گزشتہ تقریباً ایک سال سے پاکستان اپنی تاریخ کے جس سنگین ترین سیاسی بحران سے دوچار چلا آ رہا ہے‘ اس کے حل کی ایک ہلکی سی امید پیدا ہوئی ہے۔ حکمران اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور اپوزیشن پارٹی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان گزشتہ دنوں( 27 اور 28 اپریل کو) ہونے والے مذاکرات میں دونوں طرف سے پیش رفت کی نوید سنائی گئی ہے۔ ملک کے آئندہ انتخابات پر ہونے والے ان دو روزہ مذاکرات میں اطلاعات کے مطابق فریقین کے درمیان اختلافات کا فاصلہ کم ہوا ہے۔ حکومت نے قومی بجٹ کے بعد اسمبلیوں کو تحلیل کرنے اور ایک ہی دن عام انتخابات کے انعقاد پر آمادگی کا اظہار کیا جبکہ اپوزیشن جماعت مئی میں اسمبلیوں کو تحلیل کرنے اور جولائی میں انتخابات پر ابھی تک مُصر ہے۔ امید ہے دو مئی بروز منگل جب یہ مذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے تو دونوں طرف سے مزید لچک کے اظہار کے نتیجے میں الیکشن کی تاریخ پر اتفاق ہو جائے گا۔ اس سے قبل حکمران اتحاد اور پی ٹی آئی کے درمیان کسی متفقہ تاریخ پر اتفاق اس لئے ناممکن نظر آ رہا تھا کہ اول الذکر قومی اسمبلی اور باقی دو صوبائی اسمبلیوں کی آئینی مدت (13 اگست) پوری ہونے کے بعد 60 دنوں کے اندر اکتوبر یا نومبر میں پورے ملک میں ایک ساتھ ا نتخابات کے حق میں تھا جبکہ موخرالذکر فریق فوری طور پر قومی انتخابات کا مطالبہ کر رہا تھا۔
سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان 9 اپریل 2022ء کو اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور ہونے کے فوری بعد انتخابات چاہتے تھے اور اس کیلئے انہوں نے حکومت پر ہر قسم کا دبائو ڈالا۔ پہلے ملک کے طول و عرض میں بڑے بڑے عوامی اجتماع منظم کرکے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ اس کا مقصد اسٹیبلشمنٹ کو مرعوب کر کے اسے حکومت پر دبائو ڈالنے پر مجبور کرنا تھا۔ اس سے کام نہ چلا تو لاہور سے اسلام آباد تک دو مواقع پر (مئی اور اکتوبر) احتجاجی جلوس (لانگ مارچ )کے ذریعے اسلام آباد تک محدود وفاقی حکومت کو انتخابات کے اعلان پر مجبور کرنے کی کوشش کی گئی‘ مگر وزیر اعظم شہباز شریف کی مخلوط حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی۔ یاد رہے کہ اُس وقت نہ صرف پنجاب اور کے پی بلکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی پی ٹی آئی کی حکومتیں قائم تھیں۔ بہت سے تبصرہ کاروں کے نزدیک عمران خان کو اپنا وقت اور توانائی قبل از وقت انتخابات کی لا حاصل جدوجہد میں صرف کرنے کے بجائے پاکستان کے ان علاقوں‘ جن میں ملک کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا اور امیر ترین صوبہ پنجاب بھی شامل تھا‘ میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنی چاہئے تھی۔ وہ بڑی آسانی سے وفاقی حکومت کو مفلوج اور غیر مؤثر کر سکتے تھے۔ اسمبلیوں کی آئینی مدت ختم ہونے کے بعد یعنی اکتوبر یا نومبر 2023 ء میں ان کی جیت یقینی تھی مگر بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے آخری حربے کے طور پر جنوری میں پنجاب اور کے پی کی اسمبلیوں کو توڑ دیا۔ قومی اسمبلی کی نشستوں سے مستعفی ہونے کی طرح پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیوں کی تحلیل پر بھی ان کی اپنی پارٹی کو سخت تحفظات تھے‘ لیکن عمران خان کا خیال تھا کہ پنجاب اور کے پی کی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد حکمران اتحاد کے سامنے عام انتخابات کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں رہے گا۔ سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کی بنیاد تین رکنی بینچ‘ جس میں جسٹس اعجازالاحسن‘ جسٹس منیب اختر شامل تھے اور جس کی سربراہی چیف جسٹس عمر عطا بندیال کر رہے تھے‘ کے 4 اپریل کے فیصلے نے عمران خان کے اس یقین کو اور بھی پختہ کر دیا کہ اب وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کو 14 مئی کے انتخابات اور توہین عدالت میں سے کسی ایک کا چنائو کرنا پڑے گا‘ لیکن جیسا کہ سترہویں صدی کے ایک مشہور انگریز سیاسی فلسفی‘ تھامس ہابس نے کہا تھا کہ ''تلوار کے بغیر تحریریں یا معاہدات محض کاغذ کا پُرزہ ہیں‘‘ عدلیہ کو 14 مئی کے بجائے اسمبلیوں کے ایک ہی دن عام انتخابات کے انعقاد کی ایک متفقہ تاریخ پر راضی ہونے کے لیے سیاسی پارٹیوں کو موقع دینا پڑا۔
سیاسی پارٹیوں کے درمیان مذاکرات کے دو رائونڈ ہو چکے ہیں اور تیسرا دو مئی کو ہونے والا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فریقین کے درمیان اختلافات ابھی بہت گہرے ہیں۔ حکومتی اتحاد بجٹ کی منظوری کے بعد عام انتخابات کیلئے کوئی تاریخ مقرر کرنے پر تیار ہے اور اس پوزیشن سے کسی طور پر پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں۔ دوسری طرف عمران خان 14 مئی سے پہلے تمام اسمبلیوں کو تحلیل کرنے اور عام انتخابات منعقد کرنے کا الٹی میٹم دے چکے ہیں۔ ایسا نہ ہونے کی صورت میں انہوں نے مذاکرات کے بائیکاٹ کی دھمکی دے رکھی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مذاکرات کچھ دنوں کیلئے تعطل کا شکار ہو جائیں کیونکہ اب 14 مئی کو تمام اسمبلیوں کی تحلیل کا کوئی امکان نظر نہیں آتا اور نہ ہی سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت اس دن پنجاب اور کے پی کی اسمبلیوں کے انتخابات کرائے جا سکتے ہیں۔ اس لیے فریقین کو مذاکرات کی طرف ہی رجوع کرنا پڑے گا۔
ملک بھر میں ان مذاکرات کا خیر مقدم کیا گیا ہے اور ابتدائی رائونڈ کے نتائج پر جس طرح فریقین نے اطمینان کا اظہار کیا ہے‘ اس سے ان مذاکرات سے عوامی توقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ عوامی سطح پر مذاکرات کے حق میں بڑھتی ہوئی حمایت فریقین پر ایک اہم پریشر کی حیثیت رکھتی ہے اور انہیں ان مذاکرات کا رخ اختیار کرنا پڑے گا۔ ملک میں تیزی سے اس بات پر قومی اتفاق رائے ابھر رہا ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے اس سنگین ترین بحران‘ جو کہ بنیادی طور پر ایک سیاسی بحران ہے‘ کا حل سیاسی طریقے سے ہی نکالا جا سکتا ہے کیونکہ ماضی کے سیاسی بحرانوں کے غیر سیاسی (فوج اور عدلیہ) حل دیرپا اور سود مند ثابت نہیں ہوئے‘ بلکہ موجودہ بحران کے پیدا کرنے اور اسے پیچیدہ بنانے میں ماضی کے ان فیصلوں اور غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت کا بڑا ہاتھ ہے۔
دوسری امید افزا بات یہ ہے کہ دونوں طرف کے وفود میں منجھے ہوئے دور اندیش سیاستدان بھی موجود ہیں جو باہمی رنجشوں‘ اختلافات اور اقتدار کی کشمکش کے باوجود تمام سیاسی پارٹیوں اور سیاسی کارکنوں کو ایک وسیع تر برادری کا رکن سمجھتے ہیں‘ جو مختلف نظریات کے باوجود اشتراک اور تعاون پر یقین رکھتے ہیں۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ ان سب کا مفاد موجودہ سیاسی نظام کے استحکام میں مضمر ہے اور اس کیلئے ضروری ہے کہ غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت کے بغیر سیاسی قوتیں باہمی مذاکرات کے ذریعے اتفاقِ رائے پیدا کریں۔
پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ایسا ممکن ہے‘ قیام پاکستان کے بعد انتہائی نامساعد حالات کے باوجود مختلف نظریات کی حامی سیاسی پارٹیوں میں قومی اتفاق رائے کی بنیاد پر 1956ء کے آئین کی تشکیل اور 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بھارت کے ہاتھوں شکست سے پیدا ہونے والے انتہائی مخدوش حالات کے باوجود 1973ء کے متفقہ آئین کا نفاذ اس کی دو اہم مثالیں ہیں۔