اخبارات کی شہ سرخیاں پڑھیں، ٹی وی کی ہیڈ لائنز دیکھیں یا ٹاک شوز میں زیر بحث موضوعات پر جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 22 کروڑ سے زائد آبادی کے ملک پاکستان کو اس وقت اگر کوئی مسئلہ درپیش ہے تو وہ صرف اپوزیشن (پی ٹی آئی) اور حکومت (پی ڈی ایم) کے درمیان فوری انتخابات کے انعقاد کا ہے۔ اول الذکر بلا تاخیر فوری انتخابات کو وقت کی سب سے اہم ضرورت اور ملک کو درپیش تمام مسائل کا حل سمجھتی ہے جبکہ موخر الذکر اپنی آئینی مدت (اگست 2023 تک) پوری کرنے کے بعد انتخابات کے انعقاد کی حامی ہے۔ دونوں طرف سے بیانات اور دعووں کا میڈیا پر راج ہے اور میڈیا ہے کہ ان دونوں پارٹیوں سے بھی بڑھ چڑھ کر عوام کو باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان میں اگر کوئی مسئلہ ہے تو صرف پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کے درمیان جھگڑا ہے۔ لیکن سچائی کو کب تک جھوٹ اور مبالغہ آرائی کے دبیز پردوں میں چھپا کر رکھا جا سکتا ہے۔
ایسے مسائل سر اٹھا چکے ہیں جنہیں اب زیادہ دیر تک نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان کا تعلق عوام کی زندگیوں اور بقا سے ہے۔ کئی دنوں سے میڈیا اطلاع فراہم کر رہا تھا کہ فضائی آلودگی کے اعتبار سے لاہور دنیا میں متواتر کئی روز سے پہلے نمبر پر رہا ہے اور اس کے نتیجے میں عوام میں سانس، گلے اور چھاتی کی بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خاص طور پر بچوں میں یہ امراض بڑھ رہے ہیں لیکن حکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ بھلا ہو لاہور ہائی کورٹ کا جس نے اس مسئلے کا نوٹس لے کر صوبائی حکومت کو ہدایت جاری کی کہ ہفتے میں سکولوں کو کم از کم تین دن کیلئے بند رکھا جائے۔ اس پر پنجاب حکومت نے نہ صرف ہفتے میں سکولوں کو تین دن بند رکھنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا بلکہ ایسے اقدامات کا بھی اعلان کیا ہے جو وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے خیال میں نہ صرف لاہور بلکہ صوبے کے دوسرے حصوں میں بھی فضائی آلودگی کو ختم کرنے میں مدد دیں گے۔ ان اقدامات میں لاہور اور فضائی آلودگی کے شکار صوبے کے باقی حصوں میں ''موسمیاتی ہنگامی صورتحال‘‘ کے نفاذ کا اعلان بھی شامل ہے۔ فضائی آلودگی کے اس مسئلے‘ جسے پنجاب حکومت نے ''ایک بڑی آفت‘‘ (Calamity) قرار دیا ہے، سے نمٹنے کیلئے دیگر اقدامات میں متعلقہ محکموں کے افسران کو موقع پر جا کر آلودگی پیدا کرنے والے اسباب ختم کرنے کا حکم بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ دھان کی فضل کے مڈھ جلا کر دھواں پیدا کرنے والوں کے خلاف کارروائی اور دھواں دینے والی گاڑیوں کے لاہور میں داخلے پر پابندی پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ 30 برس سے زیادہ پرانی گاڑیوں کو لاہور کی سڑکوں سے غائب کر دیا جائے اور فضا میں زیادہ سے زیادہ آکسیجن پیدا کرنے کیلئے درخت لگائے جائیں۔ یہ اقدامات اپنی جگہ پر اہم ہیں اور اگر اچھی نیت کے ساتھ ان پر عمل درآمد کیا جائے تو مطلوبہ نتائج برآمد ہو سکتے ہیں لیکن پنجاب کی حکومت کی خدمت میں عرض ہے کہ ان اقدامات کے بارے میں ہدایات ایک عرصہ سے جاری کی جاتی رہی ہیں۔ صوبے میں فضائی آلودگی پر قابو پانے کیلئے متعدد ادارے اور محکمے بھی قائم ہیں مگر اس کے باوجود فضائی آلودگی میں کمی واقع نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فضائی آلودگی کسی ایک صوبے کا مسئلہ نہیں بلکہ قومی مسئلہ ہے، اس لیے اس کے حل کیلئے قومی سطح پر تعاون کی ضرورت ہے جو کہ موجودہ سیاسی حالات میں ممکن نظر نہیں آتا۔
علاوہ ازیں ہماری مغربی سرحدوں پر پیدا ہونے والے ایک نئے اور فضائی آلودگی سے بھی زیادہ خطرناک مسئلے کا مقابلہ کرنے میں بھی غفلت، کوتاہ اندیشی اور خود غرضی سے کام لیا جارہاہے۔ یہ خطرہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی طرف سے پیدا کیا گیا ہے۔ یہ وہی تنظیم ہے جس کے جنگجو سوات اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں بربریت کی بدترین مثالیں قائم کرکے پاک فوج کے آپریشن سے بچنے کیلئے بھاگ کر افغانستان میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے، وہاں سے سرحد پار پاکستانی چوکیوں پر اِکا دُکا حملے کرنے کے علاوہ ان جنگجوؤں کو پاکستانی حکام نے متعدد بار سرحد کے اُس پار دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے پر گرفتار بھی کیا تھا۔ ہم ان کارروائیوں کے پیچھے افغانستان کی سابق حکومتوں اور ان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا ہاتھ سمجھتے تھے لیکن گزشتہ سال اگست میں افغان طالبان کی کابل میں حکومت کے قیام کے بعد حقیقت اس سے بالکل مختلف سامنے آئی۔ صدر اشرف غنی کی حکومت نے پاکستان سے بھاگ کر آنے والے ٹی ٹی پی کے ہزاروں جنگجوؤں جن میں ان کا سب سے خطرناک لیڈر ملا فقیر محمد بھی شامل تھا‘ کو جیل میں ڈال رکھا تھا۔ جو باقی بچے وہ افغان طالبان کی صفوں میں شامل ہو کر امریکی اور نیٹو افواج کے خلاف لڑنے لگے۔ جب امریکی اور نیٹو افواج نے افغانستان خالی کر دیا تو نئے حکمرانوں یعنی افغان طالبان نے جیلوں میں بند ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو دوحہ معاہدے کے بالکل برعکس نہ صرف رہا کیا بلکہ ان تمام کو پاکستان کا رُخ کرنے کی اجازت دی۔ گزشتہ ایک سال کے اندر سوات اور پاکستان کے شمالی علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں تقریباً 60 فیصد اضافہ انہی جنگجوؤں کی وجہ سے ہے۔ حال ہی میں انہوں نے عارضی طور پر اپنی کارروائیوں کا جو سلسلہ منقطع کیا ہوا تھا، اس کے خاتمے کا اعلان کر دیا اور اب پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور ٹی ٹی پی کے درمیان ایک کھلی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے دہشت گردی کے خلاف جنگ پہلے بھی جیتی تھی اور ان شاء اللہ اب بھی جیتیں گے‘ لیکن حکومت کا تعاون اگر پوری طرح شامل ہو تو یہ جنگ جلدی جیتی جا سکتی ہے‘ لیکن جیسا کہ مالا کنڈ میں ہونے والے ایک حالیہ احتجاج سے ظاہر ہوتا ہے، کے پی حکومت کو شاید اس مسئلے کے مضمرات کا مکمل طور پر ادراک نہیں۔ کچھ عرصہ پیشتر وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے اسی مسئلے سے پیدا کردہ سکیورٹی ایشوز پر بحث کیلئے ایک اجلاس بلایا گیا۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق اس میں وزیر اعلیٰ کے پی کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی لیکن انہوں نے شرکت نہیں کی۔ اس قسم کے رویے سے دہشت گردوں کو حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ اسی طرح کی غفلت اور عدم توجہی کا رویہ سندھ میں سیلاب زدگان کو درپیش مشکلات کے سدباب کیلئے ناکافی اقدامات کی صورت میں دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سال سیلاب سے سب سے زیادہ سندھ متاثر ہوا ہے۔ اس صوبے کی تمام کھڑی فصلوں‘ جن میں کپاس اور گنا سر فہرست ہے‘ کو شدید نقصان پہنچا۔ سبزیوں اور پھلوں کو بھی 80 سے 90 فیصد نقصان پہنچا ہے۔ بے گھر ہونے والے تین کروڑ تیس لاکھ افراد میں سے دو تہائی سے زائد کا تعلق سندھ سے ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سندھ کی صوبائی حکومت نے وفاقی حکومت کے تعاون اور امداد سے اس آفت کی تباہ کاریوں پر قابو پانے کی پوری کوشش کی ہے‘ لیکن یہ اتنی بڑی تباہی ہے کہ اس کیلئے پوری قوم کو آگے آنا پڑے گا‘ تاہم بعض صوبائی حکومتوں کی طرف سے اس مسئلے پر اتنا تعاون سامنے نہیں آیا جتنا وہ کر سکتی تھیں۔ یہاں پھر سیاسی مصلحتیں آڑے آ رہی ہیں اور اس کے نتیجے میں سیلاب زدگان‘ خصوصاً سندھ میں متاثر ہونے والے لوگوں کی مشکلات طوالت پکڑتی جا رہی ہیں۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق سندھ کے کئی اضلاع ابھی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور مرد‘ عورتیں اور بچے کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ موسمی شدت سے بچائو کی کوئی صورت نہیں‘ علاج کے لیے دوائیاں میسر نہیں اور پیٹ بھر کر کھانے کو روٹی نہیں ملتی۔ کاش ہمارے سیاستدانوں کی نظر اس طرف بھی جائے اور انہیں نظر آئے کہ انتخابات سے زیادہ فوری توجہ کے مستحق کچھ مسائل کا ہمارے عوام کو سامنا ہے۔