9 اور 10 مئی کے بعد پاکستان کے ہر شہری کی زبان پر ایک ہی سوال ہے کہ آگے کیا ہو گا؟ اور کسی کے پاس اس کا جواب نہیں کیونکہ گزشتہ سال اپریل سے ملک کے سیاسی حالات نے ایسی اچانک اور غیر متوقع کروٹیں لی ہیں کہ اب آنے والے وقت کے بارے میں کوئی حتمی اور یقینی بات کہنے کی گنجائش نہیں رہی۔ مئی کے پہلے ہفتے میں پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کے نمائندوں کے درمیان بحران کو حل کرنے پر جو مذاکرات ہوئے‘ ان پر اگرچہ شروع سے دونوں طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا تھا اور مذاکرات بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئے مگر آخری راؤنڈ کے اختتام پر پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کے نمائندوں نے جو بیانات دئیے وہ مایوس کن نہیں تھے‘ بلکہ کافی حد تک امید افزا تھے۔ پی ٹی آئی کی طرف سے مذاکرات میں حصہ لینے والے سینیٹر علی ظفر سے جب سوال پوچھا گیا کہ کیا مذاکرات دوبارہ شروع ہو سکتے ہیں؟ تو انہوں نے اسے خارج از امکان قرار نہیں دیا تھا۔ مذاکرات کے حوالے سے فریقین نے میڈیا کو جو اطلاعات فراہم کی تھیں‘ ان کے مطابق فریقین کے درمیان تین اہم نکات پر اتفاق ہو گیا تھا: قومی اور صوبائی انتخابات ایک ہی دن ہو ں گے‘ انتخابات نگران حکومتوں کی نگرانی میں ہوں گے اور انتخابات کے جو بھی نتائج ہوں گے‘ انہیں تمام فریقین تسلیم کریں گے۔ البتہ انتخابات کی تاریخ پر اتفاق نہ ہو سکا۔
پی ڈی ایم بجٹ کی منظوری کے بعد کسی تاریخ پر آمادگی کا اظہار کر چکی تھی جو کہ ستمبر کی کوئی تاریخ ہو سکتی تھی یعنی الیکشن کمیشن کی طرف سے دی گئی آٹھ اکتوبر کی تاریخ سے تقریباً ایک ماہ قبل کی تاریخ پر حکومت راضی ہو چکی تھی‘ مگر عمران خان نے اعلان کیا کہ ان کی طرف سے ایک ہی دن صوبائی اور قومی انتخابات کے انعقاد پر اتفاق 14 مئی سے پہلے قومی اسمبلی اور سندھ وبلوچستان کی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے سے مشروط ہے۔ انہوں نے الٹی میٹم دیا کہ اگر 14 مئی سے پہلے اسمبلیوں کو تحلیل کرکے عام انتخابات کا اعلان نہ کیا گیا تو وہ مذاکرات سے واک آؤٹ کر جائیں گے۔ وفاقی حکومت نے 14 مئی سے پہلے قومی اسمبلی اور سندھ اور بلوچستان اسمبلی کو تحلیل کرنے سے انکار کر دیا۔ یوں ڈھیر ساری امیدوں کے ساتھ شروع ہونے والے حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات صرف تین راؤنڈز کے بعد بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئے۔ ان کے دوبارہ شروع ہونے کا بھی کوئی امکان نہ رہا کیونکہ عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ اب سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے اور درخواست کریں گے کہ چار اپریل کے فیصلے (14 مئی کو انتخابات کرانے کے حکم) پر عمل درآمد کرائے۔
عمران خان کا خیال تھا کہ سپریم کورٹ اپنے چار اپریل کے فیصلے پر عمل درآمد میں ناکامی پر وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرے گی مگر 9 اور 10مئی کے واقعات نے صورتحال کو یکسر بدل دیا۔ اس سے پہلے بظاہر پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم آمنے سامنے نظر آتے تھے لیکن 9 اور 10 مئی کو دفاعی تنصیبات پر حملوں کے بعد اس پر فوج کی طرف سے رد عمل کا آنا ناگزیر تھا۔ اس ردعمل کا اظہار 15 مئی کو کور کمانڈرز کے سپیشل اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ میں کیا گیا۔ اس سے اگلے دن نیشنل سکیورٹی کمیٹی نے اپنے ایک خصوصی اجلاس میں کور کمانڈرز کے اجلاس کے اعلامیہ کی توثیق کر دی گئی۔ اس علامیہ میں 9 مئی کو ہونے والے واقعات کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی گئی اور اس بات کا اعلان کیا گیا کہ دفاعی تنصیبات اور سرکاری اور نجی جائیدادوں پر حملہ کرنے اور انہیں نقصان پہنچانے والوں کے خلاف آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ آج کل جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسی اعلامیہ کے تحت کیا جا رہا ہے۔ فوج نے دفاعی تنصیبات خصوصاً لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس (جناح ہاؤس) پر حملے کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے اور اب تک جو کارروائیاں کی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے طول و عرض میں ان حملوں میں ملوث افراد سے کسی قسم کی رعایت نہیں کی جائے گی۔ خود عمران خان کے رویے نے فوج کو سخت رویہ اپنانے پر مجبور کیا ہے۔ سپریم کورٹ کی مداخلت سے رہائی پانے کے بعد عمران خان کا رد عمل یہ تھا کہ وہ تو جیل میں تھے‘ باہر کیا ہو رہا تھاوہ اس کے کیسے ذمہ دار ہو سکتے ہیں؟حالانکہ ایک مبینہ آڈیو لیک کے ذریعے پتا چلتا ہے کہ وہ حراست میں رہتے ہوئے بھی اپنی پارٹی کے اہم کارکنوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔
سپریم کورٹ سے باہر آنے کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 9 اور 10 مئی کو جو کچھ ہوا وہ ان کی گرفتاری کے خلاف عوامی رد عمل تھا اور اگر انہیں دوبارہ گرفتار کیا گیا تو پھر ایسا ہی ہو گا۔ اس بیان کو عمران خان کی طرف سے 9 اور 10 مئی کے بلوؤں کا جواز سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کے کارکن تو پرامن احتجاج کر رہے تھے‘ دفاعی تنصیبات اور سرکاری اور نجی جائیدادوں پر حملوں میں' 'ایجنسیوں‘‘ کے لوگ ملوث تھے اور اس کا مقصد پی ٹی آئی اور فوج کے درمیان تصادم کروانا تھا۔ میڈیا کے مطابق عمران خان نے نو مئی کے واقعات کی مذمت کرنے میں تامل کیا اور 10 دن بعد دفاعی تنصیبات پر حملوں اور ان کو پہنچنے والے نقصانات کی مذمت کی‘ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نو مئی کے بلووں میں ملوث افراد کو ہر قیمت پر سزا دلانا چاہتی ہے۔ عمران خان کیلئے صورتحال مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ ایک طرف تو ان کے ساتھی جن میں ان کے قریبی رفقائے کار بھی شامل ہیں‘ ان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں اور دوسری طرف ان کے خلاف مقدمات کے ذریعے گرفتاری کا پلان تیار کیا جا رہا ہے۔ ان حالات میں عمران خان کی طرف سے پی ٹی آئی اور اداروں کے درمیان مذاکرات کی اپیل کوئی وزن نہیں رکھتی۔ نومئی سے پہلے حکومت تمام اسمبلیوں کو تحلیل کرکے ستمبر میں عام انتخابات کروانے پر تیار تھی لیکن نو مئی کے بعد جیسا کہ 25 مئی کو سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل کے جواب سے ظاہر ہوتا ہے‘ اب عام انتخابات کا آٹھ اکتوبر کو انعقاد بھی غیر یقینی کا شکار نظر آتا ہے۔
عام انتخابات اگر اپنے وقت مقررہ پر اس سال نہیں ہوتے تو یہ بدقسمتی کی بات ہو گی لیکن اس کی ذمہ داری عمران خان پر ہو گی جنہوں نے حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کو سبو تاژ کرکے ستمبر میں انتخابات کے انعقاد کا امکان ختم کر دیا۔ گزشتہ سال اپریل میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے نتیجے میں اقتدار سے محروم ہو کر عمران خان کی ساری سیاست کا محور ملک کو درپیش بحران کے حل کی تلاش نہیں بلکہ اپنے حریفوں سے بدلہ لینے کی کوشش ہے۔ قومی اسمبلی سے مستعفی ہونا‘ جلسے‘ جلوسوں اور ریلیوں کے ذریعے حکومت اور اداروں پر دباؤ ڈالنا اور آخر میں پنجاب اور کے پی کی اسمبلیوں کو تحلیل کرنا‘ سب اس کوشش کا حصہ ہے۔