بھارت کا ایک مشہور سفارت کار ستندرکمار لامبا (Satinder Kumar Lambah) کی کتاب''In Pursuit of Peace‘‘ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ گزرے ہوئے تقریباً 24 برسوں کے دوران میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کم از کم دو مواقع ضرور ایسے آئے جب دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر کے ایک متفقہ حل پر سمجھوتا ہو گیا تھا‘ بس معاہدات پر دستخط ہونا باقی تھے اور اس کی وجہ دونوں ملکوں کی اس وقت کی حکومتوں کو اچانک اور غیر متوقع حالات کا سامنا تھا۔ ستندر کمار لامبا‘جو پاکستان میں بھارت کے سفیر رہ چکے ہیں‘ پچھلے سال جون میں سورگباشی ہو گئے تھے۔ یہ کتاب ان کی وفات کے بعد شائع کی گئی ہے۔ بھارت کے مشہور صحافی اور اینکر پرسن کرن تھاپر نے اس کتاب کے ریویو میں ان دو اہم واقعات پر سے پردہ اٹھایا ہے۔ ہندوستان ٹائمز میں چھپنے والے اس ریویو کے مطابق ان دو مواقع میں سے ایک نواز شریف اور دوسرا پرویز مشرف کے دور میں آتے آتے رہ گیا۔ اس میں در پردہ سفارتی روابط نے اہم کردار ادا کیا تھا‘ جن کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان مئی 2003ء سے مارچ 2004ء تک 36ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ اس عمل میں پاکستان کی طرف سے نواز شریف اور پرویز مشرف جبکہ بھارت کی طرف سے اٹل بہاری واجپائی اور ڈاکٹر من موہن سنگھ اہم کردار ادا کر رہے تھے۔
کرن تھاپر کا اشارہ 1999ء میں بھارت وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دورۂ لاہور کے دوران میں وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ایک فریم ورک پر اتفاق تھا۔ اس کا ذکر وزیر اعظم شہباز شریف نے اس سال پانچ فروری کو مظفر آباد میں آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کے دوران کیا تھا۔ اس کی تفصیلات مشہور بھارتی صحافی کلدیپ نائر نے بھی اپنے ایک کالم میں بیان کی تھیں۔ کلدیپ نائر ''دوستی بس‘‘ کے ذریعے پاکستان آنے والے بھارتی وزیر اعظم واجپائی کے وفد کے رکن تھے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے مطابق بھارتی وزیر اعظم واجپائی نے لاہور میں مینار پاکستان کے وزٹ کے دوران اعلان کیا تھا کہ اگرچہ ''تقسیم (ہند) ہمارے لیے ایک بہت بڑا گھاؤ تھا‘ مگر اسے بھول کر آج سے ہم پاکستان کو ایک حقیقت تسلیم کر کے اس کے ساتھ تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز کر رہے ہیں‘‘۔ پاکستان کے ایک سیکرٹری خارجہ اور کشمیر پر بھارت کے ساتھ بیک چینل ڈپلو میسی میں مرکزی کردار ادا کرنے والے پاکستانی سفارت کار‘ نیاز اے نائیک کے مطابق وزیر اعظم واجپائی کے دورہ (فروری 1999ء) کے دوران میں دونوں ملکوں کے درمیان مسئلہ کشمیر کو حل کرنے پر چند اصولوں پر مبنی ایک فارمولے پر اتفاق ہو چکا تھا۔ اسے چناب فارمولا کا نام دیا گیا تھا اور اس سال ستمبر میں اسے ایک باقاعدہ معاہدے کی شکل دینے کیلئے سرکاری مذاکرات کا آغاز ہونا تھا‘ مگر مئی 1999ء میں کارگل کی جنگ نے اس روڈ میپ کو ڈی ریل کر دیا۔
دوسرا موقع 2007ء میں پیدا ہوا جب پرویز مشرف کے چار نکاتی فارمولے میں بھارت نے دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی طرف سے کچھ تجاویز پیش کی تھیں۔ ان تجاویز کو اُس وقت کے بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے امرتسر میں اپنی مشہور تقریر میں بیان کیا تھا۔ اس تقریر میں بھارتی وزیر اعظم نے ریاست جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول کو برقرار رکھتے ہوئے ریاست کے دونوں حصوں کے درمیان 'سافٹ بارڈرز‘ کا تصور پیش کیا تھا۔ اس کے مطابق کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان آمد و رفت اور تجارت کی پوری آزادی کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ پاکستان نے چار نکاتی فارمولے پر بھارت کے مثبت رد عمل کا خیر مقدم کیا اور وزیر اعظم منموہن سنگھ کی کشمیر میں 'سافٹ بارڈرز‘ کے تصور میں دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ پرویز مشرف کے دور میں پاکستان کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے بھی اپنی کتاب میں مشرف کے چار نکاتی فارمولے کا ذکر کیا ہے جس میں کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے آر پار تجارت اور آمد و رفت کے علاوہ کشمیر کو چار زونز (Zones) میں تقسیم کر کے اس میں پاکستان اور بھارت کی فوجوں کی بتدریج کمی اور کشمیری عوام کو ان کی مرضی کے مطابق خود مختاری کی بنیاد پر حکومتی معاملات کو چلانے کی آزادی دینا شامل تھی۔ کشمیر کے علاوہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سرکریک اور سیاچین کے مسائل بھی سخت کشیدگی کا باعث تھے۔
جب ڈاکٹر منموہن سنگھ بھارت کے وزیر اعظم تھے تو سرکریک کے مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے پر سمجھوتا ہو گیا تھا اور اطلاعات کے مطابق اس پر دستخط کرنے کیلئے بھارتی وزیر اعظم کے دورۂ پاکستان پر بھی بات چیت ہو رہی تھی‘ لیکن مشرف کے خلاف سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی برطرفی کے مسئلے پر وکلا تحریک کی وجہ سے سارے انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے۔ کرن تھاپر کے ریویو کے مطابق ڈاکٹر من موہن سنگھ کے دورۂ پاکستان کے دوران میں مشرف کے چار نکاتی فارمولے کی بنیاد پر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مسئلے کو بھی حل کرنے پر سمجھوتے کے ایک مسودے پر اتفاق ہو گیا تھا اور اسے ایک باقاعدہ معاہدے کی شکل دے کر دستخط کرنا باقی تھے مگر پاکستان کے سیاسی حالات کی خرابی کی وجہ سے اس کی نوبت نہ آ سکی۔ کرن تھاپر کے ریویو میں ایک نئی اور دلچسپ بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی نے بھی 2014ء کے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے اپنے پیشرو ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور میں پاکستان کے ساتھ مستقل امن اور خصوصاً کشمیر پر ہونے والی پیش رفت کی بنیاد پر نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان معاہدے کو آخری شکل دے کر اس پر پاکستان کے ساتھ دستخط کرنے کیلئے اپنا ذہن تیار کر لیا تھا اور اپریل 2017ء میں مسٹر لامبا کو پاکستان بھیجنے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔
1948ء سے اب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر حل طلب ہے اور اس میں ناکامی کی وجہ سے دونوں ملکوں میں دو بڑی (1948ء اور 1965ء) اور ایک چھوٹی (کارگل) جنگ ہو چکی ہے۔ اسی دوران میں دونوں ملک متعدد بار سمجھوتے پر دستخط کرتے کرتے رہ گئے اور جھگڑا بدستور باقی ہے۔ اس کی بڑی وجہ دونوں ملکوں کے مؤقف کے درمیان بڑا فاصلہ ہے؛ تاہم ستندر لامبا کی کتاب کے ریویو پر مبنی کرن تھاپر کے آرٹیکل سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ بھارت کی طرف سے کشمیر کو ایک طے شدہ مسئلہ قرار دینے کے باوجود کشمیر کا مسئلہ اب بھی زندہ ہے اور جب تک کشمیری عوام کی تسلی کے مطابق اسے مستقل طور پر حل نہیں کیا جاتا یہ زندہ رہے گا۔
بھارت کی پارلیمنٹ میں دو دفعہ قراردادیں منظور کروا کر کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیا جا چکا ہے۔ بھارت کے ہر وزیر اعظم نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ ہر مسئلے پر بات چیت ہو سکتی ہے مگر کشمیر پر نہیں۔ اس کے باوجود آر ایس ایس کے سابق رکن اور کٹر ہندوتوا کی علمبردار جماعت بی جے پی کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو بر ملا تسلیم کرنا پڑا کہ کشمیر کے مسئلے کوحل کئے بغیر پاکستان اور بھارت کے درمیان پائیدار قیام امن کے جن دو مواقع کے کھو جانے کی بات کی گئی ہے وہ فی الواقع درست ہے لیکن اس کے باوجود مسئلہ کشمیر کے حتمی حل کی امید معدوم نہیں ہوئی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ کشمیری عوام کا جذبۂ حریت اور بے مثال قربانیاں ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستان اور بھارت کے عوام میں دونوں ملکوں کے درمیان امن اور تعاون کی خواہش اتنی شدید ہے کہ تین بڑی جنگوں اورایک‘ دو مقامی جنگوں‘ لائن آف کنٹرول پر آئے دن کی جھڑپوں اور تقریباً مستقل کشیدگی سے بھی یہ خواہش معدوم نہیں ہوئی۔