پاکستان اور روس کے درمیان دو طرفہ بنیادوں پر تجارتی اور اقتصادی تعلقات سوویت یونین کے دور سے چلے آ رہے ہیں۔ اس کا آغاز 1960ء کی دہائی کے اوائل میں ایوب خان کے دور میں ہوا تھا جب پاکستان نے اپنے ہاں تیل اور گیس کی تلاش میں فنی امداد کیلئے سوویت یونین کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا۔ اُس وقت امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ عروج پر تھی اور پاکستان امریکہ کا ایک مضبوط اتحادی تھا اس لیے تعلقات آگے نہ بڑھے‘ لیکن اعلانِ تاشقند (1966ء) کے بعد پاکستان اور سوویت یونین کے درمیان ہتھیاروں کی فروخت کا ایک معاہدہ طے پایا‘ جس کے تحت پاکستان نے روسی ساخت کے ٹینک اور ہیلی کاپٹر خریدے تھے۔ سوویت یونین کے وزیراعظم کوسی جن (Alexei Kosygin)نے پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا‘ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماسکو اسلام آباد کے ساتھ دفاع کے علاوہ دیگر شعبوں میں بھی تعلقات کو آگے بڑھانا چاہتا تھا‘ مگر اُس وقت بھارت اور سوویت یونین کے بہت قریبی تعلقات تھے‘ اس لیے ان کوششوں کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔
دسمبر 1979ء میں افغانستان میں سوویت فوجوں کی مداخلت اور اس کے جواب میں افغان تحریک مزاحمت‘ جسے امریکہ کے ساتھ مل کر پاکستان ایک فرنٹ لائن سٹیٹ کی حیثیت سے سپورٹ کر رہا تھا‘ کی وجہ سے پاکستان اور سوویت یونین ایک دوسرے سے اور بھی دور ہو گئے۔ آج سرد جنگ باقی نہیں ہے‘ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہو چکی ہے اور نریندر مودی کی پالیسیوں کی وجہ سے بھارت روس کی دوستی چھوڑ کر امریکہ کا اتحادی بن چکا ہے‘ اس لیے اب روس کی پاکستان کی جانب پیشرفت میں کوئی رکاوٹ نہیں رہی۔ گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں دونوں ملکوں کے مشترکہ کمیشن کے آٹھویں اجلاس کے موقع پر پاکستان کو روس کی طرف سے خام تیل‘ پٹرول‘ ڈیزل اور گیس کی فراہمی کے ایک طویل المیعاد اور جامع منصوبے کا اعلان اس کا ثبوت ہے۔ ابھی یہ منصوبہ ابتدائی شکل میں ہے اور اس کی بہت سی تفصیلات طے ہونا باقی ہیں۔ اسلام آباد کے اجلاس کے بعد جاری کردہ مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس سال مارچ تک یہ تمام تفصیلات طے کر لی جائیں گی۔ فریقین پُراعتماد ہیں کہ روس کی طرف سے پاکستان کو توانائی کی سپلائی جلد شروع ہو جائے گی کیونکہ پاکستان کو ارزاں نرخوں پر توانائی کی سخت ضرورت ہے اور روس کو اپنی گیس اور تیل فروخت کرنے کے لیے نئے گاہکوں کی تلاش ہے۔ اس کی وجہ گزشتہ فروری سے جاری روس یوکرین جنگ ہے جس کے نتیجے میں امریکہ برطانیہ اور یورپی یونین‘ جو کہ روسی تیل اور گیس کے سب سے بڑے خریدار تھے‘ نے نہ صرف روس سے تیل اور گیس خریدنا بند کر دی ہے بلکہ اس کے خلاف بھاری اقتصادی پابندیاں بھی عائد کر دی ہیں۔
روس کو انرجی کا سپر پاور کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے ہاں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ سعودی عرب کے بعد روس خام تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ پورا مغربی یورپ اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے روس پر انحصار کرتا ہے۔ روس یوکرین جنگ سے پہلے یورپی یونین کے رکن ممالک روس سے 22لاکھ بیرل یومیہ تیل اور 12لاکھ بیرل یومیہ تیل کی مصنوعات درآمد کرتے تھے۔ یوکرین کے راستے مغربی یورپ کو روس کی طرف سے گیس کی بھاری سپلائی اس کے علاوہ ہے مگر روس یوکرین جنگ کی وجہ سے مغربی یورپ کی تیل اور گیس کی مارکیٹ روس کے ہاتھ سے نکل گئی ہے اور اب اسے مغرب میں یورپ کے بجائے مشرقی ممالک سے رجوع کرنا پڑ رہا ہے جہاں چین اور بھارت اپنی بڑھتی ہوئی صنعتی ضروریات کے لیے اس کے تیل اور گیس کے اہم گاہک کے طور پر موجود ہیں۔ اگرچہ اس کا برملا اعلان نہیں کیا گیا مگر یقین کیا جاتا ہے کہ چین اور بھارت نے روس سے انتہائی سستے نرخوں پر تیل اور گیس کے سودے کیے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے بھی روسی تیل اور گیس کی خرید کی خواہش کی یہی وجہ ہے‘ اور اس کے لیے کوششیں 2015ء سے جاری تھیں لیکن باقاعدہ معاہدہ اس سال جنوری 2023ء میں طے پایا ہے۔
معاہدہ طے پا جانے کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ فریقین اس معاہدے پر پوری طرح اور جلد از جلد عمل درآمد کے خواہش مند ہیں کیونکہ اس مقصد کے لیے ضروری سہولتوں کو مہیا کرنے کے لیے ایک مشترکہ ورکنگ گروپ تشکیل دے دیا گیا ہے جو فیصلہ کرے گا کہ ادائیگی کس کرنسی میں کی جائے گی‘ کس ریٹ پر کی جائے گی‘ روس سے پاکستان تک تیل اور گیس لانے کے لیے کون سے ذرائع استعمال کیے جائیں گے اور یہ کام کب شروع کیا جا سکے گا۔ عام تاثر یہ ہے کہ تیل اور گیس کی سپلائی کے لیے زمینی اور بحری دونوں ذرائع استعمال کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ پاکستان اور روس کے درمیان براہِ راست فضائی سروس بھی قائم کی جائے گی۔ اس سے نہ صرف روس بلکہ وسطی ایشیا کی ریاستوں کے ساتھ رابطوں میں بھی آسانی پیدا ہو گی اور تعلقات میں استحکام آئے گا کیونکہ اس وقت اسلام آباد سے روس اور وسطی ایشیا تک پہنچنے کے لیے فضائی سفر میں 21 گھنٹے صرف ہوتے ہیں اور اگر روس کے ساتھ اس کے سینٹرل ایشین ایئر کوریڈور کو استعمال کرنے کا معاہد ہو جائے تو یہ سفر صرف 4گھنٹے کا رہ جائے گا۔
مواصلاتی روابط کو روس اور پاکستان کے درمیان نہ صرف تیل اور گیس بلکہ دیگر شعبوں میں بھی قریبی تعلقات کے فروغ میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ اب تک متعدد کوششوں اور معاہدات کے طے ہونے کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان نہ تو دو طرفہ تجارت میں اضافہ ہوا ہے اور نہ پاکستان اور روس کے درمیان عوامی رابطے بڑھے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اسلام آباد میں پاکستان اور روس کے درمیان تجارت اور علاقائی تعاون کے فروغ پر بحث کے دوران علاقائی روابط پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ روس کا پاکستان کے ساتھ معاہدہ صرف اپنے اقتصادی پہلوؤں کی روشنی میں ہی اہم نہیں بلکہ دور رس سٹریٹیجک مضمرات کا بھی حامل ہے۔ اب تک روسی ڈپلومیسی کی تمام تر توجہ یورپ اور شمالی امریکہ پر مرتکز رہی ہے‘ لیکن 19ویں صدی کی آخری دہائیوں کے بعد پہلی مرتبہ روس نے اپنی توجہ مشرق کی طرف مبذول کی ہے۔ اس عمل کا آغاز اگرچہ سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے فوراً بعد ہی ہو گیا تھا؛تاہم 2014ء میں روس کی طرف سے جزیرہ نما کریمیا کو اپنے اندر ضم کرنے کے بعد جب امریکہ اور مغربی ملکوں نے اس کے خلاف اقتصادی پابندیوں کو نافذ کیا تو روس نے چین اور مغربی ایشیائی ملکوں مثلاً ایران‘ سعودی عرب اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے کی طرف توجہ دی۔ اس سے روس کو نہ صرف مغربی ممالک کی طرف سے نافذ کردہ پابندیوں کے نقصان دہ اثرات کو کم کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی بلکہ یوکرین کے مسئلے پر چین‘ بھارت اور پاکستان کے تقریباً غیر جانب دارانہ رویے سے روس دنیا میں سفارتی لحاظ سے الگ تھلگ ہونے سے بچ گیا ہے۔
کچھ مبصرین کی رائے میں پاکستان اور روس کے درمیان توانائی کی فروخت کے ایک جامع اور طویل المیعاد منصوبے پر عملدرآمد سے پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری منصوبے یعنی سی پیک کو تقویت حاصل ہو گی۔ اس لیے چین کی طرف سے پاکستان اور روس کے درمیان اس سمجھوتے پر یقینا خوشی کا اظہار کیا جائے گا؛ البتہ امریکہ اور بھارت کی طرف سے تحفظات یا ناراضی کے اظہار کا امکان ہے‘ مگر یہ اس سمجھوتے پر عملدرآمد کو نہیں روک سکے گی کیونکہ بھارت خود روس سے رعایتی قیمت پر توانائی خرید رہا ہے‘ اور جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے‘ افغانستان سے انخلا کے بعد پاکستان پر اثرانداز ہونے کی اس کی صلاحیت میں نمایاں کمی آ چکی ہے۔