10مارچ کو بیجنگ سے نشر ہونے والی اس خبر نے پوری دنیا کو حیران کردیا کہ مشرقِ وسطیٰ کے دو سب سے اہم ممالک سعودی عرب اور ایران نے سات سال کے تعطل کے بعد تعلقات کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششیں ایک سال سے جاری تھیں اور اس مقصد کے لیے دونوں ملکوں کے حکام کے درمیان پہلے بغداد اور پھر عمان میں مذاکرات ہو رہے تھے۔ ان مذاکرات میں کوئی نمایاں پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے عام تاثر یہ تھا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان وسیع اختلافات کے سبب تہران اور ریاض میں مفاہمت ابھی دور کی بات ہے مگر 10 مارچ کے اعلان نے نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ اس خطے میں دلچسپی رکھنے والے دیگر ممالک کو بھی حیران کر دیا۔ حیرانی کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ پچھلے دو سال سے اسرائیل نے سعودی عرب کے دو قریبی اتحادی ممالک متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ تعلقات قائم کر کے ایران کے خلاف خطے کے دیگر ممالک کا ایک وسیع محاذ بنانے کی کوششوں میں کامیابیاں حاصل کر لی تھیں۔
اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی ان سفارتی کامیابیوں میں امریکہ کی حمایت اور سعودی عرب کی سہولت کاری کا بہت عمل دخل تھا۔ سعودی عرب کی طرف سے سرکاری طور پر اس اعلان کرنے کے باوجود کہ وہ مسئلہ فلسطین کے حتمی حل تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کرے گا‘ اسرائیلی وزیراعظم کا دعویٰ تھا کہ وہ بہت جلد سعودی عرب کو بھی ایران مخالف اتحاد میں شامل کرلیں گے مگر 10 مارچ کے اعلان نے نیتن یاہو کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
حیرانی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس کے امن‘ سلامتی اور ترقی کے لیے اہم مضمرات کی حامل اس پیش رفت میں چین نے سہولت کار کاکردار ادا کیا۔ امریکہ مشرقِ وسطیٰ اور بحر ہند کے خطے میں اپنے مفادات کے لیے چین کو روس سے بھی بڑا خطرہ قرار دے چکا ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے سعودی عرب کی قیادت میں خلیجی ممالک سے ایک وسیع اتحاد کے قیام کی کوشش کی جا رہی تھی۔ گزشتہ سال جولائی میں صدر جوبائیڈن نے اس مقصد کے لیے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا مگر سعودی عرب نے نہ صرف تیل کے مسئلے پر روسی موقف سے متفق ہو کر بلکہ ایران کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا فیصلہ کرکے ا پنی آزاد خارجہ پالیسی کا ثبوت دیا اور اس طرح امریکہ نے ایران اور سعودی عرب کو ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار رکھ کر مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس میں اپنا تسلط اور عسکری قوت کی موجودگی کا جو ایک طویل المیعاد منصوبہ بنا رکھا ہے‘ وہ ناکام ہوتا نظر آ رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم سے پہلے مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس کے علاقوں پر برطانیہ اور فرانس کا کنٹرول تھا لیکن دوسری جنگ عظیم میں فتح یاب ہونے کے باوجود ان دو بڑی نوآبادیاتی طاقتوں میں سکت نہ رہی کہ وہ مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس کے دفاع اور سلامتی کی ذمہ داریوں کو نبھا سکیں۔ ان کی جگہ امریکہ نے لے لی اور بحرروم سے بحر ہند تک فوجی اڈوں کا جال بچھا کر مشرقِ وسطیٰ پر اپنی بالادستی کو قائم کر دیا۔ امریکہ نے اپنی بالادستی کو قائم رکھنے کے لیے پہلے روس (سابق سوویت یونین) اور اب چین کے خطرے کا ڈھونگ رچا رکھا ہے۔ حالانکہ مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس کے ممالک کے ساتھ چین کے تعلقات کی نوعیت سابقہ نوآبادیاتی طاقتوں اور خود امریکہ کے ان خطوں کے ممالک کے ساتھ تعلقات کی نوعیت سے بالکل مختلف ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں چین کی ڈپلومیسی کی بنیاد دوطرفہ تعلقات پر ہے اور یہ تعلقات زیادہ تر تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں ہیں۔ چین مشرقِ وسطیٰ کے کسی فوجی اتحاد کا رکن نہیں اور نہ ہی اس نے یہاں کسی ملک میں اپنا فوجی اڈہ قائم کیا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں چینی ڈپلومیسی کا واحد مقصد دوطرفہ بنیادوں پر اور باہمی مفاد کے اصولوں کی بنیاد پر سفارتی‘ تجارتی‘ معاشی اور ثقافتی تعلقات کو فروغ دینا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہونے کی حیثیت سے چین نے علاقائی تنازعات‘ جن میں مسئلہ فلسطین نمایاں ہے‘ کو اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق پُرامن طریقے سے حل کرنے کی حمایت کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس کے علاقوں میں چین کے اثر و رسوخ اور اس کے لیے عوامی سطح پر خیر سگالی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکہ کو اس پر پریشانی لاحق ہے اور امریکہ سے زیادہ اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو پریشان ہیں کیونکہ ان کی خارجہ اور داخلہ پالیسی کا تمام تر انحصار ایران اور سعودی عرب کے درمیان محاذ آرائی کو فروغ دینے پر تھا لیکن ایران اور سعودی عرب کے فیصلے سے نیتن یاہو کو نہ صرف خارجہ پالیسی میں ایک اہم سیٹ بیک کا سامنا کرنا پڑا ہے بلکہ خود اپنے ملک میں ان کے اقتدار کا سنگھاسن ڈولتا ہوا نظر آتا ہے کیونکہ عدالتی نظام میں اہم تبدیلیوں اور اصلاحات کی اسرائیلی عوام کی طرف سے جو ملک گیر مخالفت کی جا رہی ہے‘ اس نے نیتن یاہو اور ان کے انتہا پسند اور قدامت پسند ساتھیوں کی پہلے سے ہی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔
بیجنگ سے ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کو بحال کرنے کے اعلان کا ایک اہم اور دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ اس کا وسیع پیمانے پر خیر مقدم کیا گیا ہے۔ سعودی عرب نے اسے خوش آمدید کہا ہے اور اسے خطے کے امن اور ترقی کے لیے مفید قرار دیا ہے۔ عراق‘ شام اور خلیج فارس کے دیگر ممالک اس پر خوش ہیں کیونکہ سعودی عرب ان کا اتحادی مگر ایران ان کا ہمسایہ ملک ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان مخاصمت اور کشیدگی نے سب سے زیادہ پیچیدگیاں اور مشکلات کا خلیج فارس کی عرب ریاستوں کو سامنا کرنا پڑا ہے۔ تیل کی دولت سے وہ اپنے ہاں ترقی اور خوشحالی کے لیے جن منصوبوں پر عمل کرنا چاہتے ہیں‘ ایران اور سعودی عرب کے درمیان محاذ آرائی اور کشیدگی کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہو رہے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اعلان مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس میں چین کی ایک بہت بڑی سفارتی فتح کے مترادف ہے۔ سعودی عرب اور ایران مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس میں چین کے لیے تیل کی درآمدات کے حوالے سے اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ اب ان خطوں میں چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی توسیع کے راستے میں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں رہ جائے گی۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان چین کی مدد سے کشیدگی کا خاتمہ اور دونوں ملکوں کا باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کا فیصلہ اتنا بڑا واقعہ ہے کہ اس کے دور رس جیوپولیٹکل اور جیو اکنامک اثرات صرف مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس تک ہی محدود نہیں ہوں گے بلکہ ان خطوں کے ارد گرد دوسرے خطوں مثلاً جنوبی ایشیا‘ افریقہ اور بحر ہند کے ممالک بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔