حاصل تھی بلکہ بین الاقوامی برادری کا بھی پاکستان پر اعتماد میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اس کا سب سے نمایاں ثبوت چین کی طرف سے 50بلین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کے ساتھ پاکستان میں انفراسٹرکچر اور توانائی کے منصوبوں پر مشتمل سی پیک کی تعمیر کا فیصلہ تھا۔ اس کیلئے معاہدے پر دستخط کرنے کیلئے چین کے صدر شی جن پنگ پاکستان کا دورہ کرنے والے تھے لیکن عین اسی وقت پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا کر وزیراعظم نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا اور اپنے اس مطالبے کو منوانے کیلئے لاہور سے اسلام آباد تک مارچ کے بعد وفاقی دارالحکومت میں 126 دن کا دھرنا دیا۔ اس دھرنے کے دوران کنٹینر سے اپنی تقاریر میں عمران خان نواز شریف اور ان کی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے رہے اور 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگاتے رہے۔
عمران خان کے الزام پر جب ایک جوڈیشل کمیشن نے انتخابی دھاندلیوں کی چھان بین کی تو عمران خان کا الزام غلط نکلا مگر اس الزام کی بنیاد پر ملک ایک سال سے زیادہ عرصہ تک سیاسی بحران کا شکار رہا۔ عمران خان وزیراعظم نواز شریف کا استعفیٰ تو حاصل نہ کر سکے مگر حکومت نے قومی ترقی کے جو منصوبے شروع کرنے کا پروگرام بنا رکھا تھا‘ ان پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ ان میں سی پیک کا منصوبہ بھی شامل تھا۔ جس میں تاخیر سے قومی معیشت کو بھاری نقصان پہنچا۔ لیکن اس کے بعد بھی ملک بدستور سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا۔ معیشت کا پہیہ اور سست ہو گیا کیونکہ عمران خان نے 'پاناما پیپرز‘ کے لیک ہونے کے بعد حکومت کے خلاف دھرنا نمبر 2 شروع کر دیا تھا۔ اس دوسرے راؤنڈ میں بڑے بڑے شہروں میں روڈ بلاک شامل تھے۔ ان روڈ بلاکس کی وجہ سے معیشت کو بھاری نقصان پہنچا۔
2018ء کے انتخابات کے بعد اپوزیشن کی چند جماعتیں قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کرنے کے حق میں تھیں مگر حزبِ اختلاف کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا بلکہ فیصلہ کیا کہ جمہوریت کے ارتقا میں تسلسل کی خاطر انتخابات پر تحفظات کے باوجود حکومت کو اپنی مدت کے پانچ سال پورے کرنے کی اجازت دی جائے۔ میاں محمد شہباز شریف جنہیں قومی اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کا رہنما چن لیا گیا تھا‘ نے حکومت کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے ''میثاقِ معیشت‘‘ کی پیشکش کی مگر وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے اسے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ اپوزیشن خصوصاً پاکستان مسلم لیگ (ن) اس کے بدلے اپنے خلاف کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزام میں درج مقدمات سے نجات چاہتی ہے۔ گزشتہ سات ماہ کے دوران مختلف ذرائع سے نکلنے والی اطلاعات سے ثابت ہوتا ہے کہ اپنے پونے چار سالہ دور حکومت کے دوران سابق وزیراعظم کی تمام تر توجہ اپوزیشن کے خلاف مبینہ کرپشن کے مقدمات کو ان کے منطقی انجام تک پہنچانے پر مرکوز رہی‘ کیونکہ وہ کرپشن کو ملک کو درپیش سب سے اہم مسئلہ سمجھتے تھے۔ اسی لیے ان کے دور میں نہ تو انفراسٹرکچر‘ توانائی‘ پانی کے کسی بڑے منصوبے پر عمل ہو سکا‘ اور نہ ملک کو بیرونی محاذ پر درپیش اہم مسائل کے حل میں کامیابی حاصل ہو سکی بلکہ سی پیک کے پہلے منصوبے کی تکمیل میں تاخیر ہوئی۔ اس کے کئی اہم منصوبوں پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔
اگست 2019ء میں بھارت نے یکطرفہ اقدام کرکے کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کر دی۔ پاکستان کچھ نہ کر سکا۔ بہت سے مبصرین کے نزدیک حکومت کی اس ناکامی کی وجہ اندرونی اتحاد کا فقدان تھا۔ گزشتہ سات ماہ سے ملک سیاسی طور پر جس ہیجان کا شکار ہے‘ سابق وزیر اعظم اس کی وجہ اپریل میں تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے اپنی حکومت کے خاتمہ کو قرار دیتے ہیں‘ مگر اپوزیشن کی طرف سے تحریک عدم اعتمادکو ایک غلط فیصلہ تو کہا جا سکتا ہے مگر آئینی اور قانونی لحاظ سے یہ بالکل جائز ہے‘ لیکن سابق وزیر اعظم عمران خان وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں اور اسے جلد انتخابات کے ذریعے رخصت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ انہی کوششوں کا ایک حصہ ہے‘ حالانکہ آئین اور قانون موجودہ اسمبلیوں کو اپنی مدت کے پانچ سال میں باقی عرصہ تک وجود میں رہنے کا حق دیتے ہیں۔ کیا ایک آئینی اور قانونی طور پر جائز حکومت‘ جس نے آئی ایم ایف پروگرام کو بحال کر کے اور فیٹف کی گرے لسٹ سے نکال کر ملک کی معیشت کو تباہ ہونے سے بچایا ہے‘ کو مارچ اور دھرنوں کے ذریعے اقتدار سے الگ کرنے کا عمل‘ سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے مترادف نہیں؟ اگر عمران خان کے بقول سیاسی عدم استحکام سے معیشت کو نقصان پہنچتا ہے تو اس وقت پاکستان کی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟