فارن آفس کی طرف سے یہ بیان کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری چار اور پانچ مئی کو بھارتی ریاست گوا میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس میں شرکت کریں گے‘ نہ صرف پاکستان اور بھارت کے گزشتہ تقریباً پونے چار سال سے کشیدہ تعلقات کے تناظر میں ایک خوش آئند خبر ہے بلکہ جنوبی ایشیا اور اس سے ملحقہ علاقوں میں بھی امن‘ استحکام اور ترقی کے امکانات کو روشن کرنے والی ایک اہم پیش رفت ہے۔
گزشتہ جنوری میں جب بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کی طرف سے اپنے پاکستانی ہم منصب کیلئے بھارت میں اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت موصول ہوئی تھی تو یقین سے نہیں کہا جا سکتا تھا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ اس کانفرنس میں شرکت کیلئے بھارت جائیں گے‘ حالانکہ ایس سی او کے رکن ہونے کی وجہ سے پاکستانی اور بھارتی حکام گزشتہ سات سالوں سے اس تنظیم کے کئی اجلاسوں میں شرکت کر چکے ہیں‘ جن میں سربراہی اجلاس بھی شامل ہیں‘ لیکن یہ سب اجلاس بھارت سے باہر منعقد ہوئے تھے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ 8ملکوں کی تنظیم ایس سی او کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بھارت میں ہو رہا ہے۔
5اگست 2019ء کے کشمیر میں بھارت کے یکطرفہ اور غیرقانونی اقدام اور اس کے نتیجے میں پاکستان کی طرف سے سخت ردِ عمل کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں تعطل چلا آ رہا ہے۔ اگرچہ دونوں ملک اس کے جاری رہنے کے حق میں نہیں اور ملک کے اندر اور باہر سے اسے ختم کرنے اور باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اپیلیں بھی ہوتی رہی ہیں تاہم پاکستان کا اصرار ہے کہ جب تک بھارت 2019ء کے اقدامات کو واپس لے کر بھارتی آئین کے منسوخ شدہ آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کی سابقہ حیثیت کو بحال نہیں کرتا‘ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے نہ تو کوئی اقدام کیا جائے گا اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی بات چیت کی جائے گی۔
ان حالات میں وزیر خارجہ کی بھارت میں منعقدہ ایس سی او کانفرنس میں شرکت ایک مثبت اقدام اور دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے گہرے بادلوں کے چھٹنے کی امید کی ایک کرن ہے۔ اگرچہ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے واضح کر دیا ہے کہ وزیر خارجہ کا دورۂ بھارت صرف ایس سی او کانفرنس میں شرکت کیلئے ہے اور اسلام آباد یا نئی دہلی کہیں سے بھی وزیر خارجہ کی اپنے بھارتی ہم منصب سے کانفرنس سے ہٹ کر کسی ملاقات کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔ پاکستانی وزیر خارجہ کی بھارتی دارالحکومت میں موجودگی سے پاک بھارت ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کی کوشش کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ خصوصاً اس بنیاد پر کہ کانفرنس میں چین کے وزیر خارجہ قن گانگ (Qin Gang) بھی موجود ہوں گے۔ چین پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی سے پاک تعلقات کا پُرجوش حامی ہے کیونکہ اسے یقین ہے کہ جنوبی ایشیا کے ان دو بڑے ممالک کے درمیان تعاون خطے میں امن کے استحکام اور ترقی و خوشحالی کا ضامن بن سکتا ہے۔
آج سے سات برس قبل چین نے انہی توقعات کے ساتھ پاکستان اور بھارت کو ایس سی او کا مستقل رکن بنانے کی حمایت کی تھی‘ حالانکہ یہ تنظیم اپنی مستقل رکنیت کو وسعت دینے کے حق میں نہیں رہی۔ اس کے علاوہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان چین کی مدد سے مصالحت پر معاہدے کے بعد پورے مشرقِ وسطیٰ میں جتنی تیزی سے امن اور مصالحت کی لہر رواں ہے‘ اس کا جنوبی ایشیا پر بھی اثر پڑنا ناگزیر ہے اور چین بھارت میں ہونے والی اس کانفرنس میں بھی یقیناً اپنے کردار کا جائزہ لینے کی کوشش کرے گا۔ خود پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ ڈھائی برسوں کے دوران بعض ایسے براہِ راست مثبت اقدامات پر اتفاق اور ان پر عمل درآمد ہو چکا ہے جو دونوں ملکوں کی اعلیٰ قیادت کے ایک دوسرے کے بارے میں مثبت اور تعمیری رویے کو منعکس کرتے ہیں‘ مثلاً فروری 2021ء میں پاکستان اور بھارت کے ڈی جی ایم اوز کے درمیان رابطوں کے نتیجے میں لائن آف کنٹرول کے آر پار گولہ باری اور فائرنگ کو روکنے پر جو مفاہمت ہوئی تھی‘ اور 2003ء کے سیز فائر معاہدے پر سختی سے عمل درآمد کرنے پر جو اتفاق ہوا تھا‘ اس کے نتیجے میں لائن آف کنٹرول پر امن ابھی تک قائم ہے اور اس کے دونوں طرف رہنے والے لوگ امن اور سکون کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
علاقائی اور عالمی سطح پر تیزی سے وقوع پذیر ہونے والی جیو پولیٹکل تبدیلیوں نے پاکستان اور بھارت کو بھی آہستہ آہستہ اپنی پُرانی اور آئوٹ آف ڈیٹ پالیسیوں کا از سرِ نو جائزہ لینے پر مجبور کر دیا ہے‘ مثلاً واہگہ سے پاکستان کے راستے بھارت سے افغانستان اشیا کی ترسیل پر پاکستان کی ہر حکومت نے پابندی لگا رکھی ہے‘ مگر 2021ء میں افغانستان سے امریکی انخلا اور طالبان کی حکومت کے قیام کے نتیجے میں افغان عوام کی غذائی اجناس کی سخت ضرورت کو پورا کرنے کیلئے پاکستان نے بھارت کو واہگہ کے راستے ہزاروں ٹن گندم افغانستان بھیجنے کی اجازت دی۔ اگرچہ یہ اقدام خالصتاً انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کیا گیا تھا اور یہ ون ٹائم رعایت تھی‘ مگر ضرورت پڑنے پر اس کو دہرایا بھی جا سکتا ہے۔ افغانستان کو اپنی تجارتی اشیا‘ جن میں زیادہ تر غذائی اجناس ہوتی ہیں‘ کو پاکستان کے راستے واہگہ سرحد تک اپنے ٹرکوں پر لے جانے کی اجازت دی گئی ہے‘ مگر واپسی پر یہ افغان ٹرک خالی آتے ہیں کیونکہ پاکستان کے راستے افغان بھارت براہِ راست تجارت پر پابندی ہے۔ پاکستان کے متعدد خصوصاً کاروباری حلقوں کی طرف سے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کی بحالی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے کیونکہ ان کے خیال میں پاکستان ایسی برآمدات میں اضافہ کرکے بھارت کی وسیع کنزیومر مارکیٹ سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔دنیا کو بدلتے ہوئے موسم (Climate Change) اور قدرتی آفات کی صورت میں جو نئے چیلنج درپیش ہیں‘ انہوں نے بھی پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ پیدا کرنے اور تعاون پر مجبورکر دیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے ماہرین اب بین الاقوامی سطح پر منظم ہونے والے صحت‘ موسمی تغیرات اور قدرتی آفات پر سیمینار اور بحثوں میں ایک ساتھ حصہ لے رہے ہیں۔ اس قسم کا ایک آن لائن سیمینار گزشتہ دنوں نئی دہلی میں منعقد ہوا تھا‘ جس میں پاکستان کی وزیر برائے موسمی تغیرات شیری رحمان نے ورچوئل شرکت کی تھی۔
چار اور پانچ مئی کو بھارتی ریاست گوا میں منعقد ہونے والی ایس سی او وزرائے خارجہ کی اس کانفرنس میں شرکت کیلئے بلاول بھٹو کا دورۂ بھارت کسی پاکستانی وزیر خارجہ کا 12سال کے بعد پہلا دورہ ہوگا۔ 2011ء میں حنا ربانی کھر نے ملک کی وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے بھارت کا دورہ کیا تھا۔ 2008ء کے ممبئی کے واقعات کی وجہ سے 2011ء میں بھی پاک بھارت تعلقات سخت کشیدہ تھے مگر تجارت اور لوگوں کی ایک دوسرے کے ہاں آمد و رفت جاری تھی۔ یہاں تک کہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے آر پار بارٹر ٹریڈ اور مظفر آباد سری نگر بس سروس بھی معمول کے مطابق جاری تھی‘ لیکن بلاول بھٹو زرداری کو ایک ایسے موقع پر بھارت جانے کا اتفاق ہو رہا ہے جب دونوں ملکوں کے درمیان تجارت اور دیگر روابط تقریباً منقطع ہیں۔ وزیر خارجہ کا مشن صرف ایس سی او وزرائے خارجہ کانفرنس میں شرکت کرنا ہے مگر انہیں اس سے ہٹ کر مہمان ملک کے رہنمائوں سے ملاقات کرکے باہمی تعلقات پر بات چیت کرنے کے بھی مواقع حاصل ہوں گے۔ کیا وزیر خارجہ ان مواقع سے فائدہ اٹھا سکیں گے؟ پاکستانی قوم ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی برادری کو بھی یہ دیکھنے کا شدت سے انتظار ہوگا؟