چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور آرمی چیف کی تعیناتی کے باقاعدہ سرکاری اعلان کے بعد ان اہم تقرریوں کے بارے میں گزشتہ کئی ماہ سے جاری افواہوں اور قیاس آرائیوں کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ دیگر ممالک کے برعکس وطنِ عزیز میں شروع سے ہی ان دونوں عہدوں‘ خصوصاً چیف آف آرمی سٹاف کی تعیناتی ایک اہم معاملہ رہی ہے۔ اس کی وجہ ہمارے نظام میں ان تقرریوں کو حاصل غیر معمولی حیثیت ہے۔ اگرچہ آئین کے مطابق عسکری اداروں کا کوئی سیاسی کردار نہیں اور وہ مقننہ (پارلیمنٹ)‘ عدلیہ اور انتظامیہ میں سے تیسرے یعنی حکومت کے ماتحت کی حیثیت رکھتے ہیں‘ لیکن پاکستان کے مخصوص تاریخی اور سیاسی پس منظر میں انہیں گزشتہ سات دہائیوں میں ملک کی اندرونی اور بیرونی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کا جو موقع ملا ہے‘ اس کے نتیجے میں ہر حکومت کے لیے اُن کی حمایت اور تعاون کو بنیادی اہمیت حاصل رہی ہے‘ اور اسے یقینی بنانے کے لیے ہر حکومت‘ خواہ وہ جمہوری ہو یا غیر جمہوری‘ اس اہم عہدے پر تعیناتی کرتے وقت متعدد پہلوؤں کو مدنظر رکھتی چلی آ ئی ہے۔
1973ء کا آئین جب تک اپنی اصلی حالت میں رہا‘ چیف آف آرمی سٹاف کا تقرر وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار تھا‘ اگرچہ اس کا باقاعدہ اعلان صدرِ مملکت کے نام پر کیا جاتا تھا کیونکہ ملک کے چیف جسٹس کی طرح آرمی چیف کا عہدہ بھی حکومتی نہیں بلکہ ریاستی ہے‘ لیکن صدر ضیاء الحق اور صدر پرویز مشرف کی طرف سے بالترتیب آٹھویں اور سترہویں آئینی ترامیم کے ذریعے ریاست کے دیگر اہم عہدوں کی طرح چیف آف آرمی سٹاف کی تقرری کو بھی صدر کے صوابدیدی اختیارات میں شامل کر دیا گیا۔ 2010ء میں اٹھارہویں آئینی ترمیم منظور ہونے کے بعد اس اہم تقرری کو ایک دفعہ پھر وزیراعظم کے صوابدیدی اختیار کے تحت کر دیا گیا۔ نئے چیف آف آرمی سٹاف کی تقرری وزیراعظم کے اسی صوابدیدی اختیار کے تحت کی گئی ہے تاہم اس تقرری کے پس منظر میں پیدا ہونے والے واقعات اور تبدیلیوں کے دو اہم سلسلوں نے اس تقرری کو ماضی کے مقابلے میں منفرد بنا دیا ہے‘ اور نئے آرمی چیف سے قوم کوبڑی امیدیں اور توقعات وابستہ ہیں۔
ان اہم واقعات میں ایک پاک فوج کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ آئندہ سیاست میں مداخلت نہیں کر ے گی کیونکہ سبکدوش ہونے والے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باوجوہ کے مطابق پاک فوج پر ماضی میں سیاست میں مداخلت کی وجہ سے تنقید کی جاتی رہی ہے۔ 23نومبر کو جی ایچ کیو راولپنڈی میں یوم دفاع اور یومِ شہداء کے موقع پر اپنے خطاب میں انہوں نے اس مداخلت کو غیر آئینی قرار دیا اور کہا کہ گزشتہ سال فروری میں فوج کی اعلیٰ قیادت نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ فوج آئندہ سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی۔ اس کا اعلان 27اکتوبر کو اپنی پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر بھی کر چکے ہیں‘ لیکن جنرل باجوہ کی طرف سے اس فیصلے پر زور دینے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ فوج اس پر سختی سے عمل کرنا چاہتی ہے۔ نئے آرمی چیف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس فیصلے کے سخت حامی ہیں۔ اس لیے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ پاکستانی فوج کو سیاست سے الگ کرنے کے ارتقائی عمل کو اس کے منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ اس تقرری کو جس طرح سیاسی مسئلہ بنایا گیا‘ وہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ اس سے ملک میں سیاسی اور نظریاتی بنیادوں پر تقسیم اور بھی گہری ہوئی‘ بلکہ ایک نہایت اہم‘ حساس اور غیرسیاسی ایشو کو سیاسی رنگ دیا گیا۔ ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک بڑی سیاسی پارٹی نے وزیراعظم کے اس اختیار کے آئینی اور قانونی حق کو چیلنج کیا۔ سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے 23نومبر کے اپنے الوداعی خطاب میں اس کی مذمت کی اور اسے قابلِ افسوس قرار دیا۔ اس بات کی پوری کوشش کی گئی کہ وزیراعظم شہباز شریف اس عہدے پر نئی تعیناتی میں اپنا آئینی اور قانونی حق استعمال نہ کر سکیں بلکہ اس عمل میں اپوزیشن کے ساتھ مشاورت کرکے‘ اس عہدے پر تعیناتی کے لیے ایک نئی روایت قائم کی جائے۔ صدر عارف علوی کے بعض بیانات‘ جن میں اگرچہ انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ تعیناتی وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار ہے لیکن ساتھ ہی یہ کہنے سے کہ اس عمل میں اگر مشاورت بھی ہو جائے تو کوئی حرج نہیں‘ سے خدشہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ ہو سکتا ہے صدر وزیراعظم کی طرف سے بھیجی سمری کی منظوری میں تاخیر کریں گے‘ مگر وہ جو کہتے ہیں Better Sense Prevail‘ صدر عارف علوی نے لاہور کا دورہ کرکے پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان سے رسمی مشاورت کی اور سمری پر دستخط کر دیے اور یوں جنرل ساحر شمشاد مرزا اور جنرل عاصم منیر کا بالترتیب بطور سی جے ایس سی اور بطور چیف آف آرمی سٹاف کی تعیناتی کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا گیا۔
قوی امید ہے کہ عہدہ سنبھالنے کے بعد نئے آرمی چیف کا ادارہ ان کی تمام تر توجہ کا مرکز ہوگا اور وہ پاکستان کے دفاع اور سلامتی کو پہلے سے زیادہ مضبوط بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔ نئے آرمی چیف نے اپنا عہدہ اس وقت سنبھالا ہے جب خود آرمی کی قیادت اس ضرورت کی قائل ہو چکی ہے کہ فوج کا کام حکومتیں بنانا اور توڑنا نہیں بلکہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات کو کامیاب بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا ہے تاکہ ہر سیاسی پارٹی یا سیاسی پارٹیوں کا اتحاد جو عوام کے مینڈیٹ کے ساتھ حکومت تشکیل دیتی ہے/ دیتا ہے‘ اپنے منشور کے مطابق عوام کی فلاح و بہبود کے فروغ‘ ملک کی علاقائی سلامتی کے تحفظ اور معاشی ترقی کے لیے پُرامن ماحول میں بغیر کسی دباؤ‘ ڈر اور خوف کے اقدامات کر سکے۔ موجودہ دور میں گڈ گورننس کے اسی تصور کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر پذیرائی حاصل ہے۔
جنرل ساحر شمشاد مرزا اور جنرل عاصم منیر کا بالترتیب چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور چیف آف آرمی سٹاف کے عہدوں پر فائز ہونے کے اعلان کا ملک کے تمام حلقوں میں خیر مقدم کیا گیا ہے‘ اور اس بات کا پورا یقین ہے کہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس پر خوشی کا اظہار کیا جائے گا کیونکہ اس فیصلے کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ پاکستان میں سیاسی غیر یقینی اور سیاسی عدم استحکام کا دور ختم ہو گا‘ اور حکومت پہلے کے مقابلے میں زیادہ اعتماد اور عزم کے ساتھ قوم کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کر سکے گی۔
ہم سب جانتے ہیں کہ گزشتہ سات ماہ سے جاری سیاسی بحران کی وجہ سے نہ صرف پاکستانی عوام پریشان تھے‘ بلکہ بین الاقوامی برادری کے رکن ممالک اور مالی ادارے جو پاکستان کو موجودہ معاشی مشکلات خصوصاً رواں برس آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں پر قابو پانے میں مدد فراہم کرنے پر تیار ہیں‘ وہ بھی اس پر خدشات کا اظہار کر رہے تھے۔ اگرچہ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو امداد فراہم کرنے میں پاکستان کے دوست ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا رویہ حوصلہ افزا ہے‘ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے بعد پاکستان کے لیے بیرونی امداد کے امکانات میں اضافہ ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس کی وجہ پاکستان میں سیاسی استحکام کے بڑھتے ہوئے امکانات ہیں جس سے اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ بھی متوقع ہے۔