پاکستان اور بھارت کو شنگھائی تعاون تنظیم کی جس سالانہ (2017ء) سربراہی کانفرنس میں مستقل اراکین کی حیثیت سے شامل کیا گیا تھا‘ اس میں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بھارتی ہم منصب نریندر مودی اپنے اپنے ملکوں کی نمائندگی کر رہے تھے۔ اس موقع پر دونوں رہنمائوں نے ہاتھ تو ملایا لیکن دو طرفہ ملاقات نہیں ہوئی‘ حالانکہ اطلاعات کے مطابق کانفرنس میں شریک چین کے صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن نے بہت کوشش کی۔ تاہم کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی وزیراعظم نے اپنے بھارتی ہم منصب کو ایس سی او کا مستقل رکن بننے پر مبارک باد دی۔ اس کے علاوہ باقی تمام ممبران اور شرکا نے پاکستان اور بھارت کی شمولیت کا خیر مقدم کیا اور امید ظاہر کی کہ جنوبی ایشیا کے ان دو بڑے ممالک کی شمولیت کے بعد ایس سی او کی نہ صرف عالمی اہمیت میں اضافہ ہوگا بلکہ جنوبی ایشیا میں امن‘ استحکام اور ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز بھی ہوگا۔
اسی قسم کی خواہش کا اظہار کرنیوالے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس بھی تھے‘ جو کانفرنس میں اقوام متحدہ کی نمائندگی کرتے ہوئے شرکت کر رہے تھے۔ اپنے مختصر ریمارکس میں انہوں نے کہا کہ ایس سی او میں شرکت کے بعد پاکستان اور بھارت کو اپنے اختلافات دور کرنے کا ایک نیا موقع ملے گا‘ لیکن چونکہ ایس سی او کا چارٹر دو طرفہ تنازعات اور اختلافات پر بحث کی اجازت نہیں دیتا‘ اس لیے کانفرنس کے دوران اس ضمن میں مزید کوئی کارروائی نہیں ہوئی‘ لیکن کانفرنس کے فوراً بعد پاکستان اور بھارت کی طرف سے دونوں ملکوں کے لیے خیر سگالی کے جو اقدامات کیے گئے ان سے ظاہر ہوتا تھا کہ ایس سی او فریم ورک کا حصہ بننے کے بعد پاکستان اور بھارت اپنے کشیدہ تعلقات میں نئے دور کا آغاز کرنے پر آمادہ ہیں مثلاً بھارت نے اپنی جیلوں میں قید گیارہ پاکستانیوں کو فوراً رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
مبصرین کے مطابق ایس سی او کانفرنس کے موقع پر پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے بھارتی وزیراعظم کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے غیررسمی ملاقات میں ان تمام پاکستانی قیدیوں کو رہا کرنے کی درخواست کی تھی جو بھارتی جیلوں میں اپنی سزا کی مدت پوری کر چکے تھے۔ پاکستان کی طرف سے ایس سی او میں بھارت کے ہمراہ شرکت پر خطے میں امن کے حوالے سے زیادہ مثبت ردِعمل کا اظہار کیا گیا تھا مثلاً وزیراعظم نواز شریف نے اس موقع پر اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ایس سی او کی شکل میں پاکستان کو ایک ایسے طاقتور پلیٹ فارم کا حصہ بننے کا موقع حاصل ہوا ہے جس کے ذریعے خطے میں امن کی کوششوں کو تقویت ملے گی۔اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ریمارکس سے ملتا جلتا ردِ عمل چین کی وزارتِ خارجہ کا تھا جس میں امید ظاہر کی گئی تھی کہ ایس سی او کے مستقل رکن بن جانے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں کمی ہو گی اور اس کی جگہ دونوں ملکوں میں تعاون بڑھے گا جس کے نتیجے میں جنوبی ایشیا کے خطے میں امن اور ترقی کے لیے سازگار ماحول پیدا ہو گا۔
جون 2017ء میں بھارت کی طرف سے 11پاکستانی قیدیوں کی رہائی کے بدلے میں پاکستان نے بھی جولائی کے پہلے ہفتے میں 78بھارتی قیدیوں‘ جن میں اکثریت ماہی گیروں کی تھی‘ کو رہا کرکے واہگہ بارڈر پر بھارتی حکام کے حوالے کیا تھا‘ لیکن دونوں کے تعلقات میں کوئی نمایاں پیش رفت نہ ہو سکی بلکہ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ اور گولہ باری کے تبادلے میں تیزی آ گئی۔ جولائی کے پہلے ہفتے میں لائن آف کنٹرول کے آر پار دونوں طرف سے اتنی شدید گولہ باری کی گئی کہ سرحد کے ساتھ علاقوں میں آباد ہزاروں پاکستانی باشندوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر متبادل مقامات کا رخ کرنا پڑا۔ اسی اثنا میں پاکستان میں حکومت تبدیل ہو گئی۔ وزیراعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک فیصلے کے تحت نہ صرف وزارتِ عظمیٰ سے الگ ہونا پڑا۔ انہیں سیاسی عہدہ رکھنے سے بھی تاحیات روک دیا گیا تھا۔ ان کی حکومت پر جو الزامات لگائے جاتے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا چاہتے تھے۔
اسی زمانے میں بھارت اور امریکہ کے درمیان دفاعی‘ معاشی اور سکیورٹی کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کے لیے بہت سے اہم دو طرفہ معاہدے بھی ہوئے۔ اس کے علاوہ امریکہ نے جاپان اور آسٹریلیا کو ساتھ ملا کر چین کے خلاف جو غیررسمی فوجی اتحاد قائم کر رکھا تھا‘ اس میں بھارت کو بھی شامل کر لیا۔ اس نئے اتحاد کا نام کواڈ (Quad) رکھ دیا گیا ہے۔ بحرالکاہل اور ساؤتھ چائنا سی کے ارد گرد امریکہ‘ جاپان اور آسٹریلیا کی جو مشترکہ بحری مشقیں ہوا کرتی تھیں‘ان میں بھارت کے بحری جنگی جہازوں اور آبدوزوں نے بھی شرکت کی اور ''مالابار جنگی مشقوں‘‘ کے نام سے ان کا ہر سال باقاعدہ انعقاد بھی ہونے لگا۔ ایک آدھ موقع پر یہ جنگی مشقیں خلیج بنگال میں آبنائے ملاکا‘ بحرِ ہند اور ساؤتھ چائنا سی کے درمیان ایک تنگ آبی گزرگاہ ہے جس کے راستے چین کی بیشتر توانائی اور خام مال کی ضروریات گزرتی ہیں۔
اس اہم آبی گزرگاہ کے قریب مشترکہ بحری جنگی مشقوں کے انعقاد کا واحد مقصد امریکہ اور بھارت کی طرف سے چین کو یہ پیغام پہنچانا تھا کہ ہمالیائی سرحد پر بھارت پر دبائو کا جواب بحر ہند کی اس اہم گزرگاہ یعنی چوک پوائنٹ (Choke Point) کے بلاکیڈ کی صورت میں بھی آ سکتا ہے۔ اس کے باوجود چین اور بھارت میں دو طرفہ تجارت نہ صرف برقرار رہی بلکہ اس میں اضافہ ہوتا گیا۔ 2020ء میں لداخ کے علاقے میں متنازع جگہ پر قبضہ کرنے کے لیے چین اور بھارت کے درمیان خونریز جھڑپیں ہوئیں مگر نہ تو چین اور بھارت کے دو طرفہ تعلقات متاثر ہوئے اور نہ شنگھائی تعاون تنظیم میں بھارت کی دلچسپی کم ہوئی‘ بلکہ وسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ تجارتی‘ معاشی اور ثقافتی تعلقات کو قائم کرنے کے لیے بھارت گزشتہ 70سال سے جو کوشش کر رہا تھا‘ اور یہ کوشش اس وجہ سے ناکام ہوتی چلی آ رہی ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین سے بھارت کو افغانستان اور وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت کرنے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ ایس سی او کی چھتری تلے کامیاب ہونے کا امکان نظر آ رہا ہے۔ اس وقت جنوبی ایشیا کے ممالک میں بھارت وسطی ایشیائی ممالک کا سب سے بڑا تجارتی (دو بلین ڈالر) پارٹنر ہے۔ بھارت کی حکمت عملی یہ ہے کہ پاکستان کو بائی پاس کرکے ممبئی سے چا بہار (ایران) اور اس سے آگے آذربائیجان سے روس تک جانے والے نارتھ سائوتھ تجارتی کوریڈور کے ذریعے نہ صرف ایشیا بلکہ روس کے ساتھ بھی تجارتی اور معاشی تعلقات قائم کیے جائیں۔
ایس سی او میں شمولیت میں پاکستان کو بھارت سے بھی زیادہ فائدہ نظر آ رہا ہے کیونکہ بھارت کے برعکس پاکستان کے لیے وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ رابطہ کرنا آسان ہے کیونکہ 2010ء میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ٹرانزٹ ٹریڈ کا جو معاہدہ ہوا تھا اس کے تحت افغانستان کو پاکستان کے راستے اپنی برآمدات واہگہ کے راستے بھارت پہنچانے کی رعایت کے بدلے افغانستان نے اپنی سرزمین سے وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ٹرانس افغان ریلوے (مزار شریف‘ ہرات اور کابل) کی پشاور تک توسیع کے بعد پاکستان اور وسطی ایشیائی ملکوں کے درمیان تجارت میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔ تاجکستان اور ازبکستان پاکستانی بندرگاہوں کے ذریعے سمندر پار تجارتی مال بھیجنے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ امید ہے کہ ایس سی او کے فریم ورک کے تحت نہ صرف جنوبی اور وسطی ایشیائی خطوں کے درمیان روابط مضبوط ہوں گے بلکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں کمی اور امن کے فروغ میں مدد بھی ملے گی۔