پاک افغان تعلقات کے محاذ پر حالیہ دنوں ایک بڑی پیش رفت ہوئی ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کی سربراہی میں پاکستان کے ایک وفد نے کابل کا دورہ کیا ہے۔ اس وفد میں وزیر دفاع کے علاوہ آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم‘ سیکرٹری خارجہ اسد مجید خان‘ افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندہ محمد صادق اور کابل میں پاکستان کے ناظم الامور عبدالرحمن نظامانی بھی شامل تھے۔وفد نے کابل میں جن طالبان رہنماؤں سے ملاقات کی وہ بھی افغان طالبان انتظامیہ کے اہم عہدوں پر فائز ہیں مثلاً افغان ڈپٹی وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر‘ قائم مقام وزیر خارجہ عامر خاں متقی‘ وزیر دفاع ملا محمد یعقوب اور وزیر داخلہ سراج الدین حقانی۔ چند روز قبل وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا تھا کہ ملک میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی بڑھتی ہوئی دہشت گردی روکنے میں افغانستان کی طالبان انتظامیہ سے تعاون حاصل کرنے کیلئے کابل وفود بھیجے جائیں گے۔ وزیر دفاع کی سرکردگی میں بھیجے جانے والا وفد اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ گزشتہ ماہ کے آخر اور اسی ماہ (فروری) کے آغاز میں بالترتیب پشاور پولیس لائنز اور کراچی پولیس آفس پر کالعدم ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کے حملوں سے پیدا ہونے والی صورتحال نے پاکستان کے اس اعلیٰ سطح کے دورۂ کابل کی اہمیت میں اور بھی اضافہ کر دیا ہے۔ اگرچہ پاکستان فارن آفس کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق پاکستانی وفد نے کابل میں افغان طالبان انتظامیہ کے اعلیٰ عہدے داروں سے خطے میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے‘ خصوصاً ٹی ٹی پی‘داعش (خراسانی گروپ) کی سرگرمیوں پر بات چیت کی ہے ا ور فریقین نے ان کی روک تھام کیلئے مربوط کوششوں پر اتفاق کیا ہے‘مگر دورے کے اختتام پر کوئی مشترکہ بیان جاری نہیں کیا گیا بلکہ افغانستان کی کونسل آف منسٹرز (وزیراعظم کے دفتر) کی طرف سے جو بیان جاری کیا گیا ہے اس میں ٹی ٹی پی اور داعش کی دہشت گردی کا کوئی ذکر نہیں بلکہ افغان طالبان کے اس مؤقف کا اعادہ کیا گیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں اقتصادی اور تجارتی معاملات کو سیاسی اور سکیورٹی مسائل سے الگ رکھا جائے۔ افغان طالبان کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی وفد کے ساتھ جن امور پر بات چیت ہوئی ہے ان میں اقتصادی تعاون‘ تجارت اور علاقائی رابطہ کاری شامل ہے اور افغان انتظامیہ کی طرف سے پاکستان سے درخواست کی گئی ہے کہ سیاسی اور سکیورٹی مسائل کو دونوں ملکوں کے درمیان تجارت اور معاشی تعاون پر اثر انداز نہ ہونے دیا جائے اور افغانستان کی طرف سے‘ خصوصاً طورخم اور چمن کے بارڈر کراسنگ سے افغان شہریوں اور خاص طور پر مریضوں کے آنے جانے کو سہل بنایا جائے۔ بیان میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان نے سرحد کے اپنی طرف جن افغان باشندوں کو گرفتار کر رکھا ہے انہیں رہا کیا جائے۔
پاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردانہ حملوں میں اضافے سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں کشیدگی تشویش ناک حد تک بڑھی ہے۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ چار روز سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت اور لوگوں کے آنے جانے کا سب سے بڑا راستہ طورخم بند پڑا ہے اس کے نتیجے میں نہ صرف دونوں طرف تجارتی ا شیا سے لدے ٹرکوں کی لمبی قطاریں کھڑی ہیں بلکہ سرحدی محافظوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا ہے۔ پاکستان کی طرف سے الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ 15 اگست 2021ء کو افغانستان میں اپنی حکومت کے قیام کے بعد افغان طالبان ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کیلئے اپنی سرزمین کو استعمال کرنے سے روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ذرائع سے بھی ان اطلاعات کی صدیق ہوئی ہے کہ کابل میں افغان طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد نہ صرف القاعدہ بلکہ ٹی ٹی پی کے جنگجو اور لیڈر آزادانہ گھومتے پھرتے ہیں۔ اس کے باوجود طالبان رہنماؤں کی طرف سے سرکاری طورپر کہا گیا کہ ٹی ٹی پی کے رہنما اور جنگجو افغانستان میں نہیں ہیں۔ اس لیے اس کالعدم تنظیم کی پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کا سوال ہی پیدا نہی ہوتا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وزیر دفاع کی قیادت میں پاکستان کے اعلیٰ عسکری اور سفارتی اہلکاروں پر مشتمل وفد نے طالبان کی قیادت کو صاف صاف بتا دیا ہے کہ ان کی اطلاع کے مطابق ٹی ٹی پی کے دہشت گرد دونوں ملکوں کی مشترکہ سرحد سے ملحقہ افغان علاقوں کو پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں کیلئے بطور پناہ گاہ استعمال کر رہے ہیں اور افغانستان میں طالبان انتظامیہ کا فرض ہے کہ وہ باہمی مفاد اور امن کی خاطر ان دہشت گردوں کوکنٹرول کریں۔ بات چیت کے بعد افغانستان کی طرف سے جو بیان جاری کیا گیا ہے اس میں ان مسائل پر بحث کا ذکر کیا گیا ہے جو افغانستان کیلئے فوری اور شدید نوعیت کے حامل ہیں، مثلاً سرحد پر افغان باشندوں اور تاجروں کے آنے جانے میں حائل رکاوٹوں کا خاتمہ‘ اقتصادی اور معاشی شعبے میں تعاون کو فروغ دینا‘مگرجہاں تک علاقے میں دہشت گردی خصوصاً کالعدم ٹی ٹی پی اور داعش کی دہشت گردانہ کارروائیوں کا تعلق ہے ان پر بحث کا افغان حکومت کے بیان میں کوئی ذکر نہیں؛ تاہم اس دفعہ افغان طالبان انتظامیہ کی طرف سے یہ دعویٰ نہیں کیا گیا کہ ٹی ٹی پی کا افغانستان میں کوئی وجود نہیں اور یہ کہ ٹی ٹی پی پاکستان کا مسئلہ ہے‘افغانستان سے اس کا کوئی تعلق نہیں‘ اس کو حل کرنے کی ذمہ داری افغان طالبان نہیں بلکہ پاکستان پر عائد ہوتی ہے۔ افغان حکومت کے بیان میں دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو نہ صرف پاکستان اور افغانستان بلکہ خطے کے امن کیلئے ضروری اور مفید قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ افغان حکومت کے بیان میں (پاکستان کی طرف سے اٹھائے گئے ایشوز کا ذکر کیے بغیر) کہا گیا ہے کہ طالبان انتظامیہ نے متعلقہ وزارتوں کو ہدایت جاری کی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان موجود مسائل کے حل کیلئے اقدامات کیے جائیں۔ پاکستانی حکام کے اس دورے کے باوجود پاکستان اور افغانستان کے درمیان اس وقت موجود اہم اور انتہائی حساس مسائل پر کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہوا مگر دورے کے اختتام پر دونوں طرف سے محتاط انداز میں جو کچھ کہا گیا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں ملک کشیدگی میں مزید اضافہ نہیں چاہتے اور ایک دوسرے کا مؤقف سننے اور باہمی شکایات کو دور کرنے پر آمادہ ہیں۔
بھارت کے بعدپاکستان کی سب سے طویل بین الااقوامی سرحد افغانستان سے ملتی ہے۔ وسطی اور مغربی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی‘ ثقافتی اور معاشی تعلقات قائم کرنے کا پاکستان کا دیرینہ خواب بھی افغانستان کے تعاون کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا‘ اس طرح خشکی سے چاروں طرف گھرا ہونے کی وجہ سے سمندر پار اور خصوصاً خطے میں تجارت کیلئے افغانستان کو پاکستان کے تعاون کی ضرورت ہے۔ ماضی میں یہ پیش رفت بیرونی طاقتوں کی مداخلت اور موجودگی کی وجہ سے نہ ہو سکی‘ اب جبکہ بیرونی اثر و نفوذ کا وجود ا ختتام پذیر ہو چکا ہے پاکستان اور افغانستان کو اپنے تعلقات تاریخ‘ جغرافیہ‘ ثقافت اور معیشت کے فطرتی اصولوں کے فریم ورک میں آگے بڑھانے کی اجازت دینی چاہئے۔