ایک کہاوت ہے کہ نئے مسائل کو پرانے طریقے سے حل نہیں کیا جا سکتا لیکن پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر سے نمٹنے کے لیے اب تک جو اقدامات کیے گئے ہیں‘ وہ ثابت کرتے ہیں کہ ملک کے اربابِ بست و کشاد اس کہاوت میں پنہاں حکمت پر یقین نہیں رکھتے۔
افغانستان میں جنگ ختم ہونے کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی کی طرف سے نہ صرف صوبہ خیبر پختونخوا بلکہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی دہشت گردی کی جن کارروائیوں کا ارتکاب کیا گیا ہے‘ ان کے جواب میں ہماری حکومت نے جو حکمت عملی اپنائی ہے‘ وہ گزشتہ تقریباً دو دہائیوں سے آزمائی جانے والی حکمت عملی سے مختلف نہیں اور اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ ہماری حکومتوں کی طرف سے یہ دعویٰ تو کیا جاتا رہا ہے کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی اور دہشت گردی کا قلع قمع کر دیا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کے بعد جب کالعدم ٹی ٹی پی سے وابستہ دہشت گردوں کے خلاف ملٹری آپریشنز کا آغاز کیا تو وہ افغانستان منتقل ہو گئے تھے اور نیٹو افواج کے خلاف‘ افغان طالبان کی صفوں میں شامل ہو گئے تھے۔ اس طرح ایک طرف وہ پاکستانی حکام کے ہاتھوں گرفتار ہونے سے بچ گئے اور دوسری طرف افغان طالبان کے ساتھ رہتے ہوئے انہیں جدید ترین ہتھیاروں کے استعمال اور جنگی تربیت حاصل کرنے کا موقع بھی مل گیا۔
افغانستان میں جنگ ختم ہونے کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے پاکستان کے شمالی قبائلی علاقوں میں داخل ہو کر سکیورٹی فورسز اور پولیس چیک پوسٹوں پر جو حملے کیے‘ ان میں ان دونوں مہارتوں کے استعمال کا واضح ثبوت ملتا ہے۔ اس کا اعتراف خیبر پختونخوا کے سابقہ انسپکٹر جنرل پولیس نے بھی کیا تھا۔ ان کے مقابلے میں صوبے کی پولیس ہے جو نہ تو جدید ہتھیاروں سے لیس ہے اور نہ ہی اسے دہشت گردی کے خلاف لڑنے کی مناسب تربیت دی گئی ہے۔ 2014ء کے سانحے کے بعد نیشنل ایکشن پلان میں جن اقدامات پر زور دیا گیا تھا‘ ان میں پولیس اور سول آرمڈ فورسز کو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کرنے اور ضروری تربیت دینے کی بھی سفارش کی گئی تھی‘ مگر بنوں میں کائونٹر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ کوارٹرز پر دہشت گردوں کے قبضے سے انکشاف ہوا کہ صوبے کی پولیس اس طرح کی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے بالکل تیار نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردوں نے عمارت پر قبضہ کرکے وہاں پہ موجود سکیورٹی فورسز کے جوانوں کو یرغمال بنا لیا۔ انہیں چھڑانے کے لیے کمانڈوز کو ایکشن میں آنا پڑا۔ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں پہلے کی طرح اب بھی فوج ہر اول دستے کے طور پر کام کر رہی ہے حالانکہ سیاسی اور عسکری قیادت کی متفقہ رائے یہ ہے کہ سویلین انٹیلی جنس اور سکیورٹی انفراسٹرکچر‘ جس سے عام طور پر مراد انٹیلی جنس بیورو اور پولیس کو ٹریننگ‘ وسائل اور جدید ترین ہتھیاروں کے ذریعے ایک مضبوط اور موثر فورس کی شکل میں تبدیلی کرنا لیا جاتا ہے‘کو مضبوط بنایا جائے مگر پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں خود کش حملے کے بعد نیشنل سکیورٹی کمیٹی اور صوبائی اپیکس کمیٹیوں میں لیے گئے جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ آٹھ سال قبل نیشنل ایکشن پلان کی سفارشات کے باوجود اس سمت میں کوئی اہم قدم نہیں اٹھایا گیا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے ایک بیان میں اس سنگین غفلت کی طرف ملک کے چاروں صوبوں کی توجہ دلائی ہے کہ وہ دہشت گردی کی اس لہر کو دبانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں۔ اس کے ساتھ انہوں نے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ تمام صوبائی حکومتوں سے بات کریں تاکہ دہشت گردوں کے ممکنہ حملوں کو روکنے کے لیے مرکز اور صوبائی حکومتوں کے درمیان تعاون کو مضبوط کیا جا سکے۔ وزیراعظم کا یہ فیصلہ ایک درست اقدام ہے کیونکہ صوبے مرکز کی اعانت کے بغیر دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور اب جبکہ مرکز ی اور صوبائی حکومتوں میں تعاون کی راہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ ہموار ہے‘ امید کی جاتی ہے کہ دہشت گردوں کی طرف سے بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے ذریعے عوام کو جانی اور مالی نقصان پہنچانے کی کوششوں کا سدِ باب ہو سکے گا۔
گزشتہ برس نومبر کے آخری دنوں میں کالعدم ٹی ٹی پی نے حکومت پاکستان کے ساتھ جاری مذاکرات کے تعطل کے دوران جنگ بندی کو ختم کرکے اپنے اراکین کو ملک کے تمام حصوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا حکم دیا تھا۔ ٹی ٹی پی کے اس اعلان کے تحت اب اس کی کارروائیاں قبائلی علاقوں یا خیبر پختونخوا تک محدود نہیں رہیں بلکہ ان کا دائرہ دیگر صوبوں تک بھی پھیل چکا ہے۔ ہماری سکیورٹی فورسز اور پولیس بھی پوری طرح چوکنا ہے اور قبائلی علاقوں کے علاوہ دیگر علاقوں سے بھی کائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کے اہلکار دہشت گردوں کو حراست میں لے رہے ہیں مگر دہشت گردی سے مستقل نجات حاصل کرنے کے لیے یہ فیصلہ کافی نہیں۔ اس کے لیے طاقت کے استعمال کے علاوہ مائنڈ سیٹ میں تبدیلی کی بھی بڑی ضرورت ہے کیونکہ گولی سے ایک دہشت گرد ہلاک تو کیا جا سکتا ہے مگر ذہنوں میں دہشت گردی کے بارے میں غلط اور گمراہ کن تصورات کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے سب سے پہلے تو ان قوتوں اور اداروں کو دہشت گردی کے بارے میں واضح اور دو ٹوک موقف اپنانا چاہیے جو ان کی کمانڈ کر رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں اس مسئلے پر بحث کے دوران معلوم ہوا کہ دہشت گردی کی نئی لہر کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے جو ابھی تک طے نہیں کیا جا سکا۔ ابھی تک کچھ حلقے اسے محض لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ سمجھتے ہوئے صوبوں پر اس کے انسداد کی ذمہ داری ڈالنا چاہتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ صوبوں کے تعاون کے بغیر دہشت گردی کے خلاف کسی حکمت عملی کو بروئے کار نہیں لایا جا سکتا‘ مگر مرکز کی بھرپور حمایت کے بغیر صوبے اس کی ذمہ داری کو نہیں نبھا سکتے‘ اس لیے دہشت گردی کے خلاف کامیابی کے حصول کے لیے پہلی شرط مرکز اور صوبوں کے درمیان مکمل تعاون‘ ہم آہنگی اور مفاہمت کا قیام ہے۔ مرکز اور صوبوں کے درمیان محاذ آرائی کی وجہ سے دہشت گردوں کو اپنے نیٹ ورک پھیلانے اور مضبوط بنانے میں بہت مدد ملی۔ دوسری اہم شرط یہ ہے کہ دہشت گردی کیا ہے؟ اس کے بارے میں ریاست اور حکومت کو بالکل واضح موقف اختیار کرنا چاہیے۔یہ اگر محض ایک لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ نہیں تو ایک مذہبی اور قانونی مسئلہ بھی نہیں ہے بلکہ خالصتاً ایک سیاسی مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے ریاست کو طاقت کے استعمال کے ساتھ دیگر ذرائع بھی اختیار کرنا ہوں گے۔ اور یہ کام سیاسی قوتوں کو آن بورڈ لیے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس بارے میں صاف اور شفاف پالیسی اپنائی جائے۔ اہم فیصلے کرتے وقت عوام کو اعتماد میں لیا جائے تاکہ عوام اس کی اونرشپ قبول کریں اور اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں رہا کہ پاکستان اپنی بقا کی خاطر دہشت گردی کے خلاف ایک جنگ میں مصروف ہے اور جیسا کہ ہر جنگ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جنگ ایک ایسا اہم اور سنجیدہ مسئلہ ہے کہ جسے ایک مخصوص طبقے پر نہیں چھوڑا جا سکتا کیونکہ اس کے سیاسی مضمرات بھی ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے مسئلے کی سنگینی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں ہم نے اسے سیاسی قوتوں سے دور رکھا ہے۔