افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی فوجیں موجود تھیں تو کہا جاتا تھا کہ نہ صرف اس ملک بلکہ پورے خطے میں تشدد اور دہشت گردی کا سبب یہی غیرملکی فوجیں ہیں‘ اس لیے نہ صرف طالبان بلکہ ارد گرد کے ممالک بھی افغانستان سے امریکیوں کے اخراج کو علاقائی امن اور تحفظ کیلئے لازمی قرار دیتے تھے۔ ملکِ عزیز میں تو کچھ سیاسی رہنماؤں نے اسے اپنی سیاست کا محور بنا رکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب پچھلے سال امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا عمل میں آیا اور اس کے نتیجے میں افغان طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا تو اُن سیاسی رہنمائوں نے طالبان کو افغانستان کا نجات دہندہ قرار دے کر اس تبدیلی کا خیر مقدم کیا۔ کچھ حلقوں کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ افغانستان سے امریکی افواج کے نکل جانے اور طالبان حکومت کے قیام کے بعد خطے میں دہشت گردی ختم ہو گئی ہے اور مستقل امن قائم ہو چکا ہے لیکن جس وقت یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا عین اسی وقت افغانستان میں مقیم کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجو سرحد پار کرکے پاکستانی علاقوں میں داخل ہو رہے تھے اور ٹارگٹ کلنگ‘ بھتہ خوری اور دیگر طریقوں سے مقامی آبادی کو ہراساں کر رہے تھے۔
اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہو سکتی ہے کہ امریکہ‘ نیٹو اور افغان نیشنل آرمی کے خلاف لڑنے والے افغان طالبان اور ان کے اہلِ خانہ کو انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر مختلف سہولتیں فراہم کرنے پر امریکہ اور بین الاقوامی برادری کی ناراضی مول لینے کے باوجود افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد سب سے پہلے پاکستان ہی دہشت گردی کا نشانہ بنا۔ اس دہشت گردی کے پیچھے کالعدم ٹی ٹی پی کا ہاتھ ہے‘ جس کے جنگجو پاکستان کے شمالی علاقوں میں فوج کے آپریشنز کے نتیجے میں بھاگ کر افغانستان چلے گئے تھے اور وہاں اپنے اڈے قائم کرکے سرحد پار پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا ارتکاب کرتے تھے۔ امریکی افواج کے نکل جانے کے بعد ٹی ٹی پی کے ان حملوں میں نمایاں اضافہ ہو چکا ہے اور حال ہی میں پاکستان کے کئی علاقوں میں بم دھماکے اور خود کش حملے ہوئے ہیں‘ جن کی ذمہ داری کالعدم ٹی ٹی پی نے قبول کی ہے۔ ابھی پاکستان اس خطرناک صورتحال سے نبرد آزما ہونے کی تیاری کر رہا تھا کہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر حملے نے پاکستان کے لیے ایک غیر متوقع اور خطرناک چیلنج پیدا کر دیا کیونکہ پاکستانی سفارت خانے پر یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے اور یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انہوں نے ملک میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر کرکے مکمل سکیورٹی کا نظام قائم کر رکھا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ پاکستانی سفارتخانہ افغان دارالحکومت کے ایک ایسے حصے میں واقع ہے جہاں سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔ ان انتظامات کے باوجود مسلح افراد کے ایک گروپ کی طرف سے پاکستانی سفارتی عملے پر فائرنگ کا واقعہ انتہائی تشویش ناک ہے۔
وزارتِ خارجہ نے اسلام آباد میں مقیم افغان ناظم الامور کو طلب کر کے طالبان حکومت کی اس حساس مسئلے کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ افغان طالبان نے اس واقعہ کی مکمل چھان بین اور حملے میں ملوث افراد کو گرفتار کرنے کا وعدہ کیا ہے‘ مگر 13نومبر کو چمن کے مقام پر پاک افغان سرحد کے آر پار آنے جانے کے راستے بابِ دوستی پر فائرنگ میں ایک پاکستانی سپاہی کی شہادت میں ملوث افغان باشندے کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا۔ اس بلا اشتعال فائرنگ کے بعد پاکستان نے چمن پر پاک افغان سرحد غیر معینہ مدت کیلئے بند کر دی تھی اور اعلان کیا تھا کہ جب تک افغان طالبان حملہ آور کو پکڑ کر پاکستانی حکام کے حوالے نہیں کرتے سرحد بند رہے گی کیونکہ حملہ افغان سرحد کے پار سے افغان طالبان کی موجودگی میں کیا گیا تھا مگر افغان طالبان کی یقین دہانی کے بعد کہ ملزم کو تلاش کرکے اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی‘ پاکستان نے ایک ہفتہ کے بعد چمن سرحد کھول دی تھی۔ سفارتخانے پر حملے اور ایک سکیورٹی گارڈ کے شدید زخمی ہونے کے واقعے پر بھی پاکستان نے ضبط سے کام لیا ہے اور اس بات کی تردید کی ہے کہ کابل کا سفارتخانہ بند کرکے عملے کو واپس بلایا جا رہا ہے لیکن ان دو واقعات اور افغانستان سے ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے بلا روک ٹوک پاکستان میں داخل ہونے کے سلسلے نے حکومت پاکستان کو مغربی سرحد کو لاحق خطرے کے حوالے سے یقینا تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ اسی لیے وزیر مملکت برائے امورِ خارجہ حنا ربانی کھر نے کابل کا ایک روزہ دورہ کیا اور طالبان حکومت کے اہلکاروں کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کے علاوہ مشترکہ سرحد پر تصادم کے آئے دن کے واقعات کو روکنے پر بھی بات چیت کی۔ جیسا کہ اطلاعات سے ظاہر ہے وزیر مملکت کے دورے کے دوران طالبان رہنماؤں نے ان واقعات کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کا یقین دلایا۔ اس قسم کی یقین دہانیاں طالبان پہلے بھی کرا چکے ہیں‘ لیکن ایسے واقعات نہ صرف رک نہ سکے بلکہ دونوں طرف جانی نقصان کا باعث بھی بن رہے ہیں۔ مثلاً گزشتہ ماہ کنڑ کے علاقے میں پاکستان اور افغانستان کی سرحدی افواج کے درمیان سڑک کی تعمیر پر مسلح تصادم ہوا جس میں ایک پاکستانی فوجی شہید اور گیارہ افراد‘ جن میں سات اہلکار اور چار شہری شامل ہیں‘ زخمی ہوئے۔
ان واقعات کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی پیدا ہو رہی ہے۔ پاکستان کے اربابِ اختیار کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ یہ کشیدگی پاکستان کی قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتی ہے کیونکہ طالبان کی موجودہ حکومت کے بعض اراکین اس کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال رہے ہیں حالانکہ سرحد پار سے پاکستانی سرحدی چوکیوں پر ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے حملوں کے باوجود پاکستان نے اب تک افغانستان کے خلاف کسی بڑی کارروائی سے اجتناب کیا ہے اور بات چیت کے ذریعے حالات کو مزید کشیدہ ہونے سے بچانے کی کوشش کی ہے۔ مگر ہر واقعے کے بعد افغانستان میں پاکستان کے بارے میں رائے عامہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ معاندانہ رخ اختیار کر رہی ہے۔ جن بیرونی طاقتوں کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات ایک آنکھ نہیں بھاتے‘ وہ اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ تشویش کا ایک اور پہلو بھی اہم ہے اور حکومت کو اس طرف پوری توجہ دینی چاہیے اور وہ یہ ہے کہ اگر پاکستان اور افغانستان مشترکہ کوششوں اور باہمی تعاون کے ذریعے پاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کے عزائم کو ناکام نہ بنا سکے تو یہ خطہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا ایک نیا مرکز بن سکتا ہے کیونکہ افغانستان سے نکل جانے کے بعد بھی امریکہ کی نظریں افغانستان پر ٹکی ہوئی ہیں۔ پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف حملوں کا سلسلہ شروع کرنے کے اعلان کے بعد امریکہ نے پاکستان کو تعاون اور امداد کی پیشکش کی ہے اور ساتھ ہی یہ اعلان کیا ہے کہ واشنگٹن ٹی ٹی پی یا القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروپوں کو ہمسایہ ممالک کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کیلئے افغان سرزمین استعمال کرنے کی کبھی اجازت نہیں دے گا۔
دوحہ معاہدے کے تحت افغان طالبان نے اس کی گارنٹی دی تھی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کے بس کی بات نہیں۔ جن کالعدم گروپوں نے افغان جنگ کے دوران طالبان کا ساتھ دیا تھا وہ افغانستان میں بدستور موجود ہیں اور پہلے کی طرح طاقتور ہیں۔ افغان طالبان کی ذمہ داری تھی کہ وہ ان گروپوں کو غیر مسلح کرتے مگر وہ اس میں ناکام رہے ہیں۔ اب یہی گروپ پاکستان کے علاوہ افغانستان کے دیگر ہمسایہ ممالک کیلئے خطرے کا باعث بن رہے ہیں۔ صورتحال کو مزید بگڑنے سے بچانے کی واحد صورت پاکستان اور افغانستان میں قریبی تعاون اور اشتراکِ عمل کا قیام ہے۔