پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خاں‘ جنہیں بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد اقوام متحدہ میں زیرِ بحث فلسطینی مسئلے پر عربوں کے مؤقف کے دفاع کے لیے خصوصی طور پر بھیجا تھا‘ نے ایک دفعہ کہا تھا کہ فلسطین کا مسئلہ دو ہزار سال پرانا ہے اور اگلے دو ہزار سال تک موجود رہے گا۔ چند روز قبل اسرائیل کی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں دریائے اردن کے مغربی کنارے میں 10فلسطینی باشندوں کے قتل اور اس کے نتیجے میں تمام فلسطین اور اسرئیل میں احتجاجی مظاہرین اور اسرائیلی فورسز کے درمیان مسلح اور خونریز جھڑپوں کو دیکھتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ سر ظفر اللہ خاں ٹھیک ہی کہتے تھے کیونکہ صرف دو سال قبل دسمبر 2020ء میں اسرائیل اور چار اہم عرب ممالک( متحدہ عرب امارات‘ بحرین‘ سوڈان اور مراکش) کے درمیان باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے معاہدات پر دستخط ہوئے تھے جنہیں ابراہم معاہدات (Abraham Accord) کہا جاتا ہے۔ ان معاہدات کے تحت ان چار عرب ممالک نے نہ صرف پُر امن تعلقات کے قیام کا اعلان کیا بلکہ اس امید کا اظہار بھی کیا گیا کہ اس کے بعد مزید عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ معاہداتِ امن اور دو طرفہ بنیادوں پر تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعلقات کا آغاز کریں گے اور کسی حد تک یہ اندازہ درست ثابت ہوا کیونکہ دو سال کے اندر متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ فری ٹریڈ ایگریمنٹس پر دستخط کرنے کے علاوہ یہودی ریاست کے ساتھ اقتصادی اور سکیورٹی کے شعبوں میں بھی تعاون کو فروغ دینے کے لیے جامع معاہدات پر دستخط کیے۔ اسرائیل اور مغربی ذرائع نے تو یہاں تک پیش گوئی کر دی تھی کہ ان ممالک کے بعد سعودی عرب کے ساتھ بھی اسرائیل کے نارمل تعلقات قائم ہو جائیں گے کیونکہ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کے قیام پر سعودی عرب نے نہ صرف رضا مندی کا اظہار کیا تھا بلکہ بعض اطلاعات کے مطابق اس میں سہولت کار کا کردار بھی ادا کیا تھا۔ لیکن 26جنوری کو دریائے اردن کے مغربی کنارے پر فلسطینی شہر جنین میں ایک فلسطینی مہاجر کیمپ پر اسرائیلی کمانڈوز کے حملے میں 10فلسطینیوں کی شہادت اور اس کے بعد اسرائیل اور مقبوضہ عرب علاقوں میں احتجاجی مظاہروں کے بعد عرب اسرائیل مصالحتی عمل میں پیش رفت مخدوش نظر آ رہی ہے‘ کیونکہ جن ملکوں نے اس بہیمانہ قتلِ عام کی مذمت کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی درخواست دی ہے‘ ان میں متحدہ عرب امارات بھی شامل ہے۔
سعودی عرب‘ جس کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ بحرین اور متحدہ عرب امارات کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ جلد نارمل تعلقات قائم کر لے گا‘ نے اعلان کیا ہے کہ جب تک اسرائیل آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو عملی شکل دینے کے اقدامات نہیں کرتا‘ سعودی اسرائیل نارمل تعلقات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ اس کے علاوہ اسرائیل اور ترکیہ کے درمیان تعلقات میں جو گرمجوشی پیدا ہوئی تھی‘ اس کے بھی ٹھنڈے پڑنے کے امکانات ہیں‘ کیونکہ صدر طیب اردوان کا فلسطینی عوام کے حامی رہنمائوں میں شمار ہوتا ہے۔ ابراہم معاہدات سے عرب اسرائیل مصالحت میں پیشرفت کی جو توقعات پیدا ہوئی تھیں‘ ان کے پاش پاش ہونے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ 1973-74ء میں عرب اسرائیل (چوتھی) جنگ کے بعد اسرائیل اور مصر کے درمیان معاہدۂ امن کے بعد امید ظاہر کی گئی تھی کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن اور استحکام کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا اور مصر کے بعد باقی عرب ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کرکے اس کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کر دیں گے‘ لیکن اُردن کے علاوہ کسی عرب ملک نے یہ قدم نہیں اٹھایا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مصر کے ساتھ اسرائیل کا امن معاہدہ بے شک ایک بہت اہم اور بڑا واقعہ تھا کیونکہ آبادی اور عسکری قوت کے لحاظ سے مصر تمام عرب ممالک میں سب سے بڑی قوت ہے‘ مگر اس سے مشرقِ وسطیٰ میں جنگ اور تصادم کی اصل وجہ یعنی مسئلہ فلسطین کے حل کی طرف کوئی پیش قدمی نہیں کی گئی۔ اس کے لیے 1947ء میں اقوام متحدہ کی قرارداد کے ذریعے فلسطینی باشندوں کے ساتھ جو ناانصافی کی گئی تھی‘ اس کی تلافی ضروری ہے۔ 1947ء میں اقوامِ متحدہ نے فلسطین کو تقسیم کرکے یہودی ریاست کے قیام کا جو فیصلہ کیا تھا‘ وہ نہ تو اخلاقی لحاظ سے اور نہ ہی کسی قانون کی نظر میں جائز تھا‘ لیکن یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کے بعد مزید عرب علاقوں‘ جن میں دریائے اُردن کا مغربی کنارہ‘ شام کی گولان کی سطحٔ مرتفع کا علاقہ اور بیت المقدس کا مشرقی حصہ شامل ہے‘ پر قبضہ کرکے مسئلے کو اور بھی پیچیدہ بنا دیا۔
1948ء میں عربوں اور اسرائیل کے درمیان پہلی جنگ کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینی باشندوں کو ارد گرد کے ہمسایہ عرب ممالک میں پناہ لینا پڑی تھی۔ ان فلسطینیوں کی اولاد اب بھی بے وطن ہے اور مہاجر کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہے۔ اقوام متحدہ کی اَن گنت قراردادوں کے باوجود اسرائیل نہ تو ان فلسطینیوں کو واپس اپنے گھروں کو جانے اور آباد ہونے کی اجازت دینے پر تیار ہے اور نہ وہ گولان کی پہاڑیوں اور بیت المقدس کے مشرقی حصے کو خالی کرکے 1967ء سے پہلے کی سرحدوں پر جانے پر راضی ہے۔ اس کے برعکس اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل میں ضم اور بیت المقدس کو یہودی ریاست کے ہمیشہ کے لیے دارالحکومت قرار دینے کا اعلان کر رکھا ہے‘ مگر اس وقت اسرائیل اور فلسطینیوں میں تصادم اور آئے دن کی جھڑپوں کی سب سے بڑی وجہ عربوں کے مقبوضہ علاقوں خصوصاً بیت المقدس کے نواح میں اور دریائے اردن کے مغربی کنارے پر باہر سے آنے والے یہودیوں کے رہنے کے لیے بستیوں کی تعمیر ہے۔
اسرائیل کے بانیوں نے دنیا کے تمام یہودیوں کو اسرائیل میں داخل ہونے اور آباد ہونے کی اجازت دے رکھی ہے۔ ان آباد کاریوں کے لیے اسرائیل نے مقبوضہ عرب علاقوں پر بستیاں تعمیر کرنے کا سلسلہ بہت عرصے سے شروع کر رکھا ہے مگر اقوام متحدہ اور عالمی رائے عامہ کے دباؤ کے تحت اسرائیل کی کچھ سابقہ حکومتوں نے ان کی تعمیر پر عارضی پابندیاں لگا دی تھیں‘ تاہم نیتن یاہو کے دور میں ان کی تعمیر دوبارہ شروع کر دی گئی تھی اور دسمبر 2022ء میں اسرائیل کی انتہائی قدامت پسند حکومت کے قیام کے بعد ان یہودی بستیوں کی تعمیر کو مزید تیز کر دیا گیا ہے بلکہ وزیراعظم نیتن یاہو کی کابینہ کے انتہا پسند رکن مسجد اقصیٰ کو یہودی عبادت گاہ میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان انتہا پسند عناصر کو یہودی آباد کاروں کی حمایت حاصل ہے اور وزیراعظم نیتن یاہو اپنے آپ کو بدعنوانی کے مقدمات سے بچانے کے لیے ان عناصر کے ہاتھ میں کھلونا بن چکے ہیں۔ چونکہ ان عناصر کو اسرائیل کی پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہے‘ اس لیے وہ نیتن یاہو‘ جو خود انتہا پسند دائیں بازو کے نظریات کا مالک ہے‘ کو اپنے سے زیادہ انتہا پسندوں کی ڈکٹیشن قبول کرنا پڑتی ہے۔ یہ انتہا پسند عناصر دریائے اردن کو مغربی کنارے‘ جس کے 60فیصد حصے پر یہودی پہلے ہی قبضہ کرکے بستیاں تعمیر کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں‘ کو فلسطینیوں سے خالی کرانا چاہتے ہیں تاکہ اسرائیل میں صرف یہودیوں کو رہنے کی اجازت ہو۔
دریائے اُردن کے مغربی کنارے کے شہر جنین میں 10فلسطینیوں کا قتل ان کوششوں کا حصہ ہے۔ اسرائیل اور خصوصی طور پر آباد کار فلسطینی اتھارٹی کے اس اقدام پر سخت آگ بگولہ ہیں‘ جس کے تحت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے عالمی عدالتِ انصاف سے دریائے اُردن کے مغربی کنارے پر تعمیر کردہ بستیوں کی قانونی حیثیت پر رائے کی درخواست کی ہے۔ اسرائیل اور اس کے آباد کار باشندوں کو ڈر ہے کہ ان بستیوں کو بین الاقوامی قانون کی نظر میں غیرقانونی قرار دے دیا جائے گا۔